عبدالسلام عاصم
وزیراعظم شیخ حسینہ کی حکومت نے بنگلہ دیش کی معیشت کو جس طرح آگے بڑھایا ہے اور ملک میں غریبوں کی تعداد کم کی ہے، اس نے نہ صرف ترقی یافتہ ملکوں کو چونکایا ہے بلکہ ماسوا پاکستان کئی ترقی پذیر اور پسماندہ ملکوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ ہندوستان بنگلہ دیش کے اس کامیاب سفر کا مداح ہے۔ ریکارڈ کے مطابق2006 کے بعد کے سفر میں بنگلہ دیش کی معیشت 2014 میں ہی دوگنی ہو گئی تھی۔ تمام اقتصادی، سیاسی اور ماحولیاتی آزمائشوں کے باوجود بنگلہ دیش ادھر ایک دہائی سے زائد عرصے سے تقریباً 6 فیصد کی سالانہ ترقی کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔
اس تبدیلی کا سہرا محترمہ حسینہ کے سر بندھتا ہے جن کے والد شیخ مجیب الرحمن کی قیادت میں دو قومی نظریہ کا مدفن اور بہتر ہمسائیگی کا درپن بن کر ابھرنے والے بنگلہ دیش نے ہندوستان کے ساتھ قابلِ تقلید ہمسائیگی کی راہ میں دوسروں کی طرف سے کھڑی کی جانے والی ہر رکاوٹ کو پار کیا۔ ابھی دو سال قبل بنگلہ دیش کے قیام کا جشن زرّیں دونوں ملکوں میں نہایت تزک و احتشام سے منایا گیا تھا۔ فرانسیسی فلسفی اگست کومٹے نے ایک بار کہا تھا کہ کسی بھی ملک کی آبادی کا مخلوط تناسب ہی اس کی تقدیر ہے۔ یہ مشاہدہ ہندوستان اوربنگلہ دیش دونوں کے لیے موزوں نظر آتا ہے۔ اگر پاکستان بھی ہمارے ساتھ بہتر ہمسائیگی پر یقین رکھتا تو وطنِ عزیز میں ان دنوں بعض حلقوں میں جو باہمی منافرت کا کاروبار چل رہا ہے وہ بھی کسی شمشان میں جل کر بھسم ہو گیا ہوتا۔
بنگلہ دیش کی آبادی 2001 میں 12کروڑ 20 لاکھ تھی جو 2022 میں بڑھ کر17کروڑ تک پہنچ گئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ اضافہ پذیر آبادی اپنے ساتھ آنے والے برسوں کے لیے مزید آبادیاتی منافع کا امکان ساتھ لاتی نظر آ رہی ہے۔ سر دست بنگلہ دیش کی آبادی کا دو تہائی حصہ 35 سال سے کم عمر کا ہے اور تقریباً 80 فیصد بنگلہ دیشی 40 سال سے کم عمر کے ہیں۔ آبادی کا یہ تخمینہ عارضی ہے لیکن اندازہ ہے کہ 2050تک بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً 24 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
کسی کی خوشی، کسی کے غم اور کسی کی عملی ہمسائیگی سے عبارت برصغیر کے تاریخی واقعے کے دستاویزات اتنے پرانے نہیں کہ ہر کوئی اسے اپنے طریقے سے لکھنے پڑھنے بیٹھ جائے، جیسا کہ تاریخ کے پرانے واقعات کے ساتھ بعض نظریات پسند حلقے کرتے آئے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آزادی کی کہانی کے بس دو رخ ہیں جوقطعی واضح ہیں۔ ان میں سے ایک رُخ کا تعلق 1947 میں فرقہ وارانہ منافرت کی بیماری کے نفسیاتی علاج پر عملِ جراحی کو ترجیح دینے سے ہے، جس میں دونوں فرقوں کے مٹھی بھر لال بجھکڑوں کی غیر دوراندیشانہ رائے کو مانتے ہوئے ہندوستان کو تقسیم کر دیا گیاتھا۔ دوسرے رُخ پر بنگالیوں کی لسانی اور ثقافتی وابستگی کو ماننے سے پاکستان کے ظالمانہ انکارکی رعونت کا1971 میں خاتمہ ہوا۔
ہند-بنگلہ دیش تعلقات پر اِس خطے کے تمام اراکین بشمول پاکستان اور چین کو سنجیدگی سے مستقبل رخی غور کرنا چاہیے۔ متعلقہ ملکوں کے عام انسانوں کی زندگی کے تمام تر بہتر امکانات اسی غور کے متقاضی ہیں۔ ذہانت، مصنوعی ذہانت، تجارت، ای-تجارت اور گلوبلائز سیاست اور معاشرت اگر آج بھی بری، بحری اور فضائی سرحدوں کی قید میں ہے تو ہمیں انتہائی افسوس کے ساتھ یہ مان لینا چاہیے کہ ہم بھی زیرِترتیب تاریخ کی ویسی ہی ایک المیہ داستان بننے جارہے ہیں جیسی داستانیں ماضی میں تیر، توپ اور تلواروں سے مرتب کی جاتی رہیں۔
موجودہ عہد علم و عمل میں حیات بخش ہم آہنگی کا عہد ہے جس میں ہر ایکسپوزر نگاہوں کے سامنے ہے۔ ہم جو کچھ پڑھتے ہیں، اس کی بروقت ویزوئل تصدیق ہوجاتی ہے۔ ایسے خوش آئند ماحول میں بھی اگر ہم سائنس اور اطلاعاتی ٹیکنالوجی کی ترقی سے منفی استفادہ اور ابہام سے بھری عکس بندی کا کام لے رہے ہیں تو اصل خرابی ہمارے اُس ذہن کی ہے جس کی بد قسمتی سے آج بھی کم و بیش نظریاتی آبیاری کا سلسلہ جاری ہے۔
ہند-بنگلہ دیش دوستی اور تعلقات میں خوش قسمتی سے دونوں طرف ایسے حلقے زیادہ فعال ہیں جو کسی بھی منفی واقعے کے اثرات کو زائل کرنے میں فوراً سرگرم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے سرحدی نظم میں ایسا خلل کبھی نہیں پڑا جو انہیں جنگی تباہی کی دہلیز تک لے جائے۔ اس لحاظ سے ہند-بنگلہ دیش انکلیو ایڈجسٹمنٹ پاکستان اور چین دونوں کیلئے سرحدی نزاع ختم کرنے کی عملی تحریک اور نظیر ہے۔ 2015 کے اِس زمینی سرحدی معاہدے نے ہندوستان کی طرف سے بنگلہ دیش کو 111 انکلیو (17,160.63 ایکڑ) کے تبادلے کو آگے بڑھانے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا تھا اور باہمی اتفاق رائے سے بنگلہ دیش نے 51 انکلیو (7,110.02 ایکڑ) ہندوستان کو منتقل کیا تھا۔
باوجودیکہ ہند-بنگلہ دیش تعلقات میں ایک سے زیادہ مسائل اب بھی حل طلب چلے آرہے ہیں۔ ان کی شدت کم ضرور ہوئی ہے لیکن مذاہب سے روحانی کم اور جذباتی وابستگی زیادہ ہونے کی وجہ سے اب بھی اکا دکا واقعہ سامنے آجاتا ہے۔ جہاں تک دونوں ملکوں میں حکومتوں کے بدلنے کا تعلق ہے تو دونوں ممالک اپنے اپنے طور پر اس تجربے سے گزرتے آئے ہیں۔ ہندوستان میں جہاں سیاسی حوالوں سے صرف جمہوری تجربے ہوتے رہے، وہیں بنگلہ دیش میں مارشل لا تک لگایا گیا،اس طرح وہاں بھی پوری قوم نے فوجی حکومت کا تجربہ کیا۔ جہاں تک بچے کھچے سرحدی نزاعی معاملات کا تعلق ہے تو یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ تنازعات سے زیادہ غلط فہمیاں ہیں۔ ایسے میں جب چند سال قبل ہندوستانی جمہوریت کی سب سے بڑی مجلس(پارلیمنٹ) میں بنگلہ دیش کے ساتھ بری سرحدی معاہدے کومتفقہ طور پر منظوری ملی تو سننے والوں میں جو جتنا حیران تھا،اُتنا ہی وہ خوش ہوا اور جو جتنا خوش تھا، وہ اُتنا ہی مطمئن نظر آیا۔ کل یقینا یہی راستہ تیستا ندی اور دریائے فینی میں ساجھے داری کی منزل تک ہموار ہوگا۔
پاکستان اور چین دونوں کو ہند-بنگلہ دیش سرحدی اختلاف و اتفاق کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ پتہ چل سکے کہ آبادی اور مجموعی وسائل کے اعتبار سے ایک انتہائی بڑے اور ایک چھوٹے ملک کے مابین معاملات کس طرح نبھ رہے ہیں۔ دنیا کا ہر کام محدود نفع/نقصان کے حساب سے نہیں چلتا۔ وسیع تر قومی، علاقائی اور عالمی مفادات ہی امن اور بین انحصار ترقی کے ضامن ہیں اور ہندوستان اور بنگلہ دیش ہر لحاظ سے اس کی عملی مثال پیش کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ دونوں کی یہ خوبیاں اتنی منظم اور مربوط ہیں کہ وہ دیگر محاذوں پر کبھی کسی بدنگاہی کا شکار نہیں ہوتے۔ابھی چند سال قبل درگا پوجا کے موقع پر بنگلہ دیش میں کائنات کی تخلیق کے وسیع مقصدِ ایزدی سے اتفاق نہ کرنے والوں نے مندروں، مورتیوں اور اُن سے عقیدت رکھنے والوں کو بہت حد تک ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ اس کا حسبِ اندیشہ ردعمل ہندوستان کی ریاست تریپورہ میں جوابی تشدد کی شکل میں سامنے آیا۔ دونوں ہی واقعات جہاں روایتی تھے، وہیں ان کی روایتی مذمت کی لہر بھی ایکدم سے دوڑ گئی۔ بہ الفاظ دیگر ہماری زیر ترتیب تاریخ میں صرف تاریخ اور جگہوں کے ناموں کے فرق کے ساتھ مزید چند اوراق کا اضافہ ہوگیا۔
وقت کا تقاضہ ہے کہ موجودہ عہد کے اسی موڑ سے راستہ بدلا جائے تاکہ ہمارے بچے تابناک ماضی کی من گھڑت کہانیوں سے نکلتے ہی اب اور سیدھا تاریک مستقبل میں قدم نہ رکھیں۔ بصورت دیگر ہمارا حال جو ہماری بد اعمالی سے عبارت ہے، بدستور خستہ حالی میں ہی گزر جائے گا۔ لازم ہے کہ ہم سبھی اب دوسروں سے زیادہ اپنا محاسبہ کرتے ہوئے منظر نامہ بدلیں تاکہ نئی نسل کل بھی ماضی گرفتہ اور ماضی گزیدہ گروہوں، فرقوں اور حلقوں میں بٹ کر عصری علمی ترقی سے کل ہی کی طرح جہل آمیز منفی استفادہ نہ کرے۔ میڈیا کو اس رخ پر اہم کردار ادا کرنا ہے۔ پہلے جہاں ’’خبروں اور نظروں‘‘کے فرق کو سمجھنے کی ہدایت اور تلقین کی جاتی تھی، اب وہیں ’’خبروں اور افواہوں‘‘ کے فرق کو سمجھنا لازمی ہو گیا ہے۔
بدقسمتی سے ہماری بیشتر مروجہ مذہبی شناختیں افواہوں کی بنیاد پر قائم ہیں۔ نتیجے میں سب ایک دوسرے کے بارے میں کم و بیش افواہ پر مبنی اطلاعات و معلومات رکھتے ہیں۔ ہمسائے ایک دوسرے پر انحصار کم اور شک زیادہ کرتے ہیں۔ ہر سناٹا وہم اور پرشور خوف پیدا کرتا ہے۔ اس سے باہر نکلنے کیلئے سب سے پہلے ہمیں اس ادراک سے کام لینا ہو گا کہ ایک دوسرے پر شک کی بیڑیاں ہم نے از خود اپنے پیروں میں ڈالی ہیں، اُن سے آزادی حاصل کرنا ہوگی۔ اگر ہم ایسا کرنے میں آئندہ دہائیوں میں کامیاب رہے تو عجب نہیں کہ بر صغیر میں ہماری سرحدیں ایک دوسرے کی نگہبان بن جائیں۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]