عبدالسلام عاصم
کچھ لوگ تو محض تھپڑ مارنے کے جرم میں برسوں سے جیلوں میں پڑے ہیں۔ وہ نہ تو اپنے حقوق سے آگاہ ہیں! نہ اُنہیں آئین کے تقاضوں کا علم ہے!! اُنہیں داخل زنداں کرنے والے آزاد گھوم پھر رہے ہیں اور ایسے قیدیوں کو اُن کے گھر والے نجات دلانے کی کوشش میں اپنا سب کچھ گنو اچکے ہیں۔ کچھ اس طرح کے الفاظ تھے جن میں صدر جمہوریہ ہند محترمہ دروپدی مرمو نے پچھلے مہینے کی 26 تاریخ کو اپنے جذبات کی ترجمانی کی تھی۔ ہر سال 26 نومبر کو ہمارے یہاں یومِ آئین منایا جاتا ہے۔ 1949 میں اسی روز ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں ملک کے اُس آئین کو منظوری دی گئی تھی جو ہماری اُن قدروں کی اساس ہے جن پر ہم 26 جنوری 1950 سے عمل کے دعویدار ہیں۔
اگر ہم اِس رُخ پر قول و عمل کے تضاد کا شکار نہیں ہوتے تو محترمہ مرمو اپنے شدید جذبات کی اس طرح ترجمانی کرنے پر مجبور نہیں ہوتیں۔ کہا جاتا ہے ہندوستان کے پارلیمانی جمہوری نظام میں صدر کی عملاً کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ یہ بات صرف وہ لوگ کہہ سکتے ہیں جو ہندوستان کے آئین کو عقائد کی کتابوں کی طرح پڑھتے آئے ہیں۔ زندگی کی اصل ترجمانی بین السطور ہوتی ہے۔ اس کے فقدان کی وجہ سے ہی دنیا میں اچھے اور برے لوگوں کی تمیز کا فکری پیمانہ منصفانہ نہیں، فیصلہ پسندانہ بنا ہوا ہے۔ اکثر پڑھے لکھے لوگوں کی زبان پر بھی یہ سفاک جملہ چلا آتا ہے کہ چور بس وہ ہے جو پکڑا جائے، باقی سب شاہ۔ جبکہ ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ کے دستاویزات ایسے جھنجھوڑدینے والے موقعوں سے بھرے پڑے ہیں جن میں ہمارے صدور نے حکومتِ وقت کے اچھے کاموں کی صرف پذیرائی ہی نہیں کی بلکہ آئینہ دکھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی حکومتیں اپنی تمام تر موقع پرستانہ سیاست کی پردہ پوشی کیلئے جمہوریت کی ہی پاسداری کرتی ہیں۔ بصورت دیگر ہماری جمہوریت بھی برطانیہ داد ہمسائے کی طرح کاغذی حیثیت رکھتی۔
بہر حال بات چل رہی تھی جیلوں کے حوالے سے تو جیسے ہی مزید جیلیں بنانے کی بات سامنے آئی، آئین کی پاسداری کے حوالے سے صدر جمہوریہ کے کان کھڑے ہوگئے اور انہوں نے معکوس رُخ پر ارتقا کے سفر کی طرف الفاظ چبائے بغیر اپنے عدم اطمینان کی انگلی اٹھا دی۔ انہوں نے حیران لہجے میں کہا کہ مزید جیلیں بنانے کی بات ہو رہی ہے: تو یہ کیسی ترقی ہے! جیلیں تو ختم ہونی چاہئیں!! محترمہ کا روئے سخن بظاہر ججوں کی طرف تھا لیکن بباطن وہ انصاف اور قانون کی رکھوالی کرنے کے تمام دعویداروں سے مخاطب تھیں۔ دنیا کا کوئی معاشرہ برائی سے کامل طور پر پاک نہیں اور یہ فطری بھی ہے۔ بصورت دیگر دنیا فرشتوں پر مشتمل اوربے رونق نظر آتی۔ برائی اپنے آپ میں کوئی سرطان نہیں، لیکن جب برائی اچھائی کا بہروپ دھار کر زندگی کا حصہ بن جاتی ہے تو زندگی کے کچھ موڑ صرف خطرناک ہی نہیں رہ جاتے، ہلاکت خیز بن جاتے ہیں اور یہ ہلاکتیں اُن بزعم خود اچھے لوگوں کے حصے میں آتی ہیں جو برائیوں کے خاموش تماشائی بن کر جی رہے ہوتے ہیں۔ محترمہ بباطن ایسے ہی لوگوں سے بہ انداز دیگر مخاطب تھیں۔
ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں قید و بند کی سزائیں غیر متناسب طور پر غریبی میں زندگی گزارنے والوں اور ان کے خاندانوں کو بری طرح متاثر کرتی ہیں۔ جب خاندان کا ایک ایسا رُکن جیل چلا جاتا ہے جو اپنی آمدنی سے کسی طرح گھر چلا رہا تھا تو خاندان کے باقی ارکان کو آمدنی کے اس نقصان کو ایڈجسٹ کرنے میں زبردست آزمائش کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر نتائج خراب سے خراب تر نکلتے ہیں۔ جنوبی ایشیا خاص طور پر برصغیر کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں جہاں کی حکومتیں غریبوں کو مالی امداد فراہم کرنے سے قاصر چلی آرہی ہیں، وہاں اسی طرح کسی خاندان کو اپنے ایک رکن کی قید کے نتیجے میں زبردست تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وکیلوں کے چکر میں اکثر گھر تک بک جاتے ہیں اور اس طرح نئی برائیاں سر اٹھانے لگتی ہیں۔ چوری، سماجی جرم اور جھگڑے، فساد میں گرفتار کوئی شخص جب رہا ہوتا ہے تو اکثر اس کیلئے ملازمت کے امکانات ختم ہوچکے ہوتے ہیں۔ اسے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح اُس کی غریبی اور پسماندگی نہ صرف اُسے بلکہ دوسرے افرادِ خانہ کو بھی جرائم اور قید کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا شکاربنا دیتی ہیں جو مستقبل کے متاثرین تک دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ کوئی خیالی منظر نامہ نہیں۔ اگر آپ کسی حد تک بھی حساس ہیں توعام اخبارات، خبروں کے چینل اور سوشل میڈیا کے ذریعہ چوبیسوں گھنٹے تکلیف دہ واقعات اور سانحات کے ایسے سلسلے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں گزر سکتے۔ اگر ایسا نہیں ہے،یعنی آپ کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے تو کچھ لمحوں کیلئے ٹھہر کر سوچیں کہ آپ کون ہیں! اور کس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں!! سراغ چاہیے تو سن لیں کہ یہ طبقہ آبادی کے تناسب سے ہرفرقے میں موجود ہے۔ شاید میں بھی اسی طبقے کا ایک رُکن ہوں۔ فرق بس اتنا ہے کہ میں یہ سب لکھ رہا ہوں اور آپ اِس وقت پڑھ رہے ہوں گے۔ صدر جمہوریہ اصل میں ہمیں ہی جھنجھوڑ رہی ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی وابستگی والے سفر، گورنری اور پھر ملک کی صدارت تک کے ادوار کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے ارتقا کے سفر کو معکوس رُخ میں آگے بڑھانے سے روکنے کی درد مندانہ اپیل کی ہے۔ اس اپیل کا رُخ ووٹروں، انتخابی امیدواروں، حکمرانوں، اپوزیشن اور انتظامیہ سب کی طرف ہے۔ ہم سب انہی میں کہیں نہ کہیں با ہوش و حواس موجود ہیں۔
کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ قید کی سزا سے تو کسی بھی خاطی کو بس اس کی آزادی کے بنیادی حق سے ہی محروم کیا جاتا ہے اور اس کا دائرہ بھی صرف جیل تک ہی محدود ہے۔ اس میں دیگر انسانی حقوق سلب کر لینے کا کوئی عمل شامل نہیں۔ یہ ایک رٹا ہوا نتیجہ ہے جو اخذ کر لیا جاتا ہے لیکن ہم ایک بار اپنے دل سے پوچھیں کہ کیا واقعی ایسا ہے! جس معاشرے میں جرائم، سزائیں اور جیلوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، کیا اُس میں نگہداری پر مامور سب لوگ فرشتہ صفت ہو سکتے ہیں! اگر جواب نہیں اور واقعی نہیں میں ہے تو لازم ہے کہ پہلی فرصت میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ سب سے پہلے موجودہ جیلوں میں بڑے پیمانے پراصلاحات کے قدم عملاً اٹھائے جائیں تاکہ خاطی کی اصلاح کے تمام اصولوں کا احترام کیا جا سکے۔ قیدیوں کے انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے اور متعلقہ بین الاقوامی معیارات اور اصولوں کی تعمیل میں کوئی کمی باقی نہ رہنے دی جائے تاکہ سزا یافتگان کی سماجی بحالی کے امکانات بڑھ جائیں۔
یہ کام ہم سب کی بگڑی ہوئی عادت کی وجہ سے مشکل ضرورہے لیکن زمانے کی قسم ناممکن ہرگز نہیں کیونکہ وہ ہم ہی ہیں جو بقائے باہم کی صرف بات نہیں کرتے، امن کی زندگی کے خواب بھی دیکھتے ہیں اور مایوس ہو کر رہ جانے والوں کی نفسیات کو سمجھنا اور انہیں بے یقینی کے حصار سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ہم موجود ہیں تو پھر مایوسی کیسی! افسوس ضرور کریں لیکن سوچنا بند نہ کریں۔ ورنہ سمجھنے کی توفیق بھی متاثر ہونے لگے گی۔ نئی نسل کی بیزاری کو بیداری میں بدلنا ہے۔ یہ کام بہر حال اُن آزمودہ چال بازوں کو نہ سونپیں جن کی وجہ سے ہم آج اِس موڑ تک آئے ہیں۔ وہ تو آج بھی بس یہ گنوانے سے دلچسپی رکھتے ہیں کہ جیلوں میں کس کی تعداد کتنی ہے۔ میڈیا میں جیسے ہی یہ تعداد چھپتی یا گونجتی ہے ایک حلقہ خوش تو دوسرا مایوس ہو جاتا ہے اور دونوں طرف کے فرقہ پرست عناصر اپنے اپنے حلقوں کے جذبات کو کیش کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
وقت آگیا ہے کہ ہم واقعات اور سانحات کے روایتی تجزیوں سے باہر نکلیں۔ حکمرانوں اور حکومت میں آنے کے منتظرین پر یہ باور کرایا جائے کہ قید و بند کی صعوبتیں سماجی تعلقات میں بھی خلل ڈالتی ہیں۔ اس سے معاشرتی اور تہذیبی ہم آہنگی کمزور ہوتی ہے اور جب اس میں بین فرقہ نفرت کا تڑکا لگا دیا جاتا ہے تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری طویل مدت کیلئے خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جب کسی سماجی جھگڑے کو غلط رنگ دے کر کسی حلقے کے کچھ لوگوں کو قید کیا جاتا ہے تو کثرت میں وحدت والا سماجی ڈھانچہ بری طرح لرز اٹھتا ہے۔ یہ خلل ہمسایوں کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ذمہ داران کے درمیان تعلقات کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بڑے پیمانے پر قید و بند کا کوئی بھی سلسلہ ایک ایسے سماج میں انتہائی تکلیف دہ منفی تبدیلی لاتا ہے جہاں بین فرقہ شادی بیاہ تک کا رواج ایک حد تک عام ہو چکا ہو۔ ہندوستانی سماج کسی ایسی یک رنگی کے حق میں ہرگز نہیں جو ’گلستاں‘ کو ’قفس‘ بنا دے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]