پکی کھیتی دیکھی کے، گرب کیا کسان، اجہوں جھولا بہت ہے، گھر آوے تب جان‘۔ مطلب کئی مرتبہ ہم پکی ہوئی فصل دیکھ کر پراعتماد ہوجاتے ہیں کہ اب تو کام ہوگیا، لیکن جب تک فصل کٹ کر گھر نہ آجائے تب تک کام پورا ہوا نہیں سمجھنا چاہیے۔ کبیر کا یہ دوہا ہم سب کی زندگی کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ فیملی کے کم تجربہ کار ممبران کو اہم مواقع پر احتیاط برتنے کی نیک صلاح دینے کے لیے بڑے بزرگ بھی اکثر اس دوہے کا استعمال کرلیا کرتے ہیں۔ ملک کے سربراہ ہونے کے ناطے وزیراعظم نریندر مودی نے بھی تقریباً 6ماہ پہلے اس دوہے کے ذریعہ ملک کے باشندوں کو الرٹ رہنے کی ایک نیک صلاح دی تھی۔ کورونا دور میں 20اکتوبر2020کو ملک کے نام اپنے ساتویں خطاب میں وزیراعظم نے یہ کہنے کے لیے اس دوہے کا استعمال کیا تھا کہ ملک سے لاک ڈاؤن بھلے ہی ہٹاہو، لیکن وائرس ابھی بھی ڈٹا ہے، اس لیے ڈھلائی نہیں بلکہ کورونا گائیڈلائن پرکڑائی(سختی) سے عمل کرنا ہے۔
آج کے وقت میں نئے انفیکشن کے یومیہ کیسز کا تقریباً ڈیڑھ لاکھ پہنچنا بتارہا ہے کہ ہم نے وزیراعظم کی اس صلاح پر کتنی سنجیدگی سے عمل کیا ہے۔ یہ المیہ ہی ہے کہ نئے معاملات کی رفتار میں ٹیکہ کاری پروگرام کی شروعات کے بعد اچانک اضافہ ہوا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ ٹیکہ کو کورونا کا ’رام بان‘ سمجھ کر لوگ زیادہ لاپروا ہوئے ہیں، جب کہ یہ بار بار واضح کیا جارہا ہے کہ ٹیکہ لگانے کے بعد بھی کورونا گائیڈلائن پر پہلے کی ہی طرح عمل کیا جانا ضروری ہے۔ لاپروائی برتنے میں ماہرین اور نوسیکھیوں کا فرق اس طرح مٹا ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مشہور اسپتالوں کے ڈاکٹر تک ٹیکہ لگوانے کے بعد متاثرہورہے ہیں۔
ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ کاروباری سرگرمیوں اور معیشت میں بہتری صرف کارپوریٹ دنیا کیلئے ہی فائدہ کا سودا نہیں ہوتی، بلکہ ہر خاص وعام کی اس میں حصہ داری ہوتی ہے۔ کورونا سے جنگ میں بھی وزیراعظم نے اسی عوامی حصہ داری کی امید ظاہر کی ہے۔ اسی امید کو بنیاد دینے کے لیے وزیراعظم نے مضبوطی کے ساتھ اسی لاک ڈاؤن کو مسترد کیا ہے، جسے ایک سال پہلے مجبوری میں نافذ کرنا پڑا تھا۔ سوچ یہی ہے کہ سب کا ساتھ ہوگا تو کورونا سے دو-دو ہاتھ کرنا بھی آسان ہوگا۔
اتفاق سے جس وقت ڈاکٹروں کے متاثر ہونے کی خبر سامنے آئی، تقریباً اسی وقت وزیراعظم ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ کورونا کی روک تھام کے لیے بیحد اہم میٹنگ کررہے تھے۔ اس میٹنگ میں دیگر کئی اہم فیصلوں کے ساتھ وزیراعظم نے یہ بھی واضح کردیا کہ پہلی لہر کے مقابلہ دوسری لہر کے زیادہ وسیع اثر کے باوجود ملک کے سامنے فی الحال لاک ڈاؤن لگانے جیسے حالات نہیں ہیں۔ وزیراعظم نے اس کی وجہ بھی بتائی کہ نئے طریقہ کی اس جنگ میں گزشتہ ایک سال میں ملک کس طرح تبدیل ہوا ہے، کیسے آج کورونا سے نمٹنے کے لیے ملک کے پاس وہ تمام وسائل اور طریقے موجود ہیں جو گزشتہ سال تک نہیں تھے اور کیسے اگر انتظامیہ اپنی ’سستی‘ اور عام آدمی اپنی ’لاپروائی‘ چھوڑ دے تو کورونا کو قابو میں لایا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم کا تجویز کردہ یہ متبادل یقینا ان حالات سے کہیں آسان اور قابل احترام ہے، جو گزشتہ سال لاک ڈاؤن لگانے کے دوران ہمارے سامنے آئے۔ بیشک لاک ڈاؤن کے اثر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، لیکن رشتوں میں دوری، نقل مکانی کی مجبوری، روزی گنوانے کی لاچاری سے منسلک ان سیکڑوں تصاویر کو بھی کیسے بھلایا جاسکتا ہے جو لاک ڈاؤن کے دوران ملے گہرے زخموں کی کہانی بیاں کرتی ہیں۔ ’جان ہے تو جہان ہے‘ کی مجبوری نے ملک کی معاشی صحت کو بھی بہت نقصان پہنچایا۔ حالاں کہ بعد کے وقت میں جس طرح ہم نے اپنے وسائل تیار کیے، اسی طرح معیشت کو بھی پٹری پر لانے کے جتن کیے گئے، جس کے مثبت نتائج آنے شروع بھی ہوگئے ہیں۔ ایسے میں دوبارہ لاک ڈاؤن کی جانب بڑھنا، ملک کو دوبارہ پیچھے دھکیلنے جیسا ہی ہوگا۔
اس وقت کورونا کی دوسری لہر سے سب سے زیادہ متاثر ریاست مہاراشٹر ہے اور اگر اکیلے مہاراشٹر میں ہی لاک ڈاؤن لگادیا جائے تو ملک کو 40ہزار کروڑ روپے کا معاشی نقصان جھیلنا پڑسکتا ہے۔ مہاراشٹر کی ملک کی جی ڈی پی میں 15فیصد حصہ داری ہے تو اس ایک اعدادوشمار سے ہی ملک کو ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ریٹنگ ایجنسیوں کا اندازہ ہے کہ دوبارہ لاک ڈاؤن لگا تو ٹرانسپورٹ اور ہوٹل انڈسٹری تقریباً تباہ ہوجائے گی اور مالیاتی خدمات، رئیل اسٹیٹ، پبلک ایڈمنسٹریشن جیسے سیکٹروں کو بھی زبردست نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔ اس سے جی ڈی پی ریکوری پر خطرہ میں اضافہ ہوگا۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں ایک رفتار پکڑنے کے بعد مستحکم ہونے لگی ہیں اور بلومبرگ نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کے خدشہ کے دوران اس میں مہینے در مہینے اُتارچڑھاؤ بڑھ سکتا ہے۔ ویکسین آنے سے بازار میں آئی امید بھی اب آہستہ آہستہ کمزور پڑتی نظر آرہی ہے۔
ملک کا قرض اور جی ڈی پی کا تناسب ایک اور اشارہ ہے جس پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ میں اس تناسب کا 74فیصد سے بڑھ کر 90فیصد تک پہنچنا بتایا گیا ہے۔ حالاں کہ اس معاملہ میں دوسرے ممالک کا بھی یہی حال ہے، لیکن ہمارا فاصلہ کچھ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ یہ بڑھوتری تبھی رکے گی جب کاروباری کمپنیوں کو ان کی توسیع کے لیے تعاون اور سرمایہ کاروں کو معاشی حالات کے کنٹرول میں رہنے کا یقین دلایا جائے گا۔ اس کے لیے ٹیکہ کاری پروگرام سمیت ان تمام اچھے اقدامات کو مزید آگے لے کر جانا ہوگا، جسے کورونا بحران کے دوران مودی حکومت نے شروع کیا ہے۔ معیشت کو کھولنے کی کوششیں، مختلف سیکٹروں کے لیے راحت پیکیج اور لاک ڈاؤن کے دوران حکومت کی معاون پالیسیوں سے معیشت بڑی مشکل سے پٹری پر لوٹی ہے۔ گزشتہ سال جون میں تقریباً 24فیصد کا غوطہ اور ستمبر سہ ماہی میں 7.5فیصد کی کمی کے بعد معیشت تکنیکی طور پر کسادبازاری میں پہنچ گئی تھی، لیکن دسمبر سہ ماہی میں 0.4فیصد کا اضافہ درج ہونے کے بعد وہ برا دور اب پیچھے چھوٹ چکا ہے اور اب ٹیکہ کاری پروگرام اس میں اندازہ سے تیز بہتری لارہا ہے۔ ظاہری طور پر ایسے موڑ سے واپس لوٹنا گزشتہ 8-10ماہ کی محنت پر پانی پھیرنے جیسا ہوگا۔
ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ کاروباری سرگرمیوں اور معیشت میں بہتری صرف کارپوریٹ دنیا کے لیے ہی فائدہ کا سودا نہیں ہوتی، بلکہ ہر خاص وعام کی اس میں حصہ داری ہوتی ہے۔ کورونا سے جنگ میں بھی وزیراعظم نے اسی عوامی حصہ داری کی امید ظاہر کی ہے۔ اسی امید کو بنیاد دینے کے لیے وزیراعظم نے مضبوطی کے ساتھ اسی لاک ڈاؤن کو مسترد کیا ہے، جسے ایک سال پہلے مجبوری میں نافذ کرنا پڑا تھا۔ سوچ یہی ہے کہ سب کا ساتھ ہوگا تو کورونا سے دو-دو ہاتھ کرنا بھی آسان ہوگا۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)