وبھا ترپاٹھی
خبروں کے مطابق اس شدید آفت میں بہت سارے بچے یتیم ہورہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی ہی معلومات اعدادوشمار میں نظر آرہی ہے، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو کسی اعدادوشمار میں نہیں آپائے ہیں۔ سوال ہے کہ ان بچوں کے مسائل کا حل کیا ہو؟ کون سا راستہ منتخب کیا جائے جو سیدھا، آسان، فطری اور فلاحی ہو۔
منسٹری آف وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ نے اس سوال کو سنجیدگی سے لیا ہے اور نیشنل چائلڈ رائٹس کمیشن کے ذریعہ بھی ایسی کوششیں کی جارہی ہیں جو بے وقت یتیم ہوئی آبادی کے لیے ایک فلاحی متبادل دستیاب کراسکیں۔
ایسے بچوں کے لیے ایک عام صلاح یہ دی جاتی ہے کہ ان کو زیادہ سے زیادہ گود دے دیا جائے، تاکہ انہیں ایک خاندانی ماحول میں پرورش پانے کا موقع ملے اور ان کا مستقبل یقینی بن سکے، لیکن نیشنل چائلڈ رائٹس کمیشن کے صدر کی تشویش یہ ہے کہ گود لینے کے نام پر ہورہی بچوں کی اسمگلنگ کا ایشو بھی کم سنگین نہیں ہے۔ یہ ایک منظم جرم ہے۔
یعنی بچوں پر بے وقت پڑنے والی اس مصیبت کو حکومت کے ذریعہ نوٹس میں لیا گیا ہے۔ منسٹری آف وومن اینڈ چائلڈ ڈیولپمنٹ کے ذریعہ گزشتہ14مئی کو یہ پریس ریلیز بھی جاری کی گئی کہ اگر کوئی شخص ایسے بچوں کو جانتا ہے، جنہوں نے اپنے والدین کو کووڈ کے سبب کھودیا ہے اور ان کی دیکھ ریکھ کرنے والا کوئی نہیں ہے تو وہ اس کی اطلاع چائلڈ لائن پر دیں۔ وزارت نے منسٹری آف فیملی اینڈ ہیلتھ ویلفیئر سے یہ بھی اپیل کی ہے کہ جب کوئی شخص اسپتال میں داخل ہونے جائے تو اس سے یہ پوچھا جائے کہ اگر کوئی انہونی ہوتی ہے تو ان کے بچوں کی دیکھ بھال کون کرے گا اور یہ متبادل ان کے ذریعہ اسی وقت منتخب کرلیا جائے تاکہ آگے فیصلہ لینے میں آسانی ہو۔
نیشنل چائلڈ رائٹس کمیشن کے ذریعہ خاص طور سے جن تین باتوں پر زور دیا گیا ہے، ان میں پہلی اہم بات یہ ہے کہ کووڈ کی مصیبت سے یتیم ہوئے بچوں کی پہچان محفوظ رکھی جائے۔ دوسرے سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر شیئر نہ کی جائیں اور تیسرے انہیں چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کو دیا جائے جو بچوں کے بہترین مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے فیصلہ کرے گی۔
حکومت کی توجہ اس بات پر بھی گئی ہے کہ اگر کوئی یتیم بچوں کے سیدھے گود لینے کی بات کرتا ہے تو اسے روکا جائے، کیوں کہ یہ غلط ہے۔ ستمبر 2020 میں نیشنل چائلڈ رائٹس کمیشن نے سنویدنا نام سے ایک ٹول فری ہیلپ لائن نمبر بھی جاری کیا، جس میں ایسے بچوں کی ٹیلی کاؤنسلنگ کی جائے گی، تاکہ انہیں ماہرنفسیات، معاشرتی اور مینٹل سپورٹ مہیا کی جاسکے۔
اس میں خاص طور سے بچوں کو تین زمروں میں رکھا گیا ہے۔ ایسے بچے جو کووڈ کیئر سینٹر یا اکیلے ہیں، دوسرا ایسے بچے جن کے سرپرست یا والدین کووڈ-19سے متاثر ہیں اور تیسرا ایسے بچے جنہوں نے اپنے والدین کو اس وبا میں کھودیا ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے انٹرنیشنل فیملی ڈے منایا گیا ہے اور مختلف مضامین اور انعقاد کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ فیملی ہی سب کچھ ہے۔ ہماری ہمت، طاقت، صلاحیت اور خوشی کا سینٹر پوائنٹ۔ ایسے میں سب سے اہم اور سنجیدہ سوال ہے کہ کیا بے وقت یتیم ہوئی اس آبادی کے پاس محض واحد متبادل گود لینے کا ہی ہے یا کچھ اور متبادل بھی ان کی دیکھ بھال، تحفظ اور بازآبادکاری کے
بچوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والے کئی اداروں نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ بچوں کو ان کے اولین مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے خاندان سے الگ نہ کیا جائے۔ یعنی اس خاندان کے جو بھی رشتہ دار اپنی مرضی سے بچوں کو رکھنا چاہتے ہیں ان متبادل پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور Juvenile Justice Care and Protection Act 2015 میںحق رضاعت کے التزام کے ساتھ رشتہ داروں کے ذریعہ دیکھ بھال کے التزام کو منسلک کیا جانا چاہیے۔
لیے تجویز کیے جاسکتے ہیں؟
بچوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والے کئی اداروں نے یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ بچوں کو ان کے اولین مفاد کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے خاندان سے الگ نہ کیا جائے۔ یعنی اس خاندان کے جو بھی رشتہ دار اپنی مرضی سے بچوں کو رکھنا چاہتے ہیں ان متبادل پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا اور Juvenile Justice Care and Protection Act 2015 میںحق رضاعت کے التزام کے ساتھ رشتہ داروں کے ذریعہ دیکھ بھال کے التزام کو منسلک کیا جانا چاہیے۔ پہلے بچوں کی تحویل کا سوال تب پیدا ہوتا تھا، جب میاں بیوی کے مابین کسی تنازع کے سبب علیحدگی ہوتی تھی اور اس وقت بچہ کس کے پاس رہے گا یہ سوال اٹھتا تھا۔ اس کا قانونی التزام تھا کہ کسی بھی بچہ کی تحویل کا تعین کرتے وقت اس کی اخلاقی ترقی، اس کے تحفظ، اس کی تعلیم اور معاشی تحفظ جیسے سوالات کو دھیان میں رکھا جائے۔ یعنی جو معاشی طور سے خوشحال ہو انہیں بچہ کی تحویل سونپی جائے جو اسے نفسیاتی مدد، مثبت ماحول مہیا کرسکیں اور دوسرے فریق کو ملنے جلنے کا حق دیا جائے تاکہ اس بچہ کو کسی کی کوئی کمی محسوس نہ ہو۔
حالاں کہ یہاں حالات تھوڑے مختلف ہیں، لیکن ایسے حالات کا بھی ذکر بچوں کی تحویل کے معاملہ میں ہوا ہے، جس میں عدالتوں کے ذریعہ یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ اگر والدین دونوں نہیں ہیں تو یا تو دادا-دادی کی تحویل میں بچہ کو دیا یا نانی-نانی کو۔ اس میں بچوں کی خواہش اور منطوری کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ اس کے بعد جو دوسرا متبادل آتا ہے وہ ہے گود لینے کا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کسی بھی حال میں گود لینے کے نام پر بچوں کی اسمگلنگ نہیں ہونی چاہیے، لیکن اس بات کو بھی دھیان میں رکھنا ہوگا کہ بے وقت یتیم ہوئی اس آبادی کا فوری طور پر خیال رکھا جائے اور مناسب انتظام کیا جائے، لیکن یہ بھی مناسب مطالبہ ہے کہ گود لینے کے متعلق قانونی عمل کا جائزہ بھی لیا جائے اور گود لینے کو اب کچھ ڈویژن میں تقسیم کیا جائے، یعنی مکمل اور قانونی گود لینے کے علاوہ قلیل مدتی گود لینے کا بھی انتظام کیا جائے جسے قانونی زبان میں آدھا گود لینا کہا جائے۔ تاکہ وہ رشتہ دار جو انسانیت اور ہمدردی کے نام پر بچوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتے ہیں اور انہیں فوری مدد پہنچانا چاہتے ہیں، ان کی تعلیم کا انتظام کرنا چاہتے ہیں، انہیں گود لینے کے قانونی ذمہ داریوں سے آزاد رکھا جائے، تاک ان بچوں کی فلاح و بہبود ہوسکے۔
بچوں کے معاشی اور معاشرتی تحفظ کو یقینی بنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسے میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ایسے بچوں کے والدین سرکاری نوکری میں تھے یا نہیں اور انہیں ہمدردی کی بنیاد پرمہلوک کا لاحق مان کر ملازمت دی جاسکتی ہے یا نہیں؟ جن تنظیموں میں مہلوک کے لاحق کو ملازمت دینے کا متبادل ختم کردیا گیا ہے، وہ بھی اپنے یہاں کام کررہے ملازم، جس کی موت کووڈ-19سے ہوئی ہے، اس کے لیے خصوصی حالات میں اس ایمرجنسی متبادل کو اپنائیں اور ایسے بچوں کی معاش کو یقینی بنانے کی کوشش کریں۔
ایسے بچوں کو دیے جانے والے تحفظ اور بازآبادکاری سے متعلق پالیسیوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنا ہوگا۔ پہلا قریب یا قلیل مدتی منصوبے اور دوسرا دورگامی یا طویل مدتی منصوبے۔ قلیل مدتی منصوبوں میں اہم ہیں ایسے گھرپریواروں کی پہچان، ان کی فوری کووڈ جانچ، ان کا سینیٹائزیشن، انہیں طبی اور صحت سہولتیں مہیا کرنا اور وقت وقت پر ان کی خیرخبر لینا۔ طویل مدتی منصوبوں کے تحت ان کا لائف انشورنس کرانا، ان کا معاش یقینی بنانا وغیرہ۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ ایسے بچوں کی معلومات جس کسی کو ملے، وہ اپنے ضلع کی چائلڈ ویلفیئر کمیٹی کو اس کی فوری معلومات مہیا کرائے۔ سرکاری کوشش، عوامی تعاون، رشتہ داروں کا مثبت کردار اگر ان بچوں کی زندگی میں آئے، خالی پن کو بھرسکیں تو اسے ہی اس مصیبت میں مرہم محسوس کیا جائے گا۔
(بشکریہ: جن ستّا)