شاہد زبیری
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
ّّّّّّّّّیہ زبان زد شعر، طنزو مزاح کے مشہور شاعر جسٹس اکبر الٰہ بادی کا ہے اکبر الٰہ بادی سرسیّدؒ کے ہم عصر تھے اور سر سیّد ؒ کے جدید نظریات کے بڑے نقّاد تھے اس وقت جدید نظریات کا مطلب مذہب بیزاری لیا جا تا تھا اس پس منظر میں یہ شعر اس وقت بھی صحیح تھا اور آج بھی صحیح ہے ۔آج مذہب بیزاری کا نہیں مذہبی انتہا پسندی کا زمانہ ہے لیکن یہ شعر آج کے حالات پر بھی صادق آتا ہے ۔ابھی مولانا کلیم اللہ صدّیقی اور سینئر آئی اے افسر محمد افتخار الدّین کے واقعات کی گونج تھمی نہیں تھی کہ ایک مرتبہ پھر ہریا نہ کے گرو گرام پرانے نام گڑ گائوں میں کھلے میں نمازِ جمعہ پر سخت گیر ہندو تنظیموں نے واویلا شروع کر دیا ہے ۔ گرو گرام میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں تعلیم یافتہ مسلم نوجوان کام کر تے ہیں اور وہ آ ج نہیں پہلے سے کمپنیوں کے سامنے پڑے کھلے مقامات اور پارک وغیرہ میں جمعہ کی نماز ادا کرتے آئے ہیں۔ کورونا کے سبب لاک ڈائون سے پہلے بھی سخت گیر ہندو تنظیمیں کھلے میدان میں نمازجمعہ پر اعتراض کرتی رہی ہیں اس مرتبہ بھی انہوں نے یکم اکتو بر 2021کو ہنگا مہ کیا لیکن انتظامیہ مستعدی اور سمجھانے بجھا نے پر بات ٹال دی گئی لیکن یہ مسئلہ ٹلنے والا نہیں آئندہ جمعہ کو بھی خدشہ ہے کہ پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوں۔
یہاں آئینِ ہند میں اقلیتوں کو دی گئی مذہبی آزادی کی ضمانت اور گارنٹی کی دفعات کی تفصیل کا موقع نہیں جن دفعات کے تحت مذہبی اقلیتوںمسلم ، سکھ ، عیسائی ، بودھ ، پارسی اور کچھ ریاستوں میں جین مذہب کے پیرو کاروں کو اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اپنے مذہب کی تبلیغ اور تشہیر کرنے کی کھلی اجازت ہے لیکن آئینِ ہند میں دی گئی اس آزادی کوسخت گیر ہندو تنظیمیں پسند نہیں کرتی ہیں خاص طور پرمسلم اور عیسائی مذہبی اقلیتوں کی ملی اس آزاد ی کو یہ تنظیمیں گوارہ ہی نہیں کرتی ہیں،ان کا الزام ہے کہ اس آزادی کا فائدہ اٹھا کر مسلم اور عیسائی اقلیتیں ہندو اکثریت کے لوگوںکو مالی لالچ اور جنت دوزخ کاڈر دکھا کر مذہب تبدیل کرا رہی ہیںاور آبادی کا تناسب بگاڑ رہی ہیں جس سے ہندو اکثریت کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خد شہ ہے۔ اس خدشہ کی بنیاد انتہائی لچر اور کمزور ہے، اس پر ہندو دانشور اور مسلم دانشور کتابیں لکھتے آرہے ہیں جن میںملک میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد وشمار اور statistics کے حوالوں سے اس خدشہ کی پول کھو لی جاتی رہی ہے۔ حال میں قومی الیکشن کمیشن کے سابق چیئرمین ایس وائی قریشی کی انگریزی کتاب five Myths منظرِ عام پر آچکی ہے جس میں دلائل اور شواہد سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ population demographic changeآبادی کے تناسب میں تبدیلی کا خدشہ بے بنیاد ہے ۔اس کتاب پر کچھ چینلوں پر سیر حاصل تبصرے اور تجزیے سامنے آچکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اکثریتی آبادی کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ ،خدشہ نہیں بلکہ سیاسی ہتھیار ہے اور یہ اقلیتوں کے خلاف جھوٹا پرو پیگنڈہ ہے جس کا مقصد ہندو اکثریت کے دماغوں میں مسلم اور عیسائی اقلیت کے خلاف زہر بھرنا ہے اور اقتدار پر قبضہ کر نا ہے۔ لو جہاد کے پرو پیگنڈہ نے اسی کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ اس پروپیگنڈہ کو بنیا د بنا کر پہلے عیسائی مشنریز پر حملے کئے جا تے رہے ہیں اب مسلم تنظیمیں اور افراد اس کی زد میں ہیں۔ اسی لئے یو پی کی یو گی سرکار نے مذہب کی تبدیلی کا ہوّا کھڑاکرکے آئین ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کی پروا کئے بغیر اور آئین کی روح سے متصادم تبدیلی مذہب کے خلاف ایکٹ پاس کرانے میں کامیا بی حاصل کر لی اور ہر شہری سے اس کا یہ حق چھین لیا کہ وہ کس مذہب کو اختیار کرے اور کس مذہب کو قبول کرے۔ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کا مطلب دوسرے مذاہب کی تنقیص اور اپنے مذہب کی برتری نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے کہ افسر یا وزیر یا کوئی آدمی جہاں رہتا ہے، وہاں اپنے مذہب کے مطابق مذہبی رسوم انجام نہیں دے سکتا ہے۔ اگر عوامی مقامات پر مذہبی جاگرن اور دیگر مذہبی تقریبات ہو سکتی ہیں تو نماز کیوں نہیں پڑھی جا سکتی، وہ بھی ایسی صورت میں جب آس پاس کو ئی مسجد نہ ہو۔
مولانا کلیم اللہ صدّیقی نے تبلیغ کے لئے ڈاکٹر ذاکر نائک کا طریقہ تو اختیار نہیں کیا انہوں نے سوشل میڈیا کا سہا را لیا اور یو ٹیوب کے ذریعہ اپنے کام کی زور شور سے تشہیر کی، وہ اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں، ان پر دین کی دعوت اور ہندو جوانوں کا مذہب تبدیل کرا نے کے نام پر غیر قانونی طریقہ سے کروڑہا کروڑ کے غیر ملکی فنڈ اکٹھا کرنے کا الزام ہے جس کی جانچ چل رہی ہے ۔ اسی کڑی میں 2014کے بیچ کے سینئر آئی اے ایس افسرمحمد افتخار الدّین جو بحیثیت کمشنر یو پی کے کئی علاقوں میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور کانپور کے کمشنر رہنے کے بعد اب یو پی روڈ ویز کے ایک بڑے منصب پر فائز ہیں وہ بھی 6-7سال پرانی اپنی ایک ویڈیو کلپ کی بنا پر تبدیلی مذہب کے الزام کی زد میں آگئے ہیں اور جن کے خلاف یو پی اے ٹی ایس( اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ) جانچ کررہی ہے۔ یہ تو جانچ رپورٹ آنے کے بعد ہی پتہ چل پا ئے گا کہ جو الزام محمد افتخار الدّین پر عائد کئے گئے ہیں اس کی سچائی کیا ہے ؟ لیکن سوشل میڈیا پر پوسٹ اس ویڈیو سے عام آدمی کو یہی لگتا ہے کہ یہ ماہِ رمضان میں تراویح کے موقع پر کی گئی قرآن کی بابت ان کی کسی تقریر کا ویڈیو کلپ ہے، اس میں ایک اور صاحب بھی کچھ کہتے سنائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ فرطِ جذبات میں اللہ کے بندو ںکو دین کی دعوت اور اسلام کا پیغام پہنچانے کی بات کہہ رہے ہیں۔ محمد افتخار الدّین کے خلاف یو پی اے ٹی ایس کی جانچ کو لے کر مولانا کلبِ جواد کا بیان سامنے آ چکا ہے جس میں انہوں نے جانچ پر سوال اٹھایا ہے، اس کے بعد تازہ بیان ممبر آف پارلیمنٹ اور مجلس اتحاد المسلمین کے قائد اسد الدّین اویسی کا ہے۔ انہوں نے بھی اے ٹی ایس کی جانچ پر سوال اٹھایااور کہا کہ مذہب کے نام پر ٹارگیٹ کر کے استحصال کیا جا رہا ہے، ان کا اعتراض ہے کہ حکومت اس معاملہ میں دوہرا معیار اختیار کررہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر گھرمیں کسی افسر کے اعتقاد پر بحث کرنا جرم ہے تو سرکاری دفاتر میں سبھی مذہبی علامتوں اور شبیہ کے استعمال پر پا بندی لگا ئیں اور عوامی مقامات پر کسی بھی مذہبی پروگرام میں حصّہ لینے والے کسی بھی افسر کو سزا دیں دوہرا معیار کیوں؟۔ اسد الدّین اویسی کے اس بیان سے اتفاق اور عدم اتفاق کی بحث میں پڑے بغیر یہ حقیقت ہر کسی کو معلوم ہے کہ سرکاری افسرسرکاری بنگلوں میں مذہبی پرو گرام کرتے ہیں، سرکار کے وزرا بھی کرتے ہیں، ہون اور جنم اشٹمی کے پرو گرام ہو تے رہے ہیں یہ سب باتیںعوام میں زیرِ بحث ہیں ۔سوال یہ ہے کہ افسر یا وزیر یا کوئی آدمی جہاں رہتا ہے وہاں اپنے مذہب کے مطابق مذہبی رسوم انجام نہیں دے سکتا ہے اگر عوامی مقامات پر مذہبی جاگرن اور دیگر مذہبی تقریبات ہو سکتی ہیں تو نماز کیوں نہیں پڑھی جا سکتی، وہ بھی ایسی صورت میں جب آس پاس کو ئی مسجد نہ ہو ۔ہمیں نہیں معلوم گرو گرام کے جس 47سیکٹر میںنمازِ جمعہ کو لے کر ہندو تنظیمیں چراغ پا ہیں وہاں آس پاس کوئی مسجد ہے کہ نہیں، جن ہندو تنظیموں نے نمازِ جمعہ پر اعتراض کیا اس کو ضلع انتظامیہ نے یہ کہہ کر غلط ٹھہرایا ہے کہ اس سے ہماری قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ ہم اس کی تائید میں یہ کہتے ہیں کہ اس سے ہمارے ملک کی صدیوں پرانی مذہبی رواداری پر بھی چوٹ پہنچتی ہے لیکن کیا کیجئے ایک زمانہ وہ تھا جب ہمارے ملک میں مذہب بیزاری جنم لے رہی تھی اور ایک زمانہ یہ ہے کہ جس میں مذہبی انتہا پسندی اپنے پیر جما چکی ہے۔یہ دونوں طرزِ فکر انتہا پسندی کی علامت ہیں جس سے بچنا ضروری ہے۔
گرو گرام میں کھلے میدان میں نمازِ جمعہ پڑھنے کا معاملہ ہو یا مولانا کلیم الدّین صدّیقی پر مبینہ تبدیلی مذہب کا الزام اور سینئر آئی اے ایس افسر محمد افتخار الدّین کے سرکاری بنگلہ میں مذہبی تقریب، یہ سب ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں کہ اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر رکھا جا ئے، ان حرکتوں سے اقلیتوں میں خوف تو نہیں اضطراب اور تشویش ضرور پا ئی جا تی ہے ۔ جو سخت گیر ہندو تنظیمیں یہ سب کچھ کررہی ہیں ان سے سرکار پر بھی حرف آتا ہے اور الزام لگتا ہے کہ ان تنظیموں کو سرکار کی پشت پنا ہی حاصل ہے ۔ہریانہ کی کھٹر سرکار میں اس سے پہلے بھی سخت گیر ہندو تنظیمیں مسلم اقلیت کے خلاف مہم چلا چکی ہیں۔ ان سب حرکتوں پر جب تک ہماری نام نہاد سیکو لر پارٹیاں کوئی ٹھوس موقف اختیار نہیں کریں گی تب تک یہ حرکتیں جا ری رہیں گی۔ اس کے خلاف مسلمانوں کو بھی صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتے رہنا چاہئے لیکن ان سیکو لر پارٹیوں سے بھی سوال پو چھتے رہنا چا ہئے جو بی جے پی اور سنگھ پریوار کا ڈر دکھا کر اور سیکولزرم کی دہا ئی دے کر مسلم اقلیت کے ووٹ بٹورتی رہی ہیں کہ سخت گیر ہندو تنظیموں کی مسلم مخالف حرکتوں پر وہ خاموش کیوں ہیں؟ وہ کیوں نہیں بولتی ہیں؟ ایک تاجر کی یو پی پولیس کے ہاتھوں مشتبہ مو ت پرسماجوادی پارٹی کا سیل سماجوادی ویا پار سبھا سڑکوں پر آجا تا ہے، سخت گیر ہندو تنظیموں کی مسلم اقلیت کے خلاف شر انگیزیوں پر کیوں سماجوادی پارٹی زبان نہیں کھولتی، ایک سماجوادی پارٹی ہی کیوں کانگریس اور بی ایس پی نے بھی اس مسئلہ پر ہونٹ سی لئے ہیں اور سیکو لر پارٹیاں سخت گیر ہندو تنظیموں سے ڈری اور سہمی ہو ئی ہیں ان کو اپنے اکثریتی طبقہ کے ووٹ نہ ملنے کا اندیشہ ستا تا رہتا ہے۔
[email protected]