کووِڈ-19کی وجہ سے کشمیری سیب اور چیری کے بعد غیر کشمیری تربوزے کا بازار خراب

    0

    سرینگر: صریرخالد،ایس این بی
    کووِڈ 19کی وجہ سے جہاں وادیٔ کشمیر کی میوہ صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچی ہے وہیں ماہِ رمضان میں کشمیریوں کا محبوب ترین غیر کشمیری میوی تربوزہ بھی اپنی کشش کھو گیا ہے۔ حالانکہ لاک ڈاون یا تالہ بندی کی وجہ سے سونے پڑے بازاروں میں تربوزے کی کوئی کمی تو نہیں ہے لیکن ،جیسا کہ اسکے تاجروں کا کہنا ہے، اسکی جانب کوئی رغبت نہیں ہے۔ میوہ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مقابلتاََ معمولی قیمتوں پر بھی لوگ تربوزہ نہیں خرید رہے ہیں یہاں تک کہ اس میوے کا کاروبار نصف سے نیچے تک آگیا ہے۔
    ایک طرف کووِڈ 19-کے ڈر سے تالہ بندی اور لوگوں کا بازار نکلنے سے قاصر ہونا تو دوسری جانب موسم کا ٹھنڈا مزاج،لوگ تربوزے کے اندر کی لالی میں کوئی کشش نہیں دیکھ پا رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر میں میوے اور سبزی کی سب سے بڑی منڈی ’’پارمپورہ فروٹ منڈی‘‘ سے وابستہ ایک میوہ بیوپاری گلزار احمد کہتے ہیں کہ اثر تو سبھی میوے کی فروختگی پر ہوا ہے لیکن تربوزہ چونکہ ایک مختصر مدت کیلئے رہتا ہے،اسکا بازار کچھ زیادہ ہی مندی کا شکار ہوگیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ماہِ رمضان کا مہینہ گویا تربوزے کے کاروبار کا زبردست سیزن مانا جاتا ہے لیکن اب کے سب کچھ ’’اُلٹا‘‘ ہوا رہا ہے۔ منڈی سے وابستہ تاجروں کی انجمن کے صدر بشیر احمد بشیر کی مانیں تو امسال تربوزے کا بیوپار آدھا ہوگیا ہے بلکہ اس سے بھی کم۔وہ کہتے ہیں ’’عام حالات میں تو ماہِ رمضان میں روزانہ کم از کم ایک ہزار ٹن تربوزہ بیچا جاتا تھا لیکن امسال زیادہ سے زیادہ 400 ٹن کے آس پاس مال بِک جاتا ہے‘‘۔
    تربوزے کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یوں تو اس رسیلے میوے کے خریدار پہلے سے ہیں لیکن حالیہ برسوں میں وادیٔ کشمیر کا درجۂ حرارت بڑھ جانے کی وجہ سے گرمیوں میں مزید لوگوں کیلئے تربوزہ پہلی پسند بن گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ تربوزہ کھاتے ہیں یہاں تک کہ روزانہ وادی کے مختلف علاقوں میں ہزاروں ٹن (تربوزے) بِک جاتے ہیں لیکن امسال ایک تو لوگ گھروں میں بند ہیں اور دوسرا یہ کہ موسم بہت ٹھنڈا ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں افطار کے وقت چونکہ لوگ پیاس بجھانے کیلئے تربوزہ کھاتے تھے اسلئے مال کی بڑی بِکری ہوجاتی تھی لیکن اس سال ایک تو تالہ بندی ہے اور دوسرا موسم بھی ٹھنڈا ہے لہٰذا  توبوزے کی طلب نہیں ہے یہاں تک کہ دس یا پندرہ روپے فی کلو کے حساب سے بھی (تربوزہ) نہیں بِکتا ہے۔
    سرینگر کے چھانہ پورہ علاقہ میں تالہ بندی کے دوران تربوزے سے بھرا ایک چھوٹا ٹرک گھوم رہا تھا اور اس میں بیٹھا ایک شخص لوگوں کو لبھانے کیلئے ’’موفتوئے موفتوئے‘‘ (مفت میں مفت میں یعنی بہت کم قیمت میں) کی منادی کرتا جارہا تھا تاہم بہت کم لوگ اس ٹرک کی جانب جارہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ لوگ کووِڈ 19- کی وجہ سے باہر سے آنے والی کوئی بھی چیز لینے سے ڈر رہے ہیں لہٰذا تربوزے کے بازار میں مندی ہے۔ نذیر احمد نامی ایک شخص کو اس بات سے اتفاق ہے اور وہ کہتے ہیں ’’ہم واقعہ باہر سے آنے والی چیزیں ،جن میں میوے بھی شامل ہیں، لینے سے ڈر رہے ہیں،کیا پتہ یہ کتنے ہاتھوں سے ہوکر ہم تک پہنچتی ہیں اور کیا معلوم ان میں سے کوئی کووِڈ 19- کا شکار ہو‘‘۔
    بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے بہت پہلے ہی پنجاب اور دیگر علاقوں میں تربوزے کی فصل خرید رکھی ہوتی ہے لہٰذا انہیں کسانوں یا تربوزے اُگانے والے علاقوں کے بیوپاریوں کو موعودہ ریٹ کے حساب سے پیسہ دینا ہوگا جبکہ وادی میں یہ میوہ لوگوں کے معدوں سے زیادہ کوڑ دانوں میں پہنچ رہا ہے۔ پارمپورہ منڈی کے ایک بیوپاری کا کہنا ہے ’’حالات تو انشاٗاللہ ٹھیک ہو ہی جائیں گے لیکن تربوزے کا سیزن خراب ہوچکا ہے ،یہ ایک نازک میوہ ہے جسکی عمر بہت زیادہ نہیں ہوتی ہے،وقت پر نہ بِک سکا تو اسے پھینکنا پڑتا ہے‘‘۔
    یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ وادیٔ کشمیر کی اپنی میوہ صنعت بھی تباہی کے دہانے پر ہے۔ایک طرف سردخانوں میں رکھے ہوئے کروڑوں روپے مالیت کے سیب بیرون جموں کشمیر کی منڈیوں تک نہیں پہنچ پانے کی وجہ سے خراب ہونے لگے ہیں تو دوسری طرف چیری کی تیار فصل کے پیڑوں پر پڑے پڑے سڑ جانے کا خدشہ کسانوں کی نیند خراب کئے ہوئے ہے۔
     

    سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS