بوئے پیڑ ببول کا۔۔۔

0

زین شمسی

دیش بدنام ہوا ہے،اس کا دکھ کم از کم ان کو تو ضرور ہوا ہے جو دیش سے پریم کرتے ہیں، جو جانتے ہیں کہ اس ملک کی برسوں کی روایت ہی اس ملک کو عظیم بناتی ہے اور جب اس عظیم اور مستحکم روایت کو ٹھیس پہنچائی جائے گی تو ملک ہی کیا دنیا بھی حیرت زدہ رہ جائے گی کیونکہ دنیا میں بھارت ایک روادار، فراخ دل اور امن پسند قوم کے نام سے اپنی شناخت قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس لیے معزز وزیراعظم نریندر مودی بھلے ہی بھارت میں جے شری رام کے نعروں کو اہمیت دیتے ہوں، مگر جب ملک کے باہر جاتے ہیں تو گاندھی اور مہاتما بدھ کی دھرتی کے طور پر بھارت کا ذکر کرتے ہیں۔ این ڈی اے2- یعنی مودی حکومت کی دوسری اننگز کے درمیان ملک کا چہرہ ٹھیک اسی طرح دکھائی دے رہا ہے جیسے انگریزوں کے زمانے میں ہندو اور مسلم کی تفریق کا خوفناک منظر ہوا کرتا تھا ، جس کے نتیجہ میں بھارت کو تقسیم کا درد جھیلنا پڑا۔آج بھارت میں جو بھی چل رہا ہے ، جس طرح اسے چلایا جارہا ہے، یہ کہنے سے گریز نہیں کرنا چاہیے کہ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اس حکومت سے پہلے بھارت ہندو-مسلم اتحاد کانظیر بنا ہوا تھا، فسادات کا ایک پورا جال ملک کی ہر ریاست میں پھیلا ہوا ہے۔ تقریباً تمام علاقے فسادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور خاص کر وہ علاقے ہمیشہ نشانے پر رہے ہیں، جہاں مسلمانوں کی معاشیات پھلتی پھولتی نظر آتی ہے، مگر ان فسادات کے بوجھ تلے دبنے کے باوجود بھارت کے عوام ایک دوسرے سے نفرت نہیں کر پائے اور اسے سیاسی و معاشی مفاد پرستی کا کالا چہرہ سمجھ کر بھول گئے اور اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوگئے، مگر اب حالات خطرناک صورت اختیار کررہے ہیں اور یہ خطرناک اس لیے بھی ہیں کہ جدو جہد آزادی کے دور میں دنیا اتنی سمٹی ہوئی نہیں تھی اور تجارت اور تکنیک نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، مگر اب گلی کے ایک کوچے میں ہونے والا چھوٹا سا واقعہ بھی پل بھر میں عالمگیر شہرت اختیار کرلیتا ہے،اس کی پردہ پوشی نہیں کی جاسکتی۔ اس لیے ہم اور آپ جو بھی کرتے ہیں، اس کا سیدھاتعلق ملک اور ملک سے باہر کے مفادات سے منسلک ہوجاتا ہے۔ ایسے میں تمام لوگوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ کچھ ایسا نہ کریں جس سے ہمارے گھر، شہر، ریاست اور ملک کو شرمندہ ہونا پڑے۔
گزشتہ چار پانچ سالوں میں قومی ٹیلی ویژن پر سوائے ہندو-مسلم ایشو کے اور کچھ نہیں پروسا گیا۔ عدالتیں ، انتظامیہ اور انٹلیجنس ایجنسیاں ایک فرقے کو نشانہ بنائے رہیں۔حتیٰ کہ برسراقتدار پارٹیوں نے ملک کے عوام کی پروا نہ کرتے ہوئے نفرتی بیانات اور پیغام کی جھڑی لگا دی۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ بھارت کا ایک ہی مسئلہ ہے اور وہ ہے مسلمان۔ کوئی اسے حرام زادہ کہہ رہا ہے ، کوئی اسے گولی مارنے کی دھمکی دے رہا ہے ، کوئی اس کی نسل کو ختم کرنے کی اپیل کر رہا ہے تو کوئی اس کی نماز اور اذان پر بے لگام بول رہا ہے۔نہ سرکار اس کی خبرلے رہی ہے اور نہ ہی عدالتیں کوئی نوٹس لے رہی ہیں۔ ملک کے بڑے ادارے کی خاموشی نے ملک کے جرائم پسند اور بے روزگار نوجوانوں کو نفرت کی اس انڈسٹری کا مزدور بنا لیا ہے۔انہیں یہ خفیہ پیغام پہنچا دیا گیا کہ تم مسلمانوں کے ساتھ لنچنگ کروگے، ان کی مساجدکو ناپاک کروگے، انہیں گالیاں دوگے تو سرکار کی طرف سے انعام دیا جائے گا اور ایسا کئی معاملوں میں کیا بھی گیا کہ جنہوں نے مسلمانوں کو سر عام گولی مارنے کاپیغام دیا، اسے وزارت تک مل گئی۔ایسے میں جاہل اور بے روزگار نوجوانوں کو شہ ملی کہ وہ کھلے عام مسلمانوں کو زد وکوب کریں، اس کا صلہ انہیں ملے گا۔ایسے نوجوانوں میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں، جنہیں ریزرویشن دلانے میں مسلمانوں کا بھرپور ساتھ ملا۔آج کے ہندوستانی پس منظر میں دیکھیں تو دلت و پچھڑے کریمنل بن رہے ہیں، اعلیٰ طبقہ پیسہ کما رہا ہے، متوسط طبقہ اپنی نوکری اور پیشہ بچانے کے لیے خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔
سیاست کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی اسی سیاست کو ہوا دی جائے ، جس کی ہوا بنا کر الیکشن جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے۔آج کی سیاست فلمیں بنا کر تاریخ کا مذاق اڑا رہی ہے۔ کتابوں کاغیر سائنسی نصاب بنانے میں مشغول ہے۔ جھوٹی اطلاعات پھیلانے والے ٹی وی اینکرز کے سامنے سربسجود ہو رہی ہے۔ سماجی نفرت کو فروغ دینے کے لیے تمام وسائل کا استعمال کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ ملک کے سیدھے سادے مہنگائی اور بے روزگاری سے جوجھتے عوام جرائم کی دنیا میں خود کوبخوشی جھونک رہے ہیں۔
سرکار کو یہ تو نظر آگیا کہ مسلم ممالک نے ملک کے خلاف اعتراضات درج کیے ہیں،مگر وہ یہ کیوں نہیں دیکھ پارہی ہے کہ ہزار ہا نفرت کو بھارت کے امن پسند کس ذہنی کیفیت کے ساتھ جھیل پا رہے ہیںکہ ان کے رسولؐ کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے ، پھر بھی وہ خاموش ہیں، وہ خاموش اس لیے نہیں ہیں کہ وہ بزدل ہیں، وہ خاموش اس لیے ہیں کہ ان کا دیش ان کو عزیز ہے۔ وہ بابری مسجد کا فیصلہ بھی خاموشی سے سن لیتا ہے اور کانپور میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کو بھی برداشت کر لیتا ہے کہ ملک کی عدالتوں پر انہیں اب بھی بھروسہ ہے اور دوسری طرف سرکار کی آنکھ تب بھی نہیں کھلتی کہ اگر مسلم ممالک کے دبائو میں وہ نوپور شرما اور جندل کو معمولی سی سزا دیتی ہے تب ان ہی کے لوگ ان پر برس پڑتے ہیں اور انہیں ہی عتاب کا شکار بناتے ہیں۔ ٹیوٹر پر جس طرح سرکار کے خلاف ہیش ٹیگ چلا کر سرکار کے حامیان ہی سرکار کو دھوکہ باز ثابت کرتے نظر آئے، اس سے سرکار کو سمجھ لینا چاہیے کہ ببول کے پیڑ کانٹے ہی دیتے ہیں، اس پر پھول لگنے کی امید نہیںکی جانی چاہیے۔ بھیڑ تنتر کو بڑھاوا دے کر سرکار خود کا تو جو نقصان کر لے ، بھارت کا بہت بڑا نقصان کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے سبق لیتے ہوئے سرکار کو اب اپنی سیاست کارخ مثبت شاہراہ پر موڑنے کی ضرورت ہے۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ میڈیا اور اپنے بھکتوں کویہ پیغام پہچانے کی ضرورت ہے کہ اب ہم بھارت کو سنوارنے میں اپنی طاقت صرف کرنا چاہتے ہیں، عوامی مفاد کی جانب اپناسیاسی ایجنڈا موڑنا چاہتے ہیں۔ یہ سب خود بخود اپناایجنڈا تبدیل کر لیں گے، ورنہ ایک دن یہی نادان دوست سرکار کے گلے کی سب سے بڑی پھانس بننے جا رہے ہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS