یوکرین پر حملے کے تناظر میں پہلی بار بین الاقوامی ادارے اقوام متحدہ نے روس کے خلاف ایک بڑا قدم اٹھایا ہے۔سلامتی کونسل میں جس کا روس مستقل ممبر ہے اوروہ ویٹو پاوررکھتا ہے، وہاں اس کے خلاف توکچھ نہیں ہوسکا، البتہ جنرل اسمبلی میں روس اپنے خلاف کارروائی کونہیں روک سکا۔یوکرین جنگ کی وجہ سے جب امریکہ نے روس کو انسانی حقو ق کونسل سے باہر کرنے کے لیے جنرل اسمبلی میںقرارداد پیش کی تو بظاہر دوتہائی اکثریت سے روس کو انسانی حقوق کونسل کی رکنیت سے معطل کردیا گیا لیکن اگر ووٹنگ کے تناسب کو دیکھا جائے تو یہ ہرکسی کے لیے باعث حیرت ہے۔کیونکہ 193رکنی کونسل میں جہاںامریکہ، یوروپی یونین کے ممالک، برطانیہ اوریوکرین سمیت 93 ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹنگ کی تو چین، شام اور بیلاروس وغیرہ 24ممالک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ حمایت اور مخالفت سے زیادہ اہمیت کا حامل ہندوستان، مصر اورجنوبی کوریاسمیت 58 ممالک کاموقف رہا، جنہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور غیرجانبدار رہے۔مطلب صاف ہے کہ ووٹنگ کے وقت موجود اقوام متحدہ کے نصف ارکان سے ایک ہی زیادہ کھل کر قرارداد کے حق میں تھے۔ اس سے یقیناامریکہ خصوصاً یوکرین کو سخت مایوسی ہوئی ہوگی کہ اتنی طویل جنگ اورجانی ومالی نقصان کے باوجود اب تک دنیا کے ممالک کھل کر روس کے خلاف نہیں ہوسکے۔لیکن یہ صورت حال دنیا کے لیے نئی نہیں ہے۔جب بھی کسی ملک پر حملہ ہوتا ہے،یاجنگ ہوتی ہے، چاہے وہ عراق ہویا افغانستان، شام ہویاکوئی اور ملک، دنیا مذمت میںیا کسی بھی کارروائی میں اسی طرح تقسیم ہوجاتی ہے۔
ویسے بھی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل یا یونیسکوسے کوئی خود باہر ہوجائے یااسے باہر کردیا جائے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سابقہ ٹرمپ سرکار میں امریکہ اکتوبر 2017میں یونیسکو سے اور جون 2018میں انسانی حقوق کونسل سے خود باہر ہوگیا تھا، اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔بعد میں بائیڈن سرکار نے پھر شمولیت اختیارکرلی۔ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل سے اکثروبیشتر کسی ملک کے خلاف قراردادمنظور ہوتی رہتی ہے اوراس کا کوئی اثر نہیں پڑتا تو روس کو انسانی حقوق کونسل سے معطل کرنے سے کیا فرق پڑے گا ؟جنرل اسمبلی سے روس کو جو پیغام دیناتھا،اس میں وہ کامیاب رہا۔ دنیا چاہے جنگ کے خلاف کچھ بھی بولے جہاں ووٹنگ کی بات ہوگی، ایک رائے نہیں ہوسکتی۔اسی طرح جو بھی ملک حملہ کرتا ہے جب تک اپنا مقصد حاصل نہیں کرلیتا جنگ بند نہیں کرتا۔پہلی بار یوکرین کی جنگ میںانسانی حقوق کی پامالی نہیں ہورہی ہے۔ ا س سے قبل عراق اورافغانستان میں بھی ہوئی تھی۔اس وقت بھی دنیا جنگ کے خاتمے کے لیے آوازاٹھارہی تھی لیکن امریکہ نے ان کی پروا نہیں کی۔اسرائیل کے خلاف کتنی قرارداد یںمنظور ہوئیں اورفلسطینیوں کے حقوق کو دنیا تسلیم کرتی رہتی ہے لیکن کیا اسرائیل اورامریکہ ان کی پروا کرتے ہیں ؟دراصل دنیا کا ایساماحول بنادیا گیا ہے کہ ہر کسی کو اپنے مفادات کی فکر رہتی ہے، دوسرے کے بارے میں بہت کم کوئی سوچتااورکرتا ہے۔کل و یتنام، عراق، افغانستان اورشام کی جنگوں پر جو بحث ہوتی تھی، آج یوکرین جنگ پر ہورہی ہے۔نہ حالات بدلے ہیں اورنہ دنیا کی سوچ اورپالیسی۔
رہی بات وطن عزیز ہندوستان کی جس سے یوکرین اورامریکہ حمایت کی امید کررہے ہیں۔ لیکن یوکرین جنگ کے مسئلہ پر ہندوستان نے جو سلامتی کونسل میں کیا اوروہی جنرل اسمبلی میں کیا،غیرجانبدار رہ کر روس کے ساتھ اپنی دوستی نبھائی۔یوکرین جنگ کے بعد یہ دوسرا موقع ہے جب ہندوستان امریکہ کی صف میں کھڑا نہیں ہوا اوروہ قدیم روایتی دوست روس کے خلاف نہیں گیا۔یوکرین جنگ سے قبل امریکہ کے ساتھ کاروباری رشتے بڑھنے سے جو لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ ہندوستان کا جھکائو امریکہ طرف ہوگیا ہے اوروہ روس سے دور ہوگیاہے، وہ غلط ثابت ہوگئے۔ رہی بات جنگ کی تو ہندوستان نے ہمیشہ مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے پرزور دیا ہے اورجہاں ضرورت پڑی اس کی مذمت بھی کی جیساکہ بوچاقتل عام کی مذمت کی تھی اوردنیا کو جنگ کے خلاف سخت پیغام دیا تھا۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ روس جیسے روایتی دوست کو وہ کھودے گا،جس سے وہ سستا تیل خرید رہا ہے اورآگے بھی خریدناچاہتاہے۔
[email protected]
روس کے خلاف کارروائی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS