عبدالسلام عاصم
کہتے ہیں حد سے سوا قربت جہاں گھٹن پیدا کرنے لگتی ہے، وہیں حد سے سوا دوری پریشان حال لوگوں کو راحت کی جستجو میں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔ کچھ ایسا ہی بدلا ہوا نظارہ ہندوستانی قوم نے 74 ویں یوم جمہوریہ سے ایک روز قبل اُس وقت دیکھا جب شاہ رُخ خان کی فلم ’پٹھان‘ ملک بھر میں پردہ ہائے سیمیں کی زینت بنی۔ اکثریت اور اقلیت کی منفی گردان سے پریشان ماحول میں اس تبدیلی کے رُخ پر نئی نسل قیادت کرتی نظر آئی اور اس کے ارکان ہندو یا مسلمان نہیں، اپنی تمام تر ’انفرادی شناخت‘ کے ساتھ ’اجتماعی طور پر‘ صرف انسان نظر آئے۔
فلم کی ریلیز سے چند روز قبل عزت مآب وزیراعظم نریندر مودی نے داخلی تقسیم کا کھیل کھیلنے والوں کو انتباہ کیا تھا کہ وہ اس سے باز آ جائیں۔ اس وارننگ کا میڈیا نے مثبت اور منفی دونوں طرح کا مفہوم نکالا۔ مثبت مفہوم یہ تھا کہ بدلے ہوئے سیاسی منظر نامے میں کوئی اپنی تسکین سے کسی کی بے چینی نہ بڑھائے اور منفی تبصرہ یہ کیا گیا کہ ’خود کردہ را علاجے نیست‘۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت سے ناخوش حلقوں میں منفی تبصرے ہی زیادہ سننے کو ملے۔ اسی کو کہتے ہیں حکمت کی جگہ بس عمل اور رد عمل تک محدود ہو کر رہ جانا۔ فروعی فکری اختلاف کو اہمیت دینے والے لوگ/ فرقے اکثر اپنی اسی محدودیت کی وجہ سے آزمائشوں کا سامنا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں اکثریت اور اقلیت دونوں کو اس رُخ پر آزمائش کا سامنا ہے۔ اس آزمائش سے دونوں اس وقت تک باہر نہیں نکل پائیں گے جب تک انہیں ذات اور کائنات کے فرق کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی توفیق نہیں ملتی۔
افتراق پیدا کرنے کی کوششوں کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی اجتماعی کوشش کی کامیابی کے تذکرے میں کوئی ایک فرد یا حلقہ بس خود کو نمایاں کرنے لگتا ہے۔ شروع میں تو ایسے ذاکروں کو سننے والے جھومتے ہیں پھر انہی میں سے ایک حلقے کو ایسے مقرروں کی خوشبودار باتوں میں سے بدبو آنے لگتی ہے۔ وطن عزیز کے ماضی اور حال کو ملک کے د ونوں نمایاں فرقوں کے بعض نمائندوں کو جانے انجانے میں اسی غلطی کے ارتکاب نے متاثر کیا ہے۔ ملک کی آزادی اور قوم کی تعمیر کی مشترکہ کوششوں میں خود کو ممتاز و ممیز دکھانے کی ایک حلقے کی یکطرفہ سوچ کے پہلے ایپی سوڈ کا نقصان ابھی جاری تھا کہ حالات کے تازہ موڑ پر دوسرا حلقہ بھی بظاہر بھیڑ میں خود کو نمایاں کرنے کی ایسی ہی کوشش میں سرگرداں نظر آ رہا ہے۔
فکری تصادم کے ایسے ماحول میں اختلاف سے گزرنے والے فرقوں کی سوچ کُند ہوجاتی ہے۔ وہ ایک دوسرے کو بچانے کی حکمت اختیار کرنے کے بجائے اکثرآپس میں ہی منفی رُخ پر باہمی اشتراک کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح مرحلہ وار بات بگڑتی چلی جاتی ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ محبت اور نفرت دونوں اپنا اثر قائم کرنے کیلئے اشتراک کی محتاج ہیں۔ یکطرفہ عشق اور بے وفائی کے تذکرے صرف افسانوں میں ملتے ہیں۔ عملی زندگی میں ہر وہ کام مل کر ہی کیا جاتا ہے جس کے قوموں پراچھے یا برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس لحاظ سے فلم ’پٹھان‘ بظاہر اپنے آپ میں ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔ اس کا ادراک نئی نسل کے ساتھ ملک کے تمام باشندوں کو کرنا چاہیے۔ ہندوستانی تہذیب کسی ذاتی نظریے کی برانڈنگ کی محتاج نہیں۔ ہماری تہذیب پورے بر صغیر کی تہذیب ہے جس کا دوٹوک ثبوت یہ ہے کہ ہم سے الگ ہونے والے آج تک اپنی کوئی الگ شناخت قائم نہیں کرسکے۔ وہ اپنی سماجی زندگی میں جب کبھی حقیقی خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو ہر لحاظ سے ہندوستانی نظر آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مرلی کی تانوں سے اذانوں تک عام ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کی بقا کے ضامن ہیں۔ ہمارے درمیاں نفرت پیدا کرنے والے ہمارے ہی خیموں میں موجود وہ لوگ ہیں جو بھیڑ میں خود کو نمایاں دیکھنے کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ ایسے بیمار لوگ کم و بیش ہر قوم میں پائے جاتے ہیں۔ ان گمراہ لوگوں کو ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کی شناخت دینا اُن چاروں منزل رُخی راستوں کی توہین ہے جن پر بس مٹھی بھر لوگ کثرت میں وحدت کا بیڑہ غرق دیکھنا چاہتے ہیں۔
اتنا تو صاف نظر آ رہا ہے کہ فلم پٹھان کی مخالفت اس کی تشہیر کا ذریعہ بن گئی، لیکن سنیما گھروں میں داخل ہونے والوں کی بے قابو بھیڑ اور فلم دیکھ کر نکلنے والوں کے ردعمل میں جوش و جذبے کا جو میلان نظرا ٓیا ہے، وہ اندیشوں کی تاریکی میں امکانات کی روشنی کی واضح کرن ہے۔ فلم دیکھ کر نکلنے والوں کا بہ کثرت یہ کہنا ہے کہ یار یہ تو حب الوطنی پر بنی نئے اسٹائل کی فلم ہے جس میں نہ کوئی یکطرفہ جھلک ہے نہ پٹی پٹائی روایت دہرائی گئی ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ نئی نسل کو بے لاگ طور پر بتا یا جائے کہ تقسیم ہند کے بعد ماضی میں بھی بالی ووڈ نے فاصلوں کے شکار دونوں فرقوں کو انتہائی کامیابی سے سنبھالا تھا۔ راج کپور اور دلیپ کمار سے راجیش کھنہ اور امیتابھ بچن کے عہد تک مرحلہ وار لوگوں میں ماضی کی تلخیاں بھول کر جینے کی عادت کم از کم شہروں میں ہر جگہ عام ہوگئی تھی۔ گزرتے برسوں اور دہائیوں کے ساتھ بالی ووڈ پر راج کرنے والوں کو ملک کے تمام ثقافتی حلقوں تک رسائی کیلئے مغل اعظم، میرے محبوب، محبوب کی مہندی اور قلی جیسی فلموں کا سہارا لینے کی ضرورت باقی نہیں رہ گئی تھی۔ البتہ امر اکبر انتھونی کے بعد تو کسی محدود حلقے کیلئے الگ سے ہندوستانی فلمیں بنانے کی شاید حاجت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ ایسا بھی نہیں کہ فلموں میں مذہبی رواداری کے کردار ہی ختم کر دیے گئے اور سب کے سب ’پی کے‘ اور ’او مائی گاڈ‘ جیسی فلمیں بنانے لگے ہوں۔ مثبت اور منفی کرداروں کیلئے کوئی ایسا انتخاب ہرگز نہیں کیا جاتا تھا جو کسی ایک فرقے پر گراں گزرے۔ البتہ مخصوص زبان اور خطے کی نمائندگی کرنے والوں پر مزاحیہ سین فلمانے پر اعتراض ضرور کیا گیا تھا مثلاً پارسیوں اور دوسرے غیر ہندی علاقوں کے کرداروں کا انتخاب۔ یہ سلسلہ بہر حال کسی بدمزگی کے بغیر ختم ہو گیا۔
ٹیلی ویژن سیریل کا بہر حال جانے انجانے میں ایک ایسا رول ضرور سامنے آیا جس نے بر صغیر کو ایک بار پھر مبالغہ آمیز عظمتِ رفتہ کی بحالی کے عارضے میں مبتلا کر دیا۔ کبھی کبھی کچھ خطرناک چیزیں عام راستوں سے بھی در آتی ہیں۔ ہندوستان اور پاکستان میں بعض سیریلوں کی وجہ سے انفرادی جوش و جذبے کے سفر میں جس نقصان کا دائرہ وسیع ہوا ہے، اُس کا بظاہر نہ تو کسی نے ارادہ کیا تھا نہ ہی اندازہ۔ اس بابت بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ حال کی تفہیم کی بنیاد پر مستقبل بینی نہ کرنے سے کچھ اسی طرح کا خسارہ ہوتا ہے۔
تازہ منظر نامے میں فلم پٹھان نے تفریح کی دنیا میں غیر صحتمند خلل سے نئی نسل کو نجات دلانے کی بظاہر زبردست کوشش کی ہے۔ دیکھنا ہے کہ ہندوستان میں جو اس وقت جی 20- کا سربراہ ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ذمہ داران کو اس احسا س کے رُخ پر کتنی تحریک ملتی ہے کہ رنگ اور نسل، ذات اور مذاہب کے حوالے سے یہ ملک ایسے کسی خسارے کا متحمل نہیں جس نے ہمارے آس پاس ہی کئی ملکوں کا حال تباہ کر رکھا ہے۔ دنیا کی چند اہم اقتصادی طاقتوں میں سے ایک ہندوستان کو اپنے ملک کی ہر وراثت کی حفاطت کرنی ہے اور اس سے معیشت کے فروغ کے رُخ پر استفادہ کرنا ہے۔ موجودہ حکومت نے بعض ایسی فراموش وادیوں کو عالمی سیاحوں کی نظروں کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا ہے جن پر ماضی قریب میں خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی تھی۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ آرٹ اور کلچر بشمول فلموں کی دنیا اب اور ماضی کے کرداروں پر انحصار کرکے ارتقا کا سفر طے نہ کرے۔ اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے لیس ہمارے نوجوان ہی اب ہمارے رول ماڈل ہیں۔ ہمیں اُن کی حوصلہ افزائی کو اپنا مشن بناکر اپنی بچی ہوئی زندگی کو مزید رائیگاں جانے سے بچانا چاہیے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]