صبیح احمد
افغانستان سے امریکہ اور ناٹو افواج کے انخلا کی آخری تاریخ 11 ستمبر جیسے جیسے قریب آرہی ہے، طالبان کی پیش قدمی میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ مختلف ایجنسیوں کے مطابق ملک کے 421 اضلاع میں سے 85 اضلاع پر طالبان اپنا قبضہ جما چکے ہیں۔ یہ اوربات ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز بھی کچھ اضلاع پر دوبارہ قبضہ کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ بہرحال اب امریکہ اور ناٹو افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد کابل حکومت کے مستقبل کے بارے میں شدید خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ نے ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا ہے کہ افغان حکومت امریکی فوج کے انخلا کے 6 ماہ بعد ہی گر سکتی ہے۔
طالبان کے ساتھ دوحہ میں مذاکرات کے بعد افغانستان سے امریکی اور ناٹو ممالک کی افواج کے انخلا کی تاریخ 21 مئی مقرر کی گئی تھی لیکن بعد میں امریکہ میں نئی انتظامیہ کے اقتدار میں آنے کے بعد انخلا کو 11 ستمبر تک مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ طالبان نے انخلا کی تاریخ کو مؤخر کیے جانے کو دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے نتائج کے بارے میں تبھی خبردار کر دیا تھا۔ اب طالبان نے اپنے اس انتباہ کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی کارروائیوں میں شدت آ گئی ہے۔ مئی کے مہینہ میں طالبان ہر ہفتہ کسی نئے ضلع پر قبضہ کر رہے تھے لیکن یکم جون کے بعد سے ان کارروائیوں میں مزید تیزی آ گئی ہے اور اطلاعات ہیں کہ اب ہر روز کئی کئی اضلاع طالبان کے ہاتھوں میں جا رہے ہیں۔ افغانستان اور وسطی ایشیا کے ملک تاجکستان کے درمیان مرکزی گزر گاہ پر بھی طالبان کا قبضہ ہوگیا ہے جبکہ اس علاقہ پر قبضہ کے دوران لڑائی میں افغان فورسز کے درجنوں اہلکار پناہ کے لیے تاجکستانی علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔ افغان حکام نے بھی سرحدی گزر گاہ پر طالبان کے قبضے کی تصدیق کی ہے۔ کئی جگہوں کے بارے میں افغان حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے ’دفاعی حکمت عملی‘ کے تحت اور شہریوں کی جانیں بچانے کے لیے ان اضلاع سے پسپائی اختیار کی ہے۔ بعض جگہوں کے بارے میں اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہریوں کے مفاد اور تحفظ کے پیش نظر افغان سکیورٹی فورسز کے اڈے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا ہے۔ طالبان نے جون کی 22 تاریخ کو کہا تھا کہ اس نے ڈیڑھ ماہ کے عرصہ میں 83 اضلاع پراپنا قبضہ جما لیا ہے جبکہ حکومتی فورسز نے کچھ اضلاع پر دوبارہ قبضہ کر لینے کا دعویٰ کیا ہے لیکن فریقین کی طرف سے متضاد اطلاعات ہیں۔
مجموعی طور پر افغانستان ایک بار پھر ایک نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ جہاں ایک طرف غیر ملکی افواج کے قبضہ سے افغان شہریوں کو آزادی مل رہی ہے، وہیں دوسری جانب ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ کے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں کو بھی خدشہ ہے کہ افغانستان سے آئندہ چند مہینوں میں امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہاں موجود سرکردہ شدت پسند گروپ پھر سے سر اٹھا سکتے ہیں اور امریکہ کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ گروپ امریکہ کے لیے خطرہ بنیں یا نہ بنیں لیکن ملک کے داخلی حالات کے لیے یہ بہت ہی خطرناک ہو سکتے ہیں۔
انخلا کے حوالے سے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ امریکی افواج کے زیر استعمال اہم ترین بگرام ایئر بیس کا مستقبل کیا ہوگا؟ حالانکہ امریکی محکمہ دفاع پنٹاگون نے بگرام ایئر بیس کو بھی خالی کرنا شروع کر دیا ہے اورتوقع ہے کہ رواں ماہ کے اختتام تک امریکی فورسز افغانستان میں امریکہ کا سب سے بڑا ایئر بیس خالی کر دیں گی۔ یہاں موجود جنگی ساز و سامان یا تو واپس امریکہ بھجوایا جا چکا ہے یا افغان سکیورٹی فورسز کو دے دیا گیا ہے لیکن دیگر استعمال کا ساز و سامان یہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ گزشتہ 2 دہائیوں کے دوران بگرام بیس افغانستان میں امریکی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا شہر بس گیا تھا جہاں ہزاروں اہلکار اور کنٹریکٹر کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ یہ ایئر بیس بہت پرانا ہے۔ دراصل سرد جنگ کے دوران امریکہ نے 1950 کی دہائی میں شمالی افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف دفاعی مورچہ کے طور پر بگرام ایئر بیس تعمیر کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 1979 میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو یہی بگرام بیس اس کا نقطہ آغاز بنا۔ افغانستان پر ایک دہائی پر محیط قبضہ کے دوران سوویت فوج نے اس ایئر بیس کو غیرمعمولی وسعت دی۔ روس نے جب اپنی فوج نکالی تو اس کے بعد افغانستان میں شروع ہونے والی خانہ جنگی میں بگرام ایئربیس کو پھر مرکزیت حاصل ہوئی۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ اس کے 3 کلومیٹر طویل رن وے کا ایک سِرا طالبان کے پاس جبکہ دوسرا شمالی اتحاد کے پاس تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بگرام ایئر بیس اب کس کے کنٹرول میں ہوگا؟ گزشتہ چند ماہ سے بگرام ایئر بیس راکٹ حملوں کی زد میں ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری شدت پسند گروہ داعش نے تسلیم کی ہے۔ داعش نے یہ ذمہ داری ایسے موقع پر قبول کی ہے جب طالبان کی جانب سے مختلف اضلاع پر قبضے کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک وہ متعدد اضلاع پر قبضہ کر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر طالبان بگرام ایئر بیس پر قبضہ کرلیتے ہیں تو یہ کابل پر کنٹرول حاصل کرنے کی جانب ان کا ایک غیر معمولی قدم ہو گا۔ ان خدشات کے درمیان امریکہ ان ہزاروں افغان باشندوں کو امریکہ میں لا کر آباد کرنے کے پروگرام میں بھی تیزی لا رہا ہے جنہوں نے گزشتہ تقریباً 20 سال کے عرصہ میں افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی فورسز کی مدد کی ہے۔ امریکی فورسز کی مدد کرنے والوں کے ساتھ ان کے خاندان کے افراد کو بھی امریکہ منتقل کرنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ امریکی فوج کے لیے کام کرنے والے افغان مترجموں اور دوسرے شعبوں کے افراد نے انہیں اور ان کے خاندانوں کو امریکہ منتقل کرنے کا یہ کہتے ہو ئے مطالبہ کیا تھا کہ امریکی فورسز کے جانے کے بعد وہ طالبان کے رحم و کرم پر ہوں گے اور ان کی جان خطرے میں ہو گی۔
مجموعی طور پر افغانستان ایک بار پھر ایک نازک موڑ پر پہنچ گیا ہے۔ جہاں ایک طرف غیر ملکی افواج کے قبضہ سے افغان شہریوں کو آزادی مل رہی ہے، وہیں دوسری جانب ملک کے سیاسی مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خدشات جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ کے اعلیٰ دفاعی عہدیداروں کو بھی خدشہ ہے کہ افغانستان سے آئندہ چند مہینوں میں امریکہ اور اتحادی افواج کے انخلا کے بعد وہاں موجود سرکردہ شدت پسند گروپ پھر سے سر اٹھا سکتے ہیں اور امریکہ کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ گروپ امریکہ کے لیے خطرہ بنیں یا نہ بنیں لیکن ملک کے داخلی حالات کے لیے یہ بہت ہی خطرناک ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ ایک بار پھر اقتدار کی لڑائی شروع ہونے کا بھرپور اندیشہ ہے، جیسا کہ سوویت روس کی افواج کے انخلا کے بعد ملک خانہ جنگی کا شکار ہو گیا تھا۔ علاقائی عسکری گروہ آپس میں نبرد آزما ہو گئے تھے اور بالآخر طالبان کا ملک کے اقتدار پر قبضہ ہو گیا تھاجس کے بعد کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی کا حالیہ دورئہ امریکہ بظاہر ملک کے حالات اور انخلاکے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات پر غور و خوض کے لیے اہم بتایا جا رہا ہے لیکن انخلاکے بعد کی صورتحال میں ان کی (صدر غنی کی) پوزیشن کیا ہوگی؟ صدر بائیڈن کے ساتھ ملاقات کے دوران بات چیت میں یہ ضرور اہم موضوع رہا ہوگا۔
[email protected]