عالمی سطح پر دانش گاہ علی گڑھ کی تحقیقی صلاحیتوں کا اعتراف

0

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

یہ سچ ہے کہ کسی بھی درس گاہ یا دانش گاہ کے تعلیمی معیار کی عظمت و بلندی اور اس کی سرخ روئی کا اندازہ اس کی فلک بوس عمارتوں اور وسیع و عریض اراضی سے نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس ادارہ کا تحقیقی ،فکری تنوع بالغ ہو اور اس کے اندر متوازن تنقیدی مزاج و مذاق بہتر و مستحکم ہو۔ اس کو ایسے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی ادارہ یا تعلیم گاہ کے پاس عظیم الشان اور اونچی اونچی خوبصورت عمارتیں تو موجود ہوں مگر اس کا تعلیمی اور تحقیقی شعور نہایت پست ہو تو اس ادارے کی ارباب فکر و نظر اور دانش و بینش کے یہاں کوئی بھی وقعت واہمیت نہیں ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جامعات و دانش گاہوں کو جو چیز نمایاں مقام عطا کرتی ہے وہ اس کی مثبت تحقیقی کار کردگی ہوتی ہے۔ جب ہمارے تعلیمی اداروں میں تعلیم کا اچھا نظم و نسق ہوگا تو اس کا براہ راست فائدہ سماج کو حاصل ہوتا ہے۔ ہماری تحقیقی،علمی و عرفانی صلاحیتوں کے عروج وارتقا سے قوموں اور معاشروں میں حصول علم کے لیے بیداری پیدا ہوتی ہے۔ معاشرے کے افراد ہر دن تفتیش کے جدید گوشوں اور عصری تقاضوں سے آ شنا ہوتے ہیں۔وہ تعلیم کے میدان میں فتح حاصل کرنے کے روشن خطوط سے واقف ہوتے ہیں۔ مثبت تعلیمی سرگرمیاں اور منطقی تعلیمی نظام جہاں اس معاشرے کو پر افتخار بناتا ہے ، وہیں اس ملک و وطن کی بھی بین الاقوامی سطح پر منفرد شناخت قائم کرتا ہے۔ یاد رکھیے آ ج ہم جن مفکرین اور سائنسدانوں کے نظریات کی اتباع کرتے ہیں یا ان کی تھیوری پر عمل پیرا ہیں ان سے صرف اس شخصیت ہی کا اقبال بلند نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے سماج ، قوم اور ملک کا سر فخر سے بلند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہتر تعلیم وتحقیق اور تربیت و اصلاح سے قومیں اور معاشرے متمدن و مہذب کہلاتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی معاشرے نے اپنے یہاں تعلیم و تحقیق اور علوم و فنون کے جہان کو آ باد کیا ہے یا فروغ و ترویج سے ہمکنار کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ، ان معاشروں کی بالادستی اور تفوق و تقدم کا لوہا ہر دور میں تسلیم کیا گیاہے۔ اس لیے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں تحقیقی اور تعلیمی روایات واقدار کو نہ صرف مستحکم بنانا ہوگا بلکہ ہمیں اس سطح پر کاوش کرنی ہوگی جس سے ہمارے معاشرے میں علم و تحقیق کی شمع کا اجالا ہر گھر تک پہنچ سکے۔ تعلیمی اداروں کا امتیاز یہی ہے کہ وہ اپنے یہاں تعلیم کے معیار کو زیادہ سے زیادہ لائق اتباع بنائیں۔ سماج وقوم اور ملک وطن کو اپنی تحقیقی تخلیقات سے ہم آہنگ کریں۔ آج ضرورت سب سے زیادہ ہمارے سماج کو تعلیم و تحقیق کی ہے۔ جن ممالک اور اقوام کو آج تعلیم وتحقیق کا ہیرو کہا جاتا ہے انہوں نے بلا انقطاع اس جانب محنت ولگن سے کام کیا ہے۔ اس لیے تعلیم کے تئیں ہمیں اپنی سرد مہری کوتوڑ نا ہوگا۔ نیز ان روایات و حقائق کی پیروی کرنی ہوگی جن سے سماج کے اندر حصول علم کا تصور عام ہوجائے اور یہ جد وجہد تمام معاشرے میں صور پھونکنے کے مترادف ہو۔ تعلیمی اداروں کی روح،تحقیقی اور صالح تنقید کا فروغ ہے۔ یہی رویہ معاشرے میں توازن و اعتدال کے لیے راہ ہموار کرتاہے، تعدد پسند افکار کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ جو ادارے اس خصوصیت سے باہر ہوں تو وہ صرف ایک ڈھانچہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ گویا دانش گاہوں اور جامعات و درس گاہوں کی روح و غذا ان کا بلند تعلیمی نظام و نصاب اور تحقیقی صلاحیتوں کا پروان چڑھنا ہے۔ زندہ اور باشعور قومیں اپنی صلاحیتوں سے زندگی کی تعمیر صالح خطوط پر کرتی ہیں۔ تحقیقی وفنی جدت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ خوہ وہ کہیں بھی ہوں ان کے اندر قوم و ملت کی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کہیں بھی ہوں، کسی بھی ادراہ یا شعبہ سے وابستہ ہوں ہمیں اپنی خوابیدہ استعداد سے عالمی سطح پر فائدہ پہنچانا ہوگا۔ اس کے لیے بہتر راستہ یہی ہے کہ ہم ان پڑھ معاشروں کو علم کے گوہر سے زیادہ سے زیادہ آ راستہ کریں۔ ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں تعلیمی اداروں کی کثیر تعداد ہے۔ جو اپنے اپنے اعتبار سے ملک و قوم کی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ انہی میں ایک اہم دانش گاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ دانش گاہ علی گڑھ صرف صحت مند تعلیمی وتحقیقی نظام کے لیے ہی نہیں جانی جاتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی تہذیب و تربیت بھی ممتاز حیثیت کی حامل ہے۔ اسی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تعلیمی وتحقیقی خدمات کا اعتراف ملک و بیرون ملک کی تجزیاتی کمیٹیوں اور اداروں نے بارہا کیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عالمی ادارہ ’’یوایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ‘‘ نے اپنے تازہ سروے میں اے ایم یو کے بایولوجی و بایو کیمسٹری شعبہ کی تحقیقی صلاحیتوں کو سراہا ہے۔ یوں تو دانش گاہ علی گڑھ کے تمام شعبے تعلیمی و تحقیقی اعتبار سے نہایت مستحکم و مستعد ہیں۔ البتہ دانش گاہ علی گڑھ کے شعبہ ریاضی، فزکس اور کیمسٹری کو بھی ممتاز مقام درجہ دیا گیا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدی سال میں اس کے تعلیمی و تحقیقی معیار کا لگاتار اعتراف کیا جارہا ہے جو نہ صرف علیگ برادری کے لیے باعث مسرت ہے بلکہ پورے ملک کے لیے عظمت کی واضح علامت ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو چار موضوعات میں ہندوستانی یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں اعلیٰ رینک عطا کی ہے اور ایک بار پھر اعلیٰ تعلیم اور تحقیق میں اے ایم یو کے بلند معیار و مرتبہ کا اعتراف کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
شعبہ بایولوجی اور بایوکیمسٹری میں اے ایم یو نے سبھی ہندوستانی یونیورسٹیوں اور اداروں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سرفہرست درجہ حاصل کیا ہے جب کہ ریاضی، فزکس اور کیمسٹری میں بھی اے ایم یو کو نمایاں مقام عطا کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ’’یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ‘‘کا قیام 1933 میں عمل میں آیا ہے۔ اس عالمی ادارہ نے اس وقت اپنے ساتویں سالانہ سروے میں دانش گاہ علی گڑھ سے وابستہ جو پر مسرت خبر دی ہے، اس کی افادیت سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یونیورسٹیوں کے چارٹ میں اے ایم یو کو 34.1کا سبجیکٹ اسکور حاصل ہوا ہے۔ جب کہ33.7کے سبجیکٹ اسکور کے ساتھ ’’انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس‘‘ بنگلور دوسرے نمبر پر رکھا گیاہے اور آئی آئی ٹی دہلی31.1 کے سبجیکٹ اسکور کے ساتھ تیسرے مقام پر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ریاضی میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہندوستان کا واحد ادارہ ہے جسے اس رینکنگ میں شامل کیا گیا ہے۔ فزکس میں ہندوستانی یونیورسٹیوں میں اے ایم یو پانچویں مقام پر ہے جب کہ ہندوستانی اداروں میں وہ گیارہویں مقام پر ہے۔ اسی طرح کیمسٹری میں اے ایم یو کو ہندوستانی یونیورسٹیوں میں نواں مقام اور مجموعی اعتبار سے سبھی ہندوستانی اداروں میں اکیسواں مقام عطا کیا گیا ہے۔
اے ایم یو میں یونیورسٹی رینکنگ کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر ایم سالم بیگ نے بتایا کہ موضوع کے اعتبارسے اس رینکنگ میں اکیڈمک ریسرچ کی کارکردگی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’’یوایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ‘‘کی موضوعاتی رینکنگ میں ریاضی میں دنیا کے 250ممتاز اداروں، بایولوجی اور بایوکیمسٹری میں500، فزکس میں 750 اور کیمسٹری میں 750ممتاز یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کو شامل کیا گیا ہے۔یہ خبر جہاں ارباب دانش اور اہلیان علم وفن کے لیے خوش آ ئند ہے وہیں اس کی افادیت یہ بھی ہے کہ دانش گاہ علی گڑھ کی خدمات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا جانا صرف ادارے تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ پورے وطن کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ نیز اس سے نوجوان نسل کے اندر نہایت مثبت پیغام جائے گا اوران کے اندر تعلیم کے تئیں ایک تحریک وجذبہ پیدا ہوگا۔ اس تناظر میں یقینا دانش گاہ کی خدمات کی تصدیق وتوثیق سے مستقبل میں بھی انتہائی مفید اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک نئی تعلیم کے لیے ایک نئی فکر اور فضاء ہموار ہوگی جو ہماری بنیادی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تعلیمی اقدار اور اس کے روحانی تقاضوں کو سنجیدگی سے فروغ دیں تاکہ ہمارا اداراہ مزید ترقیات سے ہم آہنگ ہوسکے۔ جتنا تعلیم کو فروغ دیاجائے گا اتنا ہی ہم سر سید کے مشن کو تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوں گے۔ یاد رکھئے قومیں وہی زندہ اور باشعور سمجھی جاتی ہیں جن کا نصب العین تعلیم و تحقیق ہوتا ہے۔ کوئی بھی سماج اس دنیا میں اگر عزت و وقار کے ساتھ رہنا چاہتا ہے اور خوشحال زندگی گزارنے کا خواہاں ہے تو تحقیق و تفتیش کی معراج حاصل کرنا ضروری ہے۔ علم وفن اور تحقیق وتنقید در اصل وہ جوہر ہے جو کسی بھی قوم کے لیے ضروری ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS