زرعی قوانین، کسان اور سرکار

0

مرکزی حکومت نے نئے زرعی قوانین کو خواہ وہ آرڈیننس کی صورت میںیا بلوں کی صورت میں منظورکراکے آسانی سے نافذتوکردیا لیکن اب ان ہی قوانین میں وہ الجھتی جارہی ہے ۔ حکومت یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ کسانوں کو ان قوانین پر اعتراض ہوگا اور وہ ان کی مخالفت کریں گے بلکہ انہوں نے اپنا احتجاج بلوں کی منظوری سے قبل ہی شروع کردیا تھا اور یہ کسانوں کی مخالفت اور احتجاج کا ہی نتیجہ تھا کہ پارلیمنٹ میں بلوں کی منظوری سے قبل ہی اکالی دل کو مجبوراً این ڈی اے اور سرکار سے علیحدگی اختیار کرنی پڑی۔پھر بھی سرکار نے عجلت سے کام لیا جو بات چیت قوانین بنانے سے پہلے ہونی چاہئے ، وہ اب ہورہی ہے ۔مظاہرین کسانوں کو جس طرح ملک بھر سے حمایت حاصل ہورہی ہے، بیرون ملک سے ان کے حق میں بیانات آرہے ہیں۔ ان سب باتوں سے ان کے حوصلے کافی بڑھ گئے ہیں۔ وہ سرکار سے مصالحت کے بجائے دو ٹوک بات چیت کررہے ہیں ۔ سرکار کی کوئی بات سننے کی بجائے صرف اپنے مطالبات پر بات کررہے ہیں۔
سرکار اور کسانوں کے درمیان اب تک 5دور کی بات چیت ہوچکی لیکن نتیجہ نکلنا تو دور کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ ہر بات چیت کے بعد صرف اگلی تاریخ کی خبر آتی ہے۔ شاید اس کی وجہ سرکاراورکسانوں کا کافی ہوم ورک ہو۔ جہاں بات چیت سے پہلے کسانوں کی میٹنگ ہورہی ہے۔ وہیں سرکار بھی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں اپنے ایجنڈوں کو طے کررہی ہے۔اس سلسلہ میں ایک میٹنگ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کے گھر ہوچکی ہے۔ چوتھے دور کی بات چیت سے قبل مرکزی وزرا اور پانچویں دور کی بات چیت سے قبل وزیر اعظم کے ساتھ مرکزی وزرا کی میٹنگ ہوئی تھی۔ سرکار کے 3نمائندوں کے ساتھ کسانوں کے 40نمائندے متحد ہوکربات چیت کررہے ہیں ۔ سرکار نے یہ کہہ کر کسانوں کے پالے میں گیند ڈالی کہ وہ جو چاہتے ہیں، تحریری شکل میں دیں تو کسانوں نے 39نکات سرکار کو پیش کردیئے لیکن یہ کہہ کر گیند سرکارکے پالے میں ڈال دی کہ جو بھی بات چیت ہوگی، ان ہی نکات پر ہوگی اور سرکار کو جو بھی کہنا ہے تحریری شکل میں کہنا ہوگا۔ کسان وہ تمام دروازے بند کرتے جارہے ہیں، جہاں سے وہ اپنی باتوں میں پھنس سکتے ہیں یا ان کے خلاف غلط پیغام جاسکتا ہے۔ جیسے وہ مون برت اختیار کرکے اپنی بات تختیوں کے سہارے ’ہاں اور ’نہیں‘ میں کہہ رہے ہیںاورسرکار سے بھی ویساہی جواب مانگ رہے ہیں۔کمیٹی بنانے کی سرکار کی تجویزیا بات چیت کے دوران سرکاری کھانے کی پیش کش ٹھکرا رہے ہیں ۔
جیسے جیسے بات چیت آگے بڑھ رہی ہے۔ کسان دبائو بڑھانے کی حکمت عملی اپنارہے ہیں۔ اب تو ترمیم کے لئے بھی تیار نہیں اور صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ قوانین کی واپسی سے کم منظور نہیں۔ وہ اپنے پتے بہت سوچ سمجھ کر دھیرے دھیرے کھول رہے ہیں۔ پرامن احتجاج اور اسے حاصل ہونے والی عوامی و سیاسی حمایت ان کی طاقت تو بن رہی ہے لیکن وہ استعمال نہیں ہورہے ہیں۔ اپنے بل بوتے پر احتجاج  آگے بڑھا رہے ہیں اور سرکار سے بات چیت کررہے ہیں۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر بات چیت کے دوران ’بھارت بند‘ کی کال دی اور اس کے اگلے دن یعنی 9دسمبر کو سرکار سے بات چیت ہوگی جو کافی مؤثر ہوسکتی ہے۔ سرکار کے لئے سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ جن کسانوں کے لئے زرعی قوانین بنائے وہی کہہ رہے ہیں کہ ہم یہ قوانین نہیں چاہتے انہیں واپس لیں۔ اس طرح عجلت میں بنائے گئے قوانین سرکار کے لئے گلے کی ہڈی بنتے جارہے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وجود اور وقار کا مسئلہ بنے زرعی قوانین کا کیا ہوگا؟
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS