عبدالسلام عاصم: امیری اور غریبی کی بڑھتی خلیج اور علمی ارتقا کا سفر

0

عبدالسلام عاصم

کچھ شکایات کا ازالہ اس لیے بھی نہیں ہو پاتا کہ متعلقین اُن شکایات کے ساتھ جینے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی ایک شکایت یہ ہے کہ غریب کی آمدنی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے اور امیروں کی دولت بڑھتی جارہی ہے۔ کچھ لوگ تو اس شکایت کے پیدا ہونے کے ذمہ دار ہیں اور باقی اس سے پیدا ہونے والے حالات کے راست اور بالواسطہ شکار۔ اس شکایت پر پہلے جہاں زیادہ تر پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں کا اجارہ تھا، وہیں اب بعض ترقی یافتہ ملکوں سے بھی ایسی شکایات تیزی سے سامنے آنے لگی ہیں۔ ان ملکوں میں اِن دنوں امریکہ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ دیگر مغربی اور یوروپی ملکوں میں بھی معیشت اور اس سے راست طور پر جڑے سماجی محاذ پر سب خیریت نہیں۔
ایشیائی اور افریقی خطوں کے بعض ممالک میں اس حوالے سے کہیں صورتحال افسوسناک ہے تو کہیں حالات انتہائی خطرناک۔ تازہ نظیر ہم سب سری لنکا میں دیکھ چکے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگلا نمبر پاکستان کا ہوسکتاہے جو تکنیکی طور پر ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ وہاں کی مجموعی خستہ حالی کی خبریں اب سوشل میڈیا اور یو ٹیوب چینلوں سے گزر کر عام اشاعتی اور برقی اخبارات میں بھی آنے لگی ہیں۔ہندوستان میں جو ایک سے زیادہ آزمائشوں کے باوجود دنیا کی بڑی معیشتوں کی صف میں شامل ہے، مجموعی حالات کا رُخ فوری طور پر کسی ایسے اندیشے کی طرف ہرگز نہیں کہ ایکدم سے ہاہا کار مچ جانے کا اندیشہ ہو۔ باوجودیکہ ہمارے یہاں بھی امیری اور غریبی کی خلیج پاٹنے کے اقدامات اتنے مؤثر نہیں جتنے ہونے چاہئیں تھے۔ نتیجے میں ہمارے یہاں امیری اور غریبی کا جو فرق اقتصادی سہل کاری کے اقدام کے نتیجے میں کم ہونا شروع ہوا تھا، وہ پھر کسی نہ کسی سطح پر بڑھنے لگا ہے۔ اس کے ایک سے زیادہ اسباب میں سے ایک سبب وہ ادارے بھی ہیں جنہیں کارکردگی سے زیادہ خانہ پُری سے دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسا کیوں ہے! اس کی تفصیل میں جانے کی اخباری کالموں میں گنجائش کم ہوتی ہے، صرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم بیکار باتوں کی طرح کچھ کام کی باتیں بھی کہتے یا دہراتے کم اور رٹتے زیادہ ہیں۔ مثلاً ہم اکثر یہ مصرع سنتے اور سناتے رہتے ہیں کہ ’’ہم سے زمانہ خود ہے، زمانے سے ہم نہیں‘‘۔ اِس گردان میں دو قدم آگے بڑھ کر ہمیں یہ بھی کہنا بلکہ ماننا اور جاننا چاہیے کہ افراد سے ادارے چلتے ہیں، اداروں سے افراد نہیں۔ اگر ادارے تشفی بخش نتائج سامنے نہیں لاتے تو یہ سمجھنے میں ہچکچاہٹ سے ہرگز کام نہیں لینا چاہیے کہ اداروں کے ذمہ داران ناقص، نا اہل یا بد قماش ہیں۔ جہاں پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے وہاں تو لا محالہ گرفت ہوجاتی ہے لیکن ہر جگہ سیلاب آنے تک سب سوئے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بیشتر معاملات میں واقعاً ایسا ہی ہوتا ہے۔ اِس سچ سے محض اتفاق کر لینے سے اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا جب تک ہم اس ادراک سے کام نہ لیں کہ نا اہل لوگوں کی وہاں تک رسائی کیسے ہوئی جہاں صرف اہل لوگوں کی گنجائش ہونی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں سماج کے منتخب ذمہ داران کو کسی اور کا نہیں اپنا محاسبہ کرنا ہو گا، جو ناممکن تو نہیں لیکن دنیا کا سب سے مشکل ترین کام ہے۔
کہتے ہیں کسی بھی ملک یا خطے کو تعلیمی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی فصیلوں سے گھیر کر ہی سب کیلئے قابل رہائش بنایا جاسکتا ہے۔اِن فصیلوں کے مفکریں اور عاملین پربہرحال لازم ہے کہ وہ یہ فصیلیں نہ اتنی اونچی بنائیں کہ وہاں رہنے والوں کی دنیا ہی محدود ہو کر رہ جائے اور نہ اسے اتنا نیچا رکھا جائے کہ درونِ فصیل ترقی یافتہ ممالک یا خطے اپنی خوشحالی سے تحریک پانے والوں کو کم اور چوری کرنے والوں کو زیادہ راغب کرنے لگیں۔ علم اور تکنیکی ہُنرکے ذریعہ انسانی بہبود کے محاذ پر ایک سے بڑھ کر ایک سائنسی ایجادات، انکشافات اوراختراعات سامنے لانے والے دنیا کے بیشتر کامیاب ملکوں کے ذمہ داروں سے یہیں وہ غلطی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں محدود سوچ رکھنے والی طاقتوں نے اچھی تحریک پانے کے بجائے چوری چکاری کو ترجیح دی اور کائنات کی تسخیر کے رخ پر تعمیری اشتراک کرنے کی جگہ وہ نیوکلیائی ہتھیار بنا کر ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے لگے۔
سرد جنگ سے اطلاعاتی ٹیکنالوجی کے موجودہ عہد تک علم سے مثبت اور منفی استفادہ کرنے والوں کے درمیاں بڑھتی خلیج نے آج انسانوں کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سے آگے کا راستہ کسی کیلئے محفوظ نظر نہیں آتا۔ دنیا کا خالق عقائد والا خدا ہے یا نہیں! اس بحث کی تمام استدلالی اور سائنسی کشش اب ختم ہوچکی ہے۔ اب تو بس ایک حقیقت سامنے ہے جس کا ہم میں سے کوئی منکر نہیں۔ اور وہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ خطرناک اور غیر انسانی منظرنامے کے خالق ہم ہیں کوئی اور نہیں۔ دنیا میں جتنی بھی خرابیاں ہیں وہ رنگ اور نسل، ذات اور مذاہب میں بٹے ہم انسانوں کی وجہ سے ہیں۔
اس منظر نامے کو بدلنے کیلئے ہمیں سرحدی فصیلوں سے گھرے اپنے یا کسی اور کے مکان کا نقشہ بدلنے کی ضرورت نہیں، صرف طرزِ رہائش بدلنا ہے اور آئندہ دہائیوں کو اسی مقصد کیلئے ذہنی تیاری میں صرف کرنا ہے۔ بصورت دیگر وہ تمام خندقیں ایک دن ہماری لاشوں سے بھی اٹیں گی جو ہم ایک دوسرے کیلئے کھود تے آ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ فطرت ہمیں خبردار نہیں کر رہی ہے۔ یہ ہم ہیں جو خبر دار اور تائب ہونے کے بجائے کہیں فرضی اندیشوں کو ٹالنے کے نام پر تو کہیں ممکنہ خطروں کا مقابلہ کرنے کیلئے رات دن بس نئی خطرناک چالیں چلنے میں لگے ہیں ۔
علم اور عقائد کی بے ہنگم آمیزش نے ہمیں دوہری زندگی جینے کا عادی بنا دیا ہے۔ایک طرف ہم زندگی سے زیادہ اہمیت اُن نظریات کو دیتے ہیں جن سے اختلاف کرنے والے کو جان تک سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ دوسری جانب حیات بخش دوائیں بھی ہم ہی ایجاد کرتے ہیں۔ کووڈ-19 ویکسین اس کی تازہ مثال ہے۔ اس ایجاد میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کے سائنس دانوں نے بڑے پیمانے پر روایتی اور ورچوئل اشتراک کا مظاہرہ کیا۔ کیا اس جذبے کا دائرہ زندگی کے دوسرے شعبوں تک وسیع نہیں کیا جا سکتا۔ انسانی شعور کو فتور سے پاک کرنے کی سائنسی کوشش میں آخر کیا قباحت ہے!
ایک سے زیادہ مذاہب کی عالمی دعائیہ اجلاسوں میں امنِ عالم کے حق میں جو دعائیں مانگی جاتی ہیں، اُن دعاؤں کی عدم مقبولیت کے اسباب جگ ظاہر ہیں۔ ان میں سے ایک سبب یہ ہے کہ ہم نے اپنے گریبان میں جھانک کر اپنی اصلاح کرنے کے بجائے عقائد اور علم دونوں کو کاروبار بنا لیا ہے۔ جعلی تعویز سے جعلی دواؤں تک کے کاروبار کا جال پھیلا ہوا ہے۔ الاماں الحذر۔ اس صورت حال پر قابو پانے کیلئے کسی نئی ایجاد یا استغفار برائے افتاد سے کہیں زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ علم اور عقائد دونوں سے منفی طور پر متاثر سماجی رویوں میں تبدیلی لائی جائے۔ ہمیں نہایت ایمانداری سے یہ سمجھنا ہو گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا کے ایک سے زیادہ ترقی یافتہ اور نام نہاد اعلیٰ اقدارکے حامل سمجھے جانے والے ملکوں کے لوگ بھی بہ کثرت مایوسی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور جاپان جیسے اقتصادی طور پر طاقتور ممالک بڑی تیزی سے سماجی عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان ملکوں کے امیر علاج و معالجے کیلئے ترقی پذیر ملکوں بالخصوص ہندوستان کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کے کم آمدنی والے لوگ کسی بھی تکلیف میں بدترین سماجی بیگانگی سے دوچار ہیں۔ اخبارات میں شائع رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر محض 40 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اُن کے اور اُن کے خاندان کیلئے آئندہ برسوں میں حالات بہتری کے رُخ پر ہوں گے۔ایڈلمین کمیونی کیشنز گروپ کے سربراہ رچرڈ ایڈلمین کے مطابق ایک سال قبل اس خیال سے اتفاق کرنے والوں کی شرح 50 فیصد تھی۔ سائنس اور تکنیک کی بدولت اقتصادی طور پر ترقی یافتہ ملکوں میں سب سے زیادہ عوامی مایوسی کی شرح امریکہ میں 36 فیصد ہوگئی ہے جبکہ برطانیہ میں 23 فیصد، جرمنی میں 15 فیصد اور جاپان میں 9 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس سروے کے مطابق چین میں بھی ایسی شرح بڑھ کر 65 فیصد ہو گئی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اب ہم ایک دوسرے کو مسترد کرنے کے جذبے سے بالا تر ہو کر علم اور عقائد دونوں سے انسان رُخی استفادہ کریں۔ زندگی کو آج موت سے زیادہ جینے سے کیوں ڈر لگتا ہے! یہ سمجھنے کیلئے کسی علم یا عقیدے سے زیادہ اُس ’دل‘ کی ضرورت ہے جو انسانی ہمدردی کے جذبے کی واحد قیام گاہ ہے۔عقل کو اس گھر کی ’نگرانی‘ پر مامور کرنے کے بجائے ’خدمت‘ کی ذمہ داری سونپی جائے، خواہ وہ خدمت دست و بازو کی محنت طلب کرتی ہو یا حکمت۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS