تشددمیں انتظامیہ کی جوابدہی

0

دہلی کے جہانگیر پوری تشدد کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔اس پر باتیں خوب ہوئیں اورقانونی کارروائی بھی چل رہی ہے جیساکہ ہر تشدد کے بعدہم دیکھتے ہیں، لیکن اس تشدد کا جو سب سے اہم پہلو ہے، اسے نظر انداز ہی نہیں کیا گیا بلکہ حتی الامکان اس کی پردہ پوشی کی کوشش کی گئی اوریہ کوشش اب تک کامیاب بھی رہی لیکن آخر کار وہ پہلو زیر بحث آگیا، وہ بھی عدالت میں ۔سبھی جانتے ہیں کہ جہانگیر پوری تشدد کے مقدمات راجدھانی کی روہنی عدالت میں چل رہے ہیں ۔ابھی تک پولیس ملزموں کو گرفتارکررہی تھی اور ان کے معاملات عدالت میں پہنچ رہے تھے، توان کی خبریں میڈیا میں آرہی تھیں اوران پر خوب بحثیں ہورہی تھیں، وقتاً فوقتاً سیاسی بیانات بھی آرہے تھے، لیکن اب عدالت نے پولیس کی ناکامی کی بات چھیڑ کر اوراس کی انکوائری کی ہدایت دے کر اس پہلو کو اٹھادیا جو سارے فساد کی جڑ ہے۔عدالت نے دہلی پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے یہ سوال پوچھ ہی لیا کہ جب شوبھایاترا نکالنے کی اجازت نہیں تھی تو اسے کیوں نکالنے دیا گیا؟ مقامی پولیس نے اسے روکا کیوں نہیں ؟عدالت کاکہنا ہے کہ بغیر اجازت شوبھا یاترا کو روکنے میں مقامی پولیس پوری طرح ناکام ثابت ہوئی۔ اس لئے قصوروار افسران کی جوابدہی طے ہونی چاہئے ۔روہنی کی عدالت کا صاف صاف کہناہے کہ بادی النظر میں یہ معاملہ دہلی پولیس کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسالگتاہے کہ سینئر افسران نے اس معاملہ کونظرانداز کردیاجبکہ متعلقہ افسران کی طرف سے ذمہ داری طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہو اور پولیس غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام نہ ہو۔ یہی نہیں عدالت نے پولیس کمشنر سے معاملہ کی جانچ کرنے کو کہا ہے۔
ہنومان جینتی کے موقع پر16اپریل کی شام کو دہلی کے جہانگیر پوری میں شوبھایاترا کے دوران ہنگامہ اورتشددسے علاقے کے لوگ حیران وپریشان ہیں کہ جب وہ بلاتفریق مذہب مل جل کر امن وسکون سے رہتے ہیں پھرماحول خراب کرنے کی اجازت کس نے دی ؟ مقامی لوگوں کے اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے رہا ہے ، پولیس معاملہ کی جانچ کرکے ملزموں کو گرفتارتوکررہی ہے لیکن اس سوال سے وہ بھی بچتی رہی کہ جس شوبھایاترا کو نکالنے کی اجازت نہیں تھی ، وہ کیسے نکالی گئی ؟ اس کی اجازت کس نے دی ؟ اس میں کون لوگ شامل تھے ؟ اور اس یاتراکے دوران آخرکیا بات ہوئی جس کی وجہ سے پتھربازی ہوئی اور تشدد برپاہوا؟بتایاتو یہ بھی جاتا ہے کہ شوبھایاترا کے ساتھ پولیس بھی چل رہی تھی پھر تشدد کیسے ہوگیا؟
صحیح نکتہ اٹھایا گیا ،عدالت نے بھی پولیس سے بہت صحیح سوال کیا ہے اور ہدایت دی ۔حیرت ہے کہ جن لوگوں نے تشدد برپا کیا ، ان کی انکوائری ہورہی ہے اور پولیس کی ناکامی کی انکوائری نہیں ہورتھی۔ بات بالکل صحیح ہے کہ جس شوبھایاترا کو نکالنے کی اجازت نہیں تھی اوراس سے حالات خراب ہونے کا اندیشہ تھاتواسے نکالنے کیوں دیا گیا ؟اوراگر شوبھایاترانکالی گئی تو اس کاروٹ ایسا طے کیا جاتا جہاں حالات خراب نہ ہوتے۔جیساکہ اورعلاقوں میں سبھی نے دیکھا۔اس علاقے سے یاترانکالنے کی اجازت کیوں دی گئی ، جو حساس ماناجاتا ہے ؟ عدالت کا یہ بھی کہناہے کہ پولیس یاتراکوروکنے ، بھیڑ کو منتشر کرنے کی بجائے پورے راستے میں ساتھ ساتھ چل رہی تھی ۔مطلب صاف ہے کہ اگرشروع میں ہی غیرقانونی یاترا نکالنے سے روک دیتے تو ہنگامہ اورتشدد کی نوبت نہیں آتی۔ ناکامی کسی اورکی اورکارروائی کہیں اورہورہی ہے، وہ بھی ضروری ہے لیکن سب سے پہلے پولیس اورانتظامیہ کی جوابدہی طے ہونی چاہیے اورکارروائی وہیں سے شروع ہونی چاہیے تاکہ آئندہ اس طرح کے حالات پیدا نہ ہوں اورواقعات رونما نہ ہوں۔اس کا مطلب یہی ہوا کہ ہم نے 2020کے شمال مشرقی دہلی کے فسادات سے نہ تو کوئی سبق حاصل کیا اورنہ کچھ سیکھا۔
فرقہ وارانہ تشدد میں پولیس اورانتظامیہ کی ذمہ داری اورجوابدہی طے کرنے کا معاملہ بہت پہلے سے اٹھایا جاتا رہا ہے۔ جب فساد مخالف قانون بنانے کی بات ہورہی تھی تو اس وقت بھی یہی معاملہ اٹھایاگیا تھا، لیکن بات نہیں بنی اورمعاملہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا۔ اب ایک بار پھر اٹھایا گیا ہے وہ بھی عدالت کی طرف سے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ اس پہلو پر سنجیدگی سے غورکرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کب تک اپنی ناکامی کو چھوڑ کربعد کے واقعات کے ذمہ دارلوگوں کے خلاف کارروائی کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہیں گے۔پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری اورجوابدہی طے کرنا، ان سے بازپرس کرنااورغلطی پر کارروائی کرنا بہت ضروری ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS