ہندوستان میں منعقدہ جی- 20 اجلاس کی حصولیابیاں

0

پروفیسر عتیق احمدفاروقی
ہمارے ملک میں منعقد حالیہ 18واں جی 20-چوٹی اجلاس پر مختلف مبصرین مختلف زایوں سے تبصرہ کررہے ہیں۔ اس اجلاس میں ’نیودہلی لیڈرس ڈکلریشن‘کے نام سے جو اعلامیہ جاری ہواوہ یقینا ہمارے ملک کیلئے ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ ہماری حکومت نے بعض پہلوئوں پر نکتہ چینی کا سامنا کیا ہے اوردیگر زاویوں سے داد بھی حاصل کی ہے۔ ایک غیرجانبدار مبصر کی حیثیت سے میں بھی اس کانفرنس کا جائزہ لیناچاہتاہوں۔ اس اجلاس میں دنیا کے تمام بڑے اقتصادی ممالک کے سربراہان ، ترقی پذیر اورمختلف عالمی اداروں کے نمائندوں نے حصہ لیا اورموجودہ اقتصادیاتی جہت کے اعتبار سے بڑے چیلنجز پر تبادلۂ خیال کیا۔ موجودہ دورمیں روس اوریوکرین کی جنگ سے لے کر موسمیاتی تبدیلیاں جیسے بڑے مسائل کا سامنا پوری دنیا کررہی ہے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ ان حالات میں نہ تو ہندوستان عالمی مسائل کو حل کرنے میں کوئی مؤثرکردار ادا کرسکتاہے اورنہ اقوام متحدہ ان چیلنجز کو حل کرنے میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔
اجلاس میں ہندوستان نے کچھ نئے اقدامات تجویز کئے تھے جیسے ، کہ ڈجیٹل پبلک انفراسٹرکچر کا فروغ ، عالمی قرض کے بوجھ سے نمٹنا اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی مقاصد کیلئے ادارہ جاتی امداد کو فعال کرنا شامل ہے۔ جی- 20 سربراہی اجلاس اس بات کو ذہن میں رکھ کر کارروائی کررہاہے کہ پوری دنیا ایک زمین اورایک خاندان ہے اوردوسرے کا درد اپنا دردسمجھ کر کم کرناہے۔ جی- 20کی شراکت داری کا تجزیہ کرنے پر پتہ چلتاہے کہ مجموعی عالمی پیداوار کا تقریباً 85 فیصد ، عالمی آبادی کا دوتہائی ، دنیا کے رقبہ کا 60فیصد اوربین الاقوامی تجارت کے 75فیصد کی نمائندگی یہ ممالک کرتے ہیں۔ اب اگرجی- 20 کے اجلاس کی حصولیابیوں پر غور وخوض کیاجائے توہمیں معلوم ہوگا کہ روس- یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کیلئے یہ سربراہی اجلاس کوئی مؤثر کردار نہیںنبھاپایاہے کیونکہ روس اورچین کے سربراہان اس اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ سماجی اورمعاشی زمرے سے متعلق ترقیاتی مسائل کو حل کرنے میں بھی یہ کانفرنس کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھاسکی۔ اس کا سب سے بڑا سبب معاشی عدم مساوات اور اقتصادی نمو کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہوناہے۔
یہ دنیا میں ایک ایسا چیلنج ہے جس کے آگے سارے غیرکمیونسٹ ممالک نے گٹھنے ٹیک دئے ہیں۔ جب اس کانفرنس کا ایجنڈہ تیار کیاگیا تو مختلف ممالک کے ماہر اقتصادیات نے کچھ اہم مسئلوں کو نظرانداز کردیا۔ ایک خاص ایجنڈہ جس کو اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہ ہے خواتین ،بچے اورنوجوانوں کی صحت کے میدان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا۔ اس کو ممبران بھول گئے۔ اس کی ان دیکھی کرنے سے دنیا میں غریبی میں اضافہ ہورہاہے۔ جیسا کہ پہلے بتایاجاچکاہے اس وقت جی -20ممالک میںدنیا کی دوتہائی آبادی بستی ہے۔ اس لئے اس سربراہی اجلاس میں ایسے اقدام کئے جانے چاہیے تھے، جس سے خواتین،بچوں ونوجوانوں کی صحت بہتر کرنے کیلئے باہمی تعاون کو فروغ ملتا اور اس سے ان کی زندگی بچائی جاسکتی ۔ اس اجلاس میں اعدادوشمار کا ایک بہترنظام قائم کرنے کیلئے لائحہ عمل تیار کیاجاناچاہیے تھا جس سے تمام طرح کی ترقیاتی پالیسی اورپروگرام کے نفاذ کی بہتر نگرانی ہوتی۔
ایک اورسب سے بڑا چیلنج ہے ،ترقی پذیر ممالک خصوصاً ہندوستان میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی بڑھتی شرح۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کی صلاحیت کو نکھاراجائے ، انہیں تربیت دی جائے اورڈجیٹل تعلیم کو فروغ دیاجائے۔ جی- 20 ممالک میں ہندوستان کا تعلیمی معیار بہت خراب ہے۔ علاوہ ازیں پسماندہ طبقات جیسے دلت ،آدیواسی اورمذہبی اقلیتوں کے زیادہ تربچے اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کچھ بچے ابتدائی تعلیم کے بعد ہی اسکول جانا بندکردیتے ہیں۔ ان کے والدین ان کو چھوٹے موٹے کام میں لگاکر گھر کی آمدنی میں اضافہ کرتے ہیں۔ کچھ بچے جونیئر ہائی اسکول اورہائی اسکول کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں اوروہ گھر کیلئے روزی روٹی کماتے ہیں۔ ایسے بچوں کے لیے کوئی ایسی ترکیب کی جانی چاہیے تھی جس سے بڑھتی ہوئی آبادی ملک کی اقتصادی حالت پر بوجھ نہ بنے۔ مثال کے طور پرکم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ہنر سکھاکر اورتربیت دے کر انہیں ترقی یافتہ ممالک میں بھیج کر اپنے ملک کیلئے زرمبادلہ کمایاجاسکتاہے۔ لہٰذا عالم گیر سماجی تحفظ کا ایک منصوبہ تیار کرناہوگا۔ پھربچوں کی ترقیاتی ضرورتوں کو پورا کرنے کے مقصد سے سرمایہ کاری کو فروغ دیناہوگا۔ اس سے ایک اورفائدہ یہ ہوگاکہ اقتصادی نمو میں خواتین ،بچوں ونوجوانوں کی شراکت بڑھے گی۔
جی- 20اجلاس کے دوران ہوئے دوطرفہ سمجھوتوں میں بھی ہندوستان کے اقتصادی مفادات کے تحفظ پر سوال اٹھے ہیں۔ موجودہ حکومت نے چند امریکی زرعی پیداوار وپولٹری فارم کیلئے ہندوستانی بازار کو پوری طرح سے کھول دیاہے۔ معتبرذرائع سے پتہ چلاہے کہ ہندوستان نے چنا، دال، بادام، آخروٹ ،سیب ، بورک ایسڈ اور ڈائگنوسٹک آلات سمیت کچھ امریکی سامانوں پر ٹیکس کم کرنے پر اتفاق کیاہے۔ اس کے برعکس بائیڈن ایڈمنسٹریشن نے منصوبہ کے تحت ملنے والے ہندوستانی برآمد ات کیلئے چھ ارب ڈالر کے تجارتی فائدے کو بحال کرنے سے انکار کردیاہے۔ ہندوستان کازرعی شعبہ پہلے ہی برے دور سے گزررہاہے۔ امریکی زرعی اجناس کو کھلی چھوٹ دینے سے متعلقہ ہندوستانی زرعی صنعتوں کو غیرملکی سامانوں سے زیادہ مسابقت کا سامنا کرناپڑسکتاہے۔ اس سے ہندوستان میں کچھ شعبوں میں روزگار کی کمی ہوسکتی ہے۔ ’میک اِن انڈیا ‘کے باوجود 2013 کے بعد کل غیرمنظم سیکٹرمیں ملازمتوںمیں گراوٹ آئی ہے۔ نتیجتاً غریبی میں روزبروز اضافہ ہورہاہے۔’ ورلڈبینک ‘کی ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء￿ کے دوران جی- 20ممالک میں غریبی میں سات کروڑ کا اضافہ ہواہے، اس میں سے پانچ کروڑ (80فیصد) تنہا ہندوستان سے ہیں۔ گودی میڈیا کے ابھرتے بھارت کے شور کے پیچھے کی ان کمیوں پر بھی حکومت کو غور کرناچاہیے۔
روز نئے اشتہار ات کے ذریعے ابھرتے ہندوستان کی تصویر دکھائی جاتی ہے۔ ہرکام حکومت کے حق میں انتخابی لحاظ سے سود مند دکھانے کی کشش ہوئی ہے۔ ایسا لگتاہے کہ ملک میں اس سے پہلے جی 20-جیسی شاندار کوئی کانفرنس نہیں ہوئی جبکہ 1983 میں جی -20سے کئی گنابڑا پروگرام منعقد ہوچکاہے، جب ہندوستان کو ناوابستہ ممالک کی قیادت کا موقع حاصل ہواتھا۔ تقریباً 100ممالک کے سیاسی سربراہان شامل ہوئے تھے اورکیوبا کے صدر فیڈل کاسترو کے ذریعے وزیراعظم اندرا گاندھی کو نئی ذمہ داری (ناوابستہ ممالک کی قیادت) سونپی گئی تھی۔ آج ہندوستان میں بڑھتی عصبیت اورختم ہوتا بھائی چارہ مستقبل کیلئے اچھے اشارے نہیں ہیں۔ شدت پسندی کو کئی موقعوں پر حکومت کی بھی شہہ ملتی معلوم ہوتی ہے، جس کا ذکر یوروپی یونین اور دوست ملک امریکہ کے حکمراں بھی کرچکے ہیں۔ بہرحال آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نہرو اورباجپئی دورمیں اپنائی گئی باہمی میل و محبت کی پالیسی کو اپنایاجائے اوراس کو فروغ دیاجائے۔ جمہوری نظام میں نااتفاقی رکھنا کسی بھی جماعت یاتنظیم کا فطری عمل ہے ، نئے ابھرتے ہندوستان میں انہیں ملک مخالف یا دشمن فریق کے طور پر نہیں دیکھاجاناچاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS