مولانا عبدالحفیظ اسلامی
کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کر واپس دے اور اس کے لئے بہترین اجر ہے (ترجمانی: سورۃ الحدید)
اللہ تبارک و تعالیٰ جہاں پر وہ ساری کائنات کا تنہا خالق و مالک ہے اور وہ اس کے متعلق تمام حرکات و سکنات اور اس کے ذرہ ذرہ سے واقف ہے اور اس کی ہر چیز کا وہ کامل علم رکھتا ہے، علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کی یہ شان علمی ہے کہ وہ ہر انسان کے لئے کون کون سی چیزیں مضر ہیں اور کونسی اشیاء اس کے لئے مفید و معاون ہوتی ہیں اس بات کا اسے پورا ادراک ہے اور کوئی چیز بھی اس سے پوشیدہ اور مخفی نہیں ہے۔
سورۃ الانعام آیت نمبر ۵۹میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی شان، کبریائی اور اپنی بے مثال ہستی ہونے کا اظہار یوں فرماتا ہے:
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا بحر و بر میں جو کچھ ہے سب سے وہ واقف ہے، درخت سے گرنے والا پتہ ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو زمین کے تاریک پردوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں جس سے و باخبر نہ ہو، خشک و تر سب کچھ ایک کھلی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔
اور اسی طرح سورۃ البقرہ آیت ۳۳میں یہ بات آئی ہے کہ ’’میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے مخفی ہیں، جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو وہ بھی مجھے معلوم ہے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی میں جانتا ہوں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اندر انتے بے حد و حساب کمالات رکھتا ہے جسے ہم شمار نہیں کرسکتے اور اس کی سب سے بڑھ کر عالی شان خوبی یہ ہے کہ وہ سارے جہاں کا رب ہے جسے ہم ہر نماز میں قرأت کا آغاز بھی انہیں الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں کہ الحمد للہ رب العالمین، تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ اس میں مالک کائنات کی تعریف، اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس کے رب ہونے کا اقرار بھی کرتے ہیں اور اس کے رب ہونے کا یہ اقرار صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار ہر نماز میں ہر دعا سے قبل اور خطاب کے آغاز میں، ہر خطیب اپنے خطاب کے اختتام پر، یہاں تک کہ جنتیوں کی ہر بات کا خاتمہ اللہ رب العالمین کے ذکر پر ہوگا۔
الغرض اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارا رب ہونے کی حیثیت سے وہ ہمارے لئے طریقہ بندگی و سلیقہ زندگی سکھلانے کا بھی بھرپور انتظام فرمادیا۔ اللہ ہمارا رب ہے، لہٰذا عبادت اسی کی کی جائے کیونکہ سارے انسانوں کو حکم دیا گیا کہ (ترجمہ) اللہ تبارک و تعالیٰ سارے انسانوں کو حکم فرما رہا ہے کہ تم اپنے پیدا کرنے والے خالق اور تمہارے رب کی بندگی اختیار کرو، بندگی رب کا مفہوم سارے کے سارے ’’عبادات رب‘‘ میں سمٹ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین، قرآن حکیم کی آیات مبارکہ اور قرآن مجید میں گزرے ہوئے قوموں کے واقعات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان حق سے نکلے ہوئے بصیرت افروز الفاظ یہ سب کے سب کامل طور پر ربوبیت و تخلیق کی معرفت کا لازمی تقاضا ہے۔ کیا کچھ ہونا چاہیے اس کی طرف نوع انسانی کو رجوع کرواتی ہیں، جس کے سمجھنے اور اس کی اہمیت جاننے سے انسان میں اللہ تعالیٰ کے احکامات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی طرف قلوب مائل ہوجاتے ہیں۔
’’دعوت عبادت رب‘‘ کے لئے یہ دلیل پنہاں ہے کہ تمہارا رب جس نے تمہاری جسمانی ربوبیت کے لئے کائنات کا یہ نظام بنایا اور تمہاری روح اور عقل کی رہنمائی کے لئے ارسال وحی، بعثت انبیاء و رسل اور انزال کتاب کا سلسلہ قائم کیا اور جو تمہارا خالق بھی ہے وہی تمہاری بندگی اور پرستش کے لائق ہے، وہی تمہاری اطاعت اور محبت کا حق دار ہے۔ جب تم نے اپنے رب کو جان لیا اور تمہیں یہ معرفت حاصل ہوگئی کہ جو تمہارا خالق ہے وہی تمہارا رب اور مالک بھی ہے اور تم پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی کہ یہ نظام کائنات ازخود چند لگے بندھے قوانین کے تحت نہیں چل رہا ، بلکہ اس میں ہر آن اور ہر لحظہ اس کا حکم اور اس کا امر جاری و ساری ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تم خود کو اپنے رب کے سامنے بچھا دو، اس کے آگے جھک جائو اور خود کو پست کردو، اس کے سامنے عاجزی و انکساری اختیار کرو، کمال محبت، کمال شوق اور کمال رغبت کے ساتھ اس کے جملہ احکام کی اطاعت کرو، اس کے تمام قوانین کی پابندی کرو اور اپنی زندگی پوری کی پوری اس کی اطاعت کے سانچے میں ڈھال دو۔ یہ اس دعوت کا لازمی تقاضا ہے۔
بندگی رب کا تقاضا صرف زبانی دعویٰ سے پورا نہیں ہوتا بلکہ عملی طور پر اپنی زندگی میں جو کچھ مہلت دی گئی ہے اس کے شب و روز میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں گزارنا اس دعویٰ کی دلیل ہوتی ہے۔
قرض حسنہ سے مراد اور اس کی تعریف بھی ذہن نشین رہنی چاہیے۔ قرض حسنہ سے مراد جو ایک مالدار آدمی محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر کسی غریب و محتاج آدمی کو اس کی ضروریات کی تکمیل کے لئے دیتا ہے اور اس پر کسی قسم کا سود وصول نہیں کرتا۔ اسلام ایک ایسے مثالی معاشرے کے قیام کا خواہاں ہے جس کے افراد ایک دوسرے کے لئے محبت، پیار اور خلوص کے جذبات رکھتے ہوں۔ جہاں امراء کو غربا کی ضروریات کا احساس ہو اور وہ ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتے ہوں۔ اس لئے اس نے اہل ثروت کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنی دولت کا کچھ حصہ ان تنگ دست افراد کو قرض کے طور پر دیں جو غربت اور معاشی بدحالی کی وجہ سے کوئی کاروبار نہیں کرسکتے تاکہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کریں اور ملکی معیشت کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ارشاد ربانی ہے: ’’کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے پھر اللہ اسے اس شخص کے لئے بڑھاتا چلا جائے اور اس کے لئے اجر پسندیدہ ہے‘‘ (الحدید: ۱۱) تنگ دست آدمی کو خوشحالی تک مہلت دینی چاہیے اور اگر ایسے شخص کا قرض معاف کردیا جائے تو اس کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زرقرض) بخش دو تو وہ تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے، بشرطیکہ سمجھو (البقرہ)
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک تاجر تھا جو لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا پس جب وہ دیکھتا کہ کوئی تنگ دست ہے تو اپنے نوکروں سے کہتا اس سے درگزر کرو شاید کہ اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر کرے (پس جب وہ فوت ہوا تو) اللہ نے اس سے درگزر کیا۔
حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو شخص تنگ دست کو مہلت دے یا اس کو معاف کردے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کی سختیوں سے نجات بحشے گا۔
سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی مومن پر سے کوئی سختی دنیا کی دور کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر آخرت کی سختیوں میں سے ایک سختی دور کرے گا اور جو شخص مفلس کو مہلت دے یعنی اس پر تقاضا اور سختی نہ کرے، اپنے قرض کے لئے (اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کرے گا دنیا اور آخرت میں اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب ڈھانکے گا دنیا میں تو اللہ تعالیٰ اس کا عیب ڈھانکے گا دنیا اور آخرت میں۔ اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں رہے گا جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہے گا اور جو شخص راہ چلے علم حاصل کرنے کے لئے) یعنی علم دین خالص اللہ کے لئے (اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ سہل کردے گا اور جو لوگ جمع ہوں اللہ کے کسی گھر میں اللہ کی کتاب پڑھیں اور ایک دوسرے کو پڑھائیں تو ان پر اللہ کی رحمت اترے گی اور رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اور فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پاس رہنے والوں میں) یعنی فرشتوں میں۔
واعظین کرام اور ناصحین کوچاہئے کہ وہ اپنے خطابات میں دروس قرآن کی محفلوں میں قرض حسنہ پر لوگوں کو ابھاریں تاکہ سودی کاروبار کی حوصلہ شکنی ہو اور یہ مسلم معاشرے میں پنپنے نہ پائے۔