افغانستان سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا کاایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن صورتحال بہتر ہونے کے بجائے بھیانک ترین ہوتی جارہی ہے۔طالبان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ملک پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے لیکن دہشت گردی کے مسلسل پیش آرہے واقعات اس کی نفی کررہے ہیں۔پورا ملک خانہ جنگی اور خونریزی کا شکار ہے۔ دہشت گردانہ حملوں کا تسلسل ختم نہیں ہورہا ہے، کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا ہے جب پہاڑوں سے گھرا یہ خطہ ارض انسانی لہوکی بھینٹ نہ لیتا ہو۔مسجد، مدرسے، اسکول، کالج اور کثیر آباد علاقے دہشت گردوںکے نشانہ پر ہیں۔ آج جمعہ کے دن دارالحکومت کابل کے ایک تعلیمی ادارہ میں ہونے والافدائی حملہ اختتام پذیر مہینہ کا انتہائی ہولناک واقعہ ہے جس میں طلبا کی ایک بھاری تعداد موت کے گھاٹ اتر گئی۔ مرنے والوں کی تعداد پہلے تو 19، پھر 24 بتائی گئی لیکن چند گھنٹوں کے بعد یہ خبرآئی کہ اس فدائین حملہ میں 100بچے ہلاک اور درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ہلاک ہونے والے یہ تمام بچے یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے ہونے والے ٹسٹ کی تیاری کررہے تھے اور اس تعلیمی ادارہ میں ماک ٹسٹ دینے کیلئے جمع ہوئے تھے۔حملہ کے بعد طلبا کی لاشیں کلاس روم کی میزوں اور کرسیوں کے نیچے سے نکالی گئیںاور زخمیوں کوا سپتال پہنچایاگیا۔ طالبان حکام حملہ میں ہلاک ہونے والے اور زخمیوں کی تعداد عوام سے پوشیدہ رکھنے کیلئے اسپتال انتظامیہ پر دبائو بھی ڈال رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے اسپتال انتظامیہ کو سخت ہدایت دی گئی ہے کہ کوئی بھی معلومات اسپتال سے باہر نہ جائے۔ میڈیا کے نمائندوںکو اسپتال میں داخل نہیں ہونے دیا جائے اور نہ ہی میڈیا کو سیکورٹی یا حملوں کے بارے میں کوئی اطلاع دی جائے۔کہا جارہا ہے کہ یہ فدائین حملہ دولت اسلامیہ خراسان (ISKP) نے کیا ہے لیکن اب تک اس حملہ کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیںکی ہے۔
جس تعلیمی ادارہ قاز ہائر ایجوکیشن سینٹر پر یہ حملہ کیاگیا، اس میں افغانستان کی قبائلی ہزارہ برداری کے طلبا کی اکثریت ہے جنہیں اس سے پہلے بھی کئی بار نشانہ بنایاجاچکا ہے اور یہ برادری گزشتہ چند ماہ سے مسلسل دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ اس سے قبل اپریل کے مہینہ میں بھی دو تعلیمی اداروں میںاسی طرح کے دھماکے کیے گئے تھے جن میں درجنوں افراد ہلاک اور کئی درجن افراد زخمی ہوگئے تھے۔ رواں ماہ کے دوران یہ تیسرا بڑا حملہ ہے۔2 ستمبر کو افغانستان کے صوبہ ہرات کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے بعد بم دھماکہ ہوا تھا جس میں 14 افراد جاں بحق اور 200 لوگ بری طرح زخمی ہوئے تھے۔پھر 6 ستمبر کو کابل کے علاقے دارالامان میں روسی سفارت خانے کے باہر فدائین حملے میں دو روسی افسران سمیت 20 افراد مارے گئے تھے۔اس سے قبل 22 مئی کو یکے بعد دیگرے چار دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ 22 سے زائد زخمی ہوئے۔ پھر 17 اگست کو مسجد ابوبکر صدیق پر بم حملہ کیا گیا جس میں 20 افراد ہلاک اور40 افراد زخمی ہوگئے۔
طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں اقتدار سنبھالا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان اور اس کے عوام کی سلامتی کیلئے سنجیدہ ہیں، لیکن خونریزی اور بربادی پھیلانے کا سلسلہ بھی پہلے کی طرح ہی جاری ہے۔اقلیتوں اور خواتین کے ساتھ طالبان کے سلوک میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔خواتین کے حقوق سمیت تمام تر بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق پر قدغن ہے۔ طالبان نے اب تک دوحہ معاہدہ کی پاسداری کا کوئی عملی ثبوت بھی نہیںدیا ہے تو دوسری جانب ان کی مخالف قوتیں بھی سرگرم ہیں۔یہ قوتیں اقلیتوں میں خوف و ہراس پیداکرنے کیلئے مسلسل بم دھماکے اور فدائین حملے کررہی ہیں۔تیسری جانب ملک کی معاشی اورسماجی بربادی افغانی عوام کو موت کے منھ میںدھکیل رہی ہے۔ مانگے کی بیساکھیوں پر کھڑی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔90 فیصد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔ملک کی بیشتر آبادی بھوک اور قحط سے دوچار ہے۔ 20 میں سے صرف ایک خاندان غذائی اشیا تک رسائی حاصل کرپا رہا ہے۔ زلزلے، سیلاب اور دیگرقدرتی آفات نے افغان سماج کو مزید تباہ کر دیا ہے۔ حالیہ مہینوں میں افغان مساجد اور آبادی والے علاقوں کو دہشت گرد تنظیمیں جس طرح سے مسلسل نشانہ بنارہی ہیں وہ بھی اس بات کا کھلا اشارہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی گرفت بھی وہ نہیں ہے جس کا وہ دعویٰ کررہے ہیں، ان کے اندرونی اختلافات اور تنازعات بھی ظاہر ہونے لگے ہیں اور الگ الگ گروہ اپنے طور پراپنی اپنی حاکمیت کا دعویٰ کررہاہے۔
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں 20سال سے زائد کا عرصہ گزارنے والے افغان عوام کیلئے صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیںآئی ہے۔ اس کے برخلاف ایسا لگ رہاہے کہ سارے عذاب افغانستان میں ہی ابل پڑے ہیں۔افغانستان کی اس صورتحال کی ذمہ داری طالبان کے ساتھ ساتھ عالمی برادری اور امریکہ پر عائد ہوتی ہے جس نے انخلا کا ڈرامائی فیصلہ کرتے ہوئے افغانستان کے عوام کے بارے میں کچھ نہیں سوچا۔
[email protected]
ابل پڑے ہیں عذاب سارے
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS