اعظم خاں پر اکھلیش یادو کا بیان: ہائے اس زود ِپشیماں کا پشیماں ہونا

0

شاہد زبیری

سماجوادی پارٹی کے بانیان میں شامل اور اس کے قداور لیڈر مانے جا نے والے اعظم خاں کیخلاف رامپور کی ایم پی اور ممبرانِ اسمبلی سے متعلق معاملوں کی سماعت کر نے والی عدالت کا فیصلہ آنے اور اس کے نتیجہ میں ان کی اسمبلی رکنیت ختم کئے جانے کے بعد دوسرے دن سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو نے جاری اپنے بیان میںبر سرِ اقتدار پارٹی بی جے پی پر اعظم خاں کے معاملہ میں سیاسی انتقام کے جذبے سے کام لینے کا الزام لگا یا ہے اور کہا ہے کہ اعظم خاں بی جے پی سرکار کی آنکھوں میں اس لئے کھٹکتے ہیں کہ وہ فرقہ پرست طاقتوں کے سخت مخالف ہیں اور جمہوریت اور سماجواد پر یقین رکھتے ہیں اور نفرت کی سیاست نہیں کرتے اسی بناء پر وہ بی جے پی کی آنکھ کی کر کری بن گئے انہوں نے کہا کہ اسمبلی میں بھی اعظم خاں کے ناقابلِ تردید اور تیکھے بیانات بی جے پی کیلئے پریشانی کا باعث بن رہے تھے اس لئے ان کیخلاف سازش کے بیج بوئے گئے ۔
اکھلیش یادو کے اس بیان میں چاہے جتنی صداقت ہو لیکن یہ احساس ان کو اس وقت کیوں نہیں ہوا جب بی جے پی سرکار نے اعظم خاں کی قائم کردہ جوہر یو نیورسٹی پر بلڈوزر چلوایا اور مبیّنہ طور پر بھینس بکری اور سائیکل چوری سے لیکر کتاب چوری تک کے الزامات کے تحت اعظم خاں پر مقدمات درج کروائے جس کے نتیجہ میںوہ دوسال چار ماہ کی قیدو بند کی صعوبتیں جھیلنے کے بعد رواں سال مئی میںجیل سے باہر آئے اور جیل میں ان کی صحت بھی جواب دے گئی اس وقت اکھلیش یادو نے کیوں لب نہیں کھولے اور کیوں سماجوادی پارٹی سڑکوں پر نہیں اتری سوائے ایک آدھ مرتبہ کچھ اضلاع میں ہائے ہلّا کے ۔ اتنے لمبے عرصہ تک اعظم خاں جیل میں رہے صرف ایک آدھ مرتبہ ہی اکھلیش یادو ملاقات کیلئے جیل گئے وہ بھی تب جب ان کے چاچا اور ان کی قیادت کو چیلنج کرنے والے پرگتی شیل سماجوادی پارٹی کے قائد شوپال یادو نے اس کی پہل کی ۔
واضح رہے کہ ہیٹ اسپیچ معاملہ رامپور کی ایم پی اور ممبرانِ اسمبلی سے متعلق معاملات کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے اعظم خاں کو قصوار وار مان کر ان کیخلاف ہیٹ اسپیچ سے متعلق رپر زنٹیشن پٹیشنر ایکٹ کی تین سنگین دفعات کے تحت تین سال کی سزا اور جر مانہ کا حکم سنا یا ہے اس معاملہ میں اس سے زیادہ سزا نہیں دیجا سکتی تھی ۔ یوں تو اعظم خاں کیخلاف درجنوں مقدمات درج ہیں ۔ اعظم خاں پر پارلیمانی انتخابات 2019میں رامپور کے ایک جلسہ میں نہ صرف اس وقت کے وہاں کے ضلع کلکٹر/رٹرننگ افسر بلکہ وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ اعلیٰ یوگی کیخلاف نا زیبا تبصرے اور اقلیتی فرقہ کو اشتعال دلائے جا نے کے الزامات کے تحت مقدمہ چل رہا تھا جن کو عدالت نے صحیح مانتے ہوئے اس کیس میں یہ زیادہ سے زیادہ سزا سنائی ہے جس کے نتیجہ میں اعظم خاں کی اسمبلی رکنیت ختم ہو گئی ہر چند کہ ان کو رامپور کے سیشن جج کی عدالت میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اگر اپیل میںاعظم خاں بر ی بھی ہو جا تے ہیں تو ان کی رکنیت بحال نہیں ہو گی اور وہ 6 سال تک الیکشن کیلئے بھی نا ہل مانے جا ئیں گے ایسا قانون کے ماہرین کی رائے ہے ۔ اس طرح کے کیسوں میں پارلیمینٹ یا اسمبلی کی رکنیت ختم ہو نے کی بابت خود سپریم کورٹ نے گائڈ لائن دے رکھی ہے کہ اگر ایسے معاملوں میں کسی ایم پی یا ایم ایل اے کو دو سال سے زائد کی سزا ہو تی ہے تو پارلیمنٹ اور اسمبلی کی رکنیت ختم ہو جا ئے گی چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اعظم خاں کی یو پی اسمبلی کی رکنیت ختم ہو گئی ۔اپیل میں اگر بری بھی ہو جا تے ہیں تو یقیناً سرکار اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی اس لحاظ سے اگر دیکھا جا ئے تو اعظم خاں کا سیاسی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔اب اعظم خاں کی وہ آواز جو پارلیمنٹ اور یو پی اسمبلی میں ایک لمبے عرصہ تک گونجتی رہی عدالت کے فیصلہ نے اس آواز کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیا ہے ۔سیاسی جلسوں میں بھی یہ آواز اب اپنے روایتی بلند آہنگ کے ساتھ کم ہی سنائی پڑے گی،سنائی پڑے گی کہ نہیں ،کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔
اعظم خاں کی ہیٹ اسپیچ معاملہ میں رامپور کی عدا لت نے جس سرعت کا مظاہرہ کیا وہ بھی ملک کی دوسری عدالتوں کیلئے قابلِ تقلید ہے اس لئے کہ یہ مانا جاتا ہے کہ انصاف میں تاخیر انصاف کا خون ہے ۔کیا ملک کی جن عدالتوں میں ہیٹ اسپیچ کے معاملوں کی سماعت چل رہی ہے کیا وہ عدا لتیں بھی اسی سرعت کا مظاہرہ کریں گی جسکا مظاہرہ اعظم خاں کے کیس میں رامپور کی عدالت نے کیا ہے ؟ یہاں تو حال یہ ہیکہ کوئی جتنی چا ہے سماج میں نفرت پھیلائے، ایک مخصوص فرقہ کا سوشل اور کارو باری بائیکاٹ کرنے اور گولی مارنے کیلئے بھیڑ کو اکسائے پھر بھی کچھ نہیں بگڑتا بلکہ وزارت کی کرسی ملتی ہے مرکزی وزیر انوراگ کی مثال سامنے ہے ۔ بی جے پی لیڈر پرویش ورما کا ایک خاص فرقہ کیخلاف دیا گیا بیان ہویا مظفر نگر کے فسادات کے ملزم بی جے پی کے سابق ممبر اسمبلی سنگیت سوم کی اشتعال انگیزی،ورون گاندھی کے آگ لگا نے والے بیانا ت علاوہ ازیں آئے دن بی جے پی ،وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لیڈروں اور ان کے گماشتوں کے مسلم اقلیت کیخلاف دئے جارہے نفرت انگیز بیانات ، کیا یہ ہیٹ اسپیچ کے زمرہ میں نہیں آتے آخر سرکار یا ضلع انتظامیہ اور پولس ان کیخلاف کیوں حرکت میں نہیں آتی اور کیوں کارروائی نہیں ہوتی آخر یہ دوہرا معیار کس لئے ۔سوال یہ بھی ہیکہ کیا جمہوریت میں حکمراں جماعت کے لیڈران پر نکتہ چینی یا تنقید یا بیو رو کریسی کے کام کاج پر انگلی رکھنا بھی ہیٹ اسپیچ کے زمرہ میں آتا ہے؟ اگر ایسا ہوتا تو بوفورس معاملہ میں آنجہانی وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے بارے میں اپنے جلسوں میں گلی گلی میں شور ہے راجیو گا ندھی چور ہے کے نعرے لگوانے والے اورپارلیمینٹ میں نہرو سے لیکر اندرا اور منموہن سنگھ کیخلاف نکتہ چینی اور سخت تنقید کرنے والے جن سنگھ اور بی جے پی کے کتنے لیڈران کی رکنیت بھی ختم ہو گئی ہوتی ، الیکشن کیلئے نا ہل قرار دیدئے گئے ہوتے اور جیل کی ہوا کھا رہے ہو تے اقتدار میں نہ ہوتے ۔ سچ یہ ہے کہ صحت مند سیاست اور صحت مندجمہوریت کے علاوہ صحت مند سماج کیلئے بھی مہذب انداز میں مثبت تنقید ، نکتہ چینی اور محاسبہ ضروری ہے ۔کوئی مہذب سماج مذہب ، رنگ ،نسل ،زبان اور ذات برادری کے نام پر اشتعال انگیزی اور منافرت اور بد زبانی کی اجا زت نہیں دیتا اور دینی بھی نہیں چا ہئے اگر کوئی یہ جرم کرتا ہے خواہ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں کرے یا سڑک پر کسی جلسہ میں یا میڈیا اور سوشل میڈیا میں وہ یقیناً قابلِ گرفت ہونا چا ہئے اگر اعظم خاں نے یہ جرم کیا ہے اور عدالت نے اس کو جرم تسلیم کر لیا اور سزا سنائی ہے تو ہماری سرکاروں ،انتظامیہ ،پولس اور عدالتوں کو اسی طرح فعال رہنا چاہئے اور ایسا کرنے والو ں کو کیفرِ کردار تک پہنچا نا چا ہئے اور انصاف کے معاملہ میں دوہرا معیار اختیار نہیں کر نا چاہئے، مذہب ، ذات رنگ ،نسل یا کسی پارٹی کا چہرہ نہیں دیکھنا چا ہئے ہم تب ہی صحت مند سیاست، صحت مند جمہوریت اور صحت مند سماج کا تصور کر سکتے ہیں اور ملک اور قوم کو ترقی دلا سکتے ہیں ۔اعظم خاں معاملہ میں اگر سماجوادی پارٹی کے قائد اکھلیش یادو یادو کو یہ لگتا ہے کہ اعظم خاں سیاسی سازش کا شکار بنا ئے گئے ہیں تو ان کو دیر میںغلطی کا حساس ہوا ہے۔ انہوں نے اس معاملہ میں مکمل سکوت اختیا رکھا اور تب بو لے جب اعظم خاں کیخلا ف اس ‘ سازش کے بیج ‘برگ و بار لے آئے جو ان کے بقول بی جے پی نے بوئے تھے ۔اکھلیش کے اس رویّہ پر غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS