افغانستان انسانیت کے دوراہے پر

0
RRS Urdu

شاہنواز احمدصدیقی
طاقتیں منھ کی کھانے کے بعد بھی افغانستان کو اپنے قہر کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آرہی ہیں۔ ہڈیا ں جماد ینے والی سخت سردی میں انسانی مدد پر روک نے عام غریب شہری کی زندگی کو اجیرن کردیا ہے۔ دو روز قبل ہی بدترہوئے حالات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ لاکھوں شہریوں کو بدترین حالات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ لہٰذا امداد پر لگی روک کو ہٹا یا جائے۔ دراصل امریکہ نے افغانستان کے غیر ملکی کرنسی کے ذخائر جو 7بلین امریکی ڈالر ہیں، کو منجمد کردیا ہے ، اس کا مقصد طالبان کہ اس کی فرسودہ اور روایتی پالیسیوں سے باز رکھنا ہے۔ یہ وہی پالیسیاں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ان کا مقصد خواتین کو ان کے ’روایتی اور مذہبی بندھنوں‘میں جکڑے رکھنا چاہتا ہے اور ایک مارڈن اور ترقی پذیر معاشرے کو پنپنے نہیں دینا ہے۔
سینٹرل ایشیا اپنی بدترین سردی اور برف باری کے لیے جانا جاتا ہے، طالبان کی اقتدار میں آمد کے بعد سرکاری نظام بالکل بکھر گیا تھا اور ہزاروں لوگ اپنی اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ اس فرار کی تصویریں اور ویڈیو پوری
Standing in solidarity with the people of Afghanistan - YMCA International - World Alliance of YMCAsدنیا نے دیکھا کہ کس طرح طالبان کی آمد کے بعد خوف میں مبتلا کیے گئے لوگ ہوائی جہاز میں لٹک لٹک کر بھاگنے کی کوشش کررہے تھے۔ قارئین کو دیا ہوگا ، افغان بینک کے سب سے بڑے افسر گورنر اجمل احمدی نے بھی کابل سے فرار ہونے سے قبل معزول صدر اشرف غنی پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایک خطیر رقم لے کر فرار ہوگئے ہیں۔ یہ وہی صدر تھے جن کو پوری دنیا نے سر آنکھوں پر بٹھایا تھا اور ان کو طالبان کے خلاف ایک بڑی طاقت اور مرکز کے طور پر پیش کیا گیاتھا۔
افغانستان ، روس کے حملے اور قبضے کے بعد سے ہی غیر ملکی طاقتوں کا اڈہ بن گیا تھا۔ گزشتہ 20سال سے امریکی قیادت والی عالمی فوجوں نے طالبان کو ختم کرنے کے لیے اس خوبصورت اور معدنی اور قدرتی دولت سے مالا مال ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی ہے۔
بندوق کی نوک پر اور بم دھماکے کے ذریعہ سماجی تبدیلی لانے کی کوشش میں ناکام عالمی طاقتیں اب افغانستان کے لوگوں کو اقتصادی پابندیاں لگا کر بدترین انسانی بحران پیدا کررہی ہیں۔
افغانستان کی بدترین معیشت کو حالیہ پابندیوں نے اور آئی سی یو کی طرف دھکیل دیا ہے۔ غربت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ سرکاری ملازموں کو تنخواہ نہیں مل رہی ہے۔ ڈاکٹر ، ٹیچر، دفتروں میں کام کرنے والے ملازمین بینکوں میں کام کرنے والا عملہ جیسے تیسے کام کررہا ہے، مگر اس کو تنخواہ کے نام پر دینے کے لیے کچھ نہیں ، نقد رقم کی قلت کی وجہ سے بینکوں نے رقم نکالنے پر پابندی عائد کررکھی ہے۔ اس بدترین صورت حال پر غور کرنے کے لیے پچھلے دنوں عالمی مسلم برادر ی کی نمائندہ جماعت آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن (او آئی سی)نے پاکستان میں اجلاس کرکے توجہ دلائی تھی۔
57ملکوں کی اس میٹنگ میں نمائندگان نے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اقتصادی اور بینکنگ چینل کو کھولنے کے لیے تدابیر کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ خیال رہے کہ افغانستان کی طالبان سرکار کو ابھی تک کسی بھی ملک نے منطوری نہیں دی ہے۔ پوری دنیا کا کہنا ہے کہ طالبان نے عورتوں کی تعلیم ، ملازمت پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مردوں کے لیے داڑھی رکھنا ضروری قرار دے دیا ہے۔ کھیلوں اور تفریح پر پابندی عائد کردی ہے۔
رواں سخت ترین موسم شروع ہونے سے قبل اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ 23ملین آبادی والے ملک افغانستان کی 55فیصد آبادی فاقہ کشی کا سامنا کرسکتی ہے اور نو ملین لوگ بدترین فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ عالمی برادری افغانستان کے حکمراں طالبان کو براہ راست مدد پہنچانے کے لیے ذریعہ بنانے کے حق میں نہیں ہے ملک کی تقسیم کے لیے طالبان کے ہاتھ میں نظام منتقل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور زیادہ تر عالمی اداروں مثلاً اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ورلڈ فوڈ پروگرام) (ورلڈ ایف پی) یونیسیف کے ذریعہ ہی امداد پہنچا رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے کنٹرول والے افغانستان ری کنسٹرکشن ٹرسٹ فنڈ-یعنی اے آر ٹی ایف- ورلڈ فوڈ پروگرام (ورلڈ ایف پی)کو 180ملین امریکی ڈالر دے گا جو فوڈ سیکورٹی کے لیے مختص ہوگا، جبکہ 100ملین امریکی ڈالر نظام صحت اور بینک سیکٹر کے لیے دیے جانے کی تجویز تھی۔
اے آر ٹی ایف کے فنڈ سے ساڑھے بارہ ملین افراد کو بنیادی صحت خدمات اور ایک ملین لوگوں کو ٹیکہ لگایا جائے گا۔
ترکی اور آر مینا کے درمیان تعلقات میں تلخی اور ترشی پہلی جنگ عظیم سے ہی چلی آرہی ہے اور اس کے اثرات آج تک دونوں ملکوں کی تعلقات پر دیکھے جارہے ہیں۔ گزشتہ 30 سال سے دونوں ملکوں کی سرحدیںملی ہوئی ہیں مگر اس کے باوجود دونوں میں سفارتی تجارتی تعلقات بھی نہیں ہیں اس تعطل کو توڑنے کے لیے کئی مرتبہ کوشش ہوچکی ہیں۔ کوششوں کے باوجود 2009 میں بھی سفارتی رشتے ہموار نہیں ہوسکے ہیں باہر کے لیے رشتے استوار نہیں ہونے دیے گئے اس کی ایک اور وجہ جو اب نظرآرہی ہے وہ آرمینا کو بڑی طاقتوں کی پشت پناہی ہے اور ترکی کو قابو میں رکھنے کے لیے ایشو اٹھایا جاتا رہا ہے۔ بطور خاص امریکہ 1915کے قتل عام کو لے کر ترکی پر عالمی پابندیاں عائد کرنے کی کوششوں میں پیش پیش ہے۔ مگر اب روس نے آرمینا اور ترکی کو قریب لانے کی کوششیں کی ہیں اور ان کا اثر دکھائی دے رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS