محمد حنیف خان
افغانستان برصغیر میں ایک ایسا ملک ہے جو طویل عرصے سے خلفشار کا شکار ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف وہاں کے عوام کی زندگی تباہ و برباد ہے بلکہ اس کی وجہ سے اس کے پڑوسی ممالک کے لیے بھی بڑے مسائل ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان اسی خلفشار اور عدم استحکام کی وجہ سے ایک سردجنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔ دونوں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور زک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔افغانستان کا الزام ہے کہ پاکستان منتخب حکومت کے بجائے طالبان کی حمایت کر رہا ہے، ان کو افرادی اور اسلحہ جاتی مدد پہنچا رہا ہے۔جبکہ پاکستان اس سے انکار کر رہا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ طالبان آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ یکے بعد دیگرے شہروں پر قبضے کر رہے ہیں۔ امریکی فوجوں کے انخلا سے جہاں ایک طرف طالبان کا حوصلہ بڑھا ہوا ہے تو وہیں افغانستان کی فوج کے حوصلے پست ہیں۔یہ تو ہر کوئی مانتا ہے کہ افغانستان میں وہاں کی فوج سے کہیں زیادہ مضبوط اور مستحکم طالبان ہیں۔سرکاری فوج امریکی فوج کی تربیت یافتہ ہے اس کے باوجود اس میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ طالبان کا راستہ روک سکے۔جس کی ایک بڑی وجہ طالبان کی نفسیاتی برتری ہے۔
یہ بات بالکل عیاں ہے کہ افغانستان کی فوج طالبان کو نہ تو پسپا کرسکتی ہے اور نہ بہت زیادہ دنوں تک وہ طالبان کا مقابلہ کرسکتی ہے۔اب یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر طالبان کون لوگ ہیں جن کے سامنے امریکی فوج کے تربیت یافتہ لوگ بھی بونے ثابت ہورہے ہیں۔ طالبان کے وجود کی ایک طویل کہانی ہے جس میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام شامل ہیں، وہی جو ان کے دشمن ہیں، ماضی میںنہ صرف انہی طالبان کے دوست تھے بلکہ ان کو کھڑا کرنے میں ان کا نمایاں کردار بھی رہاہے۔
ہندوستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جو افغانستان میں استحکام اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے۔اس نے ہر موقع پر افغانستان کی مدد کی، اس کی ایک کثیر آبادی ہندوستان میں کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں اس وقت مقیم بھی ہے۔افغانستان کی تعمیر نو اور بنیادی ڈھانچے کی تیاری میں اس کے کردار سے کوئی ملک انکار نہیں کرسکتاہے۔اس معاملے میں حکومت ہند کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے۔اس ضمن میں افغانستان میں اس کے کئی پروجیکٹ چل رہے تھے۔مگر طالبان کی پیش قدمی سے پروجیکٹوں کے ساتھ ہی اس کو اپنا قونصل خانہ بھی بند کرنا پڑا ہے۔جس سے جہاں افغانستان کی تعمیر وترقی پر منفی اثر پڑا ہے وہیں ہندوستان کی افغانستان میں کی گئی سرمایہ کاری بھی ڈوبتی ہوئی نظر آ رہی ہے کیونکہ افغانستان کی حکومت ہندوستان کو کسی بھی طرح کی یقین دہانی کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جبکہ طالبان ہندوستان کے سلسلے میں بالکل خاموش ہیں۔ ایسے میں حکومت ہند کو بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے۔
امریکہ نے افغانستان میں خواہ کتنی تباہی مچائی ہو، اینٹ سے اینٹ بجائی ہو مگر وہ طالبان کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا، با لآخر امریکہ کو طالبان کو مکالمے کی میز پر بلانا ہی پڑا۔یہ ان کی طاقت اور ان کے حوصلے کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکاہے۔اسی طرح اس سے افغانستان میں ان کی غیر معمولی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ کو اپنے ہی دشمن کو برابری کے ساتھ بٹھانے اور اس سے مکالمہ پر مجبور ہونا پڑا۔
ہندوستان بھی ان ممالک میں سے ایک ہے جو افغانستان میں استحکام اور اس کی تعمیر وترقی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے۔اس نے ہر موقع پر افغانستان کی مدد کی، اس کی ایک کثیر آبادی ہندوستان میں کاروبار اور تعلیم کے سلسلے میں اس وقت مقیم بھی ہے۔افغانستان کی تعمیر نو اور بنیادی ڈھانچے کی تیاری میں اس کے کردار سے کوئی ملک انکار نہیں کرسکتا ہے۔
ہر طرف شور ہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی ہورہی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ وہ گئے ہی کہاں تھے جو ان کی واپسی ہورہی ہے؟وہ اس وقت بھی موجود تھے جب امریکہ نے انخلا کا ارادہ بھی نہیں کیا تھا۔دنیا خواہ طالبان کو دہشت گرد کہے اور ان کو وہ تسلیم نہ کرے مگر امریکہ اب نہ تو طالبان کو دہشت گرد تصور کرتا ہے بلکہ ان کو تسلیم بھی کرتا ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ جب دوحہ قطر میں امن مذاکرات ہوئے تو طالبان کو ایک فریق کی حیثیت سے اس میں مدعو کیا گیا اور ان سے باضابطہ مکالمہ ہوا۔دونوں طرف سے شرطیں رکھی گئیں۔حکومتیں کبھی دہشت گرد تنظیموں سے معاہدے نہیں کرتی ہیں بلکہ ان کا قلع قمع کرتی ہیں مگر یہاں معاملہ مختلف ہے۔یہ بات اور ہے کہ مغربی میڈیا اور اسی کے نقش قدم پرچلنے والی ہندی میڈیانے ان کی ایسی شبیہ بنادی ہے کہ طالبان کا نام آتے ہی خوف و ہراس اور نفرت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ طالبان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا تھے جو اپنے ابتدائی دور میں ظلم کے خلاف تھے، زمینداروں اور مالداروں کے استحصال کے خلاف یہ لوگ سماج کوانصاف دلانے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔چونکہ یہ مذہبی تھے اس لیے اسی راستے پر چل رہے تھے۔ملا عمر کے ہاتھوں میں جب اس جماعت کی قیادت آئی تو انہوں نے شرعی حدود کا نفاذ کرتے ہوئے ظالموں کو سزائیں دینا شروع کیں۔ان کے اس طریق کار کو پوری دنیا میں شہرت حاصل ہوئی مگر یہ منفی تھی جس کو پروپیگنڈہ کے طور پر استعمال کیا گیا۔آج جب ایک بار پھر طالبان اقتدار سے قریب تر ہوتے نظر آرہے ہیں تو لوگوں میں وہی خوف نظر آرہا ہے جو افغانستان پر امریکی حملہ سے قبل تھا۔مگر ایک سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ان کا وہی قدیم رویہ رہے گا؟ملا عمر کے طالبان اور آج کے طالبان کے مابین کوئی فرق ہے یا نہیں؟ ملا عمر اور موجودہ طالبان میں بہت فرق ہے۔ملاعمر کا طریقہ اسلامی ہونے کے باوجود ایسا تھا جس سے خوف کا ماحول پیدا ہو، وہ متشدد نظریات کے حامی تھے، ان کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی کہ دنیا کیا کہے گی، وہ عبرت ناک سزاؤں میں یقین رکھتے تھے۔ اسی لیے وہ الگ تھلگ بھی پڑے تھے۔خاص طور پر بین الاقوامی امور اور تعلیم و خواتین کے معاملات میں ان کا رویہ بہتر نہیں تھا، اسی طرح شرعی حدود اور تعزیری قوانین کے نفاذ میں کوئی لچک نہیں تھی جبکہ بیسویں صدی پوری طرح سے تعلیم اور خواتین کے حقوق کے لیے وقف رہی ہے۔ پوری دنیا میں اس محاذ پر بہت زیادہ زور دیا گیا تھا، اس کے باوجود طالبان نے اس جانب توجہ نہیں دی تھی۔ایسا نہیں ہے کہ اسلام خواتین کے حقوق کا محافظ نہیں ہے، اس کے باوجود افغانستان میں طالبان نے اپنے پر تشدد عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسلام میں اس کی اجازت نہیں، یہی وجہ تھی کہ وہاں مخلوط تعلیم بلکہ اعلیٰ تعلیم کو رواج نہیں مل سکا۔ آج جب طالبان مستقل آگے بڑھ رہے ہیں تو سب سے زیادہ خطرہ اسی محاذ پر ہے۔اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اب کیا ہوگا؟ تو اس کاجواب بہت سادہ اور آسان ہے۔ ملا عمر اور آج کے طالبان میں بہت فرق ہے۔موجودہ طالبان نے اپنی آنکھوں سے دنیا دیکھی ہے۔مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں، دنیا کے رویے اور ان کی ضرورت سے وہ واقف ہیں۔یہ نظریات میں بھی جدید ہیں، اس لیے تعلیمی ادارے بند ہونے کی امید نہیں ہے کیونکہ ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ ہرکامیابی کی کنجی تعلیم ہے۔ ملاعمر کی قیادت والے طالبان مذاکرات کی اہمیت سے واقف نہیں تھے۔ان طالبان کو جس طرح سے امریکہ ایک فریق کے طور پر دیکھ رہا ہے اور امن مذاکرات کے ساتھ ہی دیگر معاملات میں ان کو اہمیت دے رہاہے، ہندوستان کو بھی حالات کے مطابق چلناچاہیے۔ یہ ضرور ہے کہ نظریاتی اعتبار سے طالبان پاکستان کے زیادہ قریب ہیں لیکن اگر ان سے مذاکرات کیے جائیں، ان کو اہمیت دی جائے تو ہندوستان کی افغانستان میں کی گئی لاکھوں کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کو منافع میں تبدیل کیا جا سکتاہے۔ دنیا ہمیشہ طاقت کے ساتھ رہتی ہے، اگر طالبان اقتدار میں آگئے جیسا کہ صاف طور پر نظر آرہاہے تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہندوستان بحیثیت پڑوسی ان سے خوشگوار تعلقات قائم رکھے تاکہ علاقے میں توازن قائم رہے۔افغانستان کے معاملے میں ہندوستان کو ماضی سے زیادہ مستقبل پر نظر رکھنی چاہیے۔وہی منصوبے کامیاب ہوتے ہیں جن میں مستقبل کو اہمیت دی گئی ہو۔افغانستان ہندوستان کے لیے نہایت اہم ہے اس سے صرف ایک ہی طرح کے تعلقات نہیں ہیں جس میں کاروباری نفع و نقصان ہو، اس سے بھی کہیں زیادہ وہ ہندوستان کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ پاکستان کے راستے سے چین کی گود میں پہنچ سکتاہے، ایسی صورت میں ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔
[email protected]