اُمیش چترویدی
گزشتہ صدی کی اسّی کی دہائی میں ماہر اقتصادیات آشیش بوس نے جس اترپردیش کو بیمارو یعنی بیمار ریاست کہا تھا، اس اترپردیش کی صورت کس طرح بدل رہی ہے، اسے سمجھنے کے لیے ورلڈ بینک کے ایک بیان کی جانب توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ ورلڈ بینک نے یہ بیان ایک وفد کی اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے ملاقات کے بعد دیا تھا۔مذکورہ 100 رکنی وفد کی ملاقات کچھ ہی دنوں پہلے یوگی آدتیہ ناتھ سے ہوئی تھی، جس کی قیادت ورلڈ بینک نے کی تھی۔ اس وفد میں دنیا کے طاقتور ممالک کے نمائندے بھی شامل تھے۔
اس پر ملک کے ساتھ ہی سات سمندر پار کے کاروباری گروپوں کی بھی نظر تھی۔ وزیراعلیٰ سے ملاقات کے بعد وفد نے جو کہا، وہ صنعت کی دنیا کے لیے کسی اعتماد سے کم نہیں رہا۔ وفد نے کہا کہ ’اترپردیش نے صنعت کاری، کچرے کو ٹھکانے لگانے، غربت کا خاتمہ، منصوبہ بند شہرکاری، ماحولیاتی تحفظ سمیت ترقی کو گزشتہ6 برس میں نیا کلیور دیا ہے۔ آج اترپردیش جس طرح ضرورتوں کے مطابق ایکشن پلان تیار کرکے کام کر رہا ہے، وہ اس بڑی ریاست میں ہمہ گیر تبدیلی کا ذریعہ بننے والا ہے۔‘ طاقتور اور اقتصادی طور پر اہل ممالک کے وفد اور ورلڈ بینک کا یہ بیان اس لحاظ سے بھی اہم ہے کیونکہ یوگی آدتیہ ناتھ نے اپنی دوسری مدت کار میں 2027تک یوپی کو ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بنانے کا ہدف طے کیا ہے۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے یوگی کتنی مضبوطی اور تندہی سے کوشش کر رہے ہیں، اس کی ایک مثال ورلڈ بینک کے ہندوستانی سربراہ تانو کوآمے کے بیان میں نظر آتی ہے۔ تانو نے کہا کہ وزیراعلیٰ سے بات کرتے ہوئے آپ کو احساس ہوتا ہے کہ اترپردیش حقیقت میں ایک ٹریلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے۔ نہ صرف ان کا ایسا وژن ہے بلکہ وہ اسے پورا بھی کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی پہلی مدت کار میں ہی اس کی بنیاد رکھی گئی تھی،جس کا نتیجہ اس سال فروری کے مہینے میں لکھنؤ میں منعقدہ گلوبل انویسٹرس سمٹ میں نظر آیا، جس میں ریاست کو40لاکھ کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی تجاویز موصول ہوئیں۔سرمایہ کاری کی ان تجاویز کو لانے کے لیے ریاست کی امیج کو بہتر کرنا پڑا، سیکورٹی کا بہترین ماحول بنانا پڑا، نئی اور مؤثر پالیسیاں بنانی پڑیں۔ اس کے ساتھ ہی کئی طرح کے اصلاحی پروگرام بھی کرنے پڑے۔ کبھی بیمار ریاستوں میں شامل یوپی کی پہچان آج ہائی ویز، ہوائی اڈوں، صنعتی راہداریوں اور اقتصادی ترقی سے ہونے لگی ہے۔ یوپی آج موبائل مینوفیکچرنگ میں آگے ہے۔ اِز آف ڈوئنگ کے معاملہ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گنا، آملہ، مٹر کی پیداوار ہو یا اسٹارٹ اپ کے لیے نئے پلانٹ تیار کرنا، ہر معاملے میں یوگی کے لوگ نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔
یوگی آدتیہ ناتھ کا بلڈوزر آج گڈ گورننس کی علامت بن گیا ہے، جسے بی جے پی کی حکومت والی دیگر ریاستیں بھی اپنانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کر رہی ہیں۔ اترپردیش کے کھاتے میں اب ایک اور حصولیابی شامل ہوگئی ہے۔ راجستھان کو پیچھے چھوڑ کر یوپی سب سے زیادہ دودھ پیدا کرنے والی ریاست بن گئی ہے۔ اس تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریاست نے اپنے ماضی کی شان اور وقار کو دوبارہ حاصل کرنا شروع کر دیا ہے۔ گنگا جمنا، سریو اور گومتی جیسی سدا بہار ندیوں کی سرزمین، کانہا کی ماٹی میں کبھی دودھ اور دہی کی نہریں بہتی تھیں، لیکن درمیان میں وہ وقت بھی آیا کہ یہاں کی اپنی نسل کی گائیں غلط پالیسیوں کی وجہ سے معدوم ہونے لگیں۔ جس گنگوتری نسل کی گایوں کی کبھی طوطی بولتی تھی، وہ آج تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتیں۔اسی ریاست میں دودھ کی پیداوار کا ریکارڈ سطح تک پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ سال2022-23 میں ملک کی کل دودھ کی پیداوار میں یوپی کا حصہ 15.72 فیصد رہا، جب کہ14.44فیصد حصہ داری کے ساتھ راجستھان دوسرے نمبر پر رہا، جبکہ 8.73فیصد حصہ داری کے ساتھ مدھیہ پردیش تیسرے نمبر پر اور 7.49فیصد شیئر کے ساتھ گجرات چوتھے نمبر پر رہا۔ اسی طرح ملک کی کل دودھ کی پیداوار میں6.7فیصد حصہ داری کے ساتھ آندھراپردیش پانچویں نمبر پر ہے۔
دودھ کی پیداوار کی اس پیش رفت کو ہمیں دیہی معیشت کی بہتری کے طور پر دیکھنا ہے۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھیں تو یوگی کے دوراقتدار میں دودھ کی پیداوار میں25 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔2017-18 میں جہاں ریاست میں 2.9کروڑ ٹن دودھ کی پیداوار تھی، وہیں2022-23 میں بڑھ کر یہ3.6کروڑ ٹن پہنچ گئی۔ دودھ کی پیداوار کی اس کامیابی کی کہانی میں یوگی حکومت کے ذریعہ شروع کیے گئے نند بابا دودھ مشن کا بڑا کردار ہے۔ اترپردیش میں دودھ کی پیداوار کے ذریعے ریاست کی خواتین کی خوشحالی کا ایک نیا دروازہ کھلا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے دودھ کی پیداوار کے کاروبار میں 70 فیصد حصہ داری خواتین کی ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کو سمجھنے کے لیے ہمیں بندیل کھنڈ کی بلینی دودھ کمیٹی کی مثال کو دیکھنا ہوگا۔ اس کمیٹی سے 41ہزار سے زائد خواتین وابستہ ہیں۔ 795 گاؤوں سے 135ہزار لیٹر دودھ اکٹھا کیا جاتا ہے، جس کا گزشتہ ٹن اوور150کروڑ روپے سالانہ تھا۔ یہ کمیٹی ہر سال اپنی کمائی میں سے 13کروڑ روپے کی بچت بھی کررہی ہے۔ ریاست کی خواتین کی اس کامیابی کی تعریف وزیراعظم مودی بھی کرچکے ہیں۔ بندیل کھنڈ کی طرح وارانسی اور جھانسی میں بھی اس طرح کے اقدامات کے ذریعے خواتین کی حالت بہتر کی جارہی ہے۔ ریاستی حکومت دودھ کی آن لائن فروخت کو یقینی بنا رہی ہے۔ دودھ اور دودھ کی مصنوعات کو پراگ متر اور خواتین کے سیلف ہیلپ گروپس کے ذریعہ آن لائن فروخت کیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے آن لائن دودھ خریدنے والوں کی تعداد71ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
ڈیری صنعت میں خواتین کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے ’مہیلا سمراتھیا یوجنا‘ شروع کی ہے۔ ڈیری اسکیموں کی وجہ سے گاؤوںسے نقل مکانی رک گئی ہے اور نوجوانوں کو اپنے گاؤں میں ہی روزگار بھی مل رہا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے2047تک ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کی اپیل کی ہے۔ اس کے لیے گاؤوںکی منصوبہ بند ترقی ضروری ہوجاتی ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کہتے تھے کہ ہندوستان گاؤوں کا ملک ہے۔ اگر گاؤوں کی ترقی ہوجائے تو ملک کی ترقی بھی ممکن ہوگی۔
rvr