عبدالماجد نظامی: مہاراشٹر کی سرکار کیا مسلمانوں کو نشانہ بنا رہی ہے؟

0

عبدالماجد نظامی

کسی ٹریجڈی یا انسانیت کو شرمسار کر دینے والے حادثہ کو جب کبھی خاص مذہب، تشخص یا علاقہ سے جوڑ کر دیکھا جائے گا تو اس سے سماج میں انتشار، نفرت، بد امنی پھیلے گی اور شکوک و شبہات پروان چڑھیں گے۔ ملک اور سماج کو متحد کرنے اور جرائم کو ختم کرکے عدل پر مبنی ایک مستحکم سماج قائم کرنے کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوگا۔ لیکن اتنی سیدھی سی بات مہاراشٹر کی موجودہ سرکار کو سمجھ میں نہیں آتی ہے یا یہ کہا جائے کہ ہندوتو کی مسلم مخالف ذہنیت کو جس موقع کا انتظار تھا، وہ اسے شردھا والکر قتل معاملہ سے ہاتھ آ گیا۔ شردھا والکر کا قتل مبینہ طور پر آفتاب پونا والا نے کیا تھا جس کے ساتھ شردھا والکر نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی کالم میں اس واقعہ کی وحشت ناکی پر تبصرہ کیا جا چکا ہے اور اس کی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں کہ شردھا والکر کے بہیمانہ قتل کا تعلق کسی عقیدہ یا مذہب سے نہیں ہے بلکہ وہ انسان کی داخلی حیوانیت اور مذہب سے دوری کا نتیجہ ہے۔ البتہ ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بجائے ہر حال میں اقتدار حاصل کرنے اور ہر حربہ استعمال کرکے اپنی سیاسی پوزیشن کو برقرار رکھنے میں یقین رکھنے والے ہندوتو کے پالیسی سازوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شردھا والکر ٹریجڈی کو اپنے بڑے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے۔ باوجودیکہ بے شمار خبریں میڈیا میں گزشتہ چند ہفتوں میں ہی سامنے آئی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ بہیمانہ طور پر قتل کی جانے والی خواتین کی اکثریت ہندو مردوں کے مظالم کا شکار ہوئی ہے۔ لیکن اس کے لیے ہندو دھرم کو مورد الزام ٹھہرانا اتنا ہی نامناسب ہوگا جتنا کہ کسی مسلمان کے ذریعہ انجام پانے والے جرائم کے لیے اسلامی تعلیمات کو ذمہ دار ماننا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت مذہب کے نام پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور نفرت کے جذبات کو بھڑکانے میں تو بہت جلدباز واقع ہوئی ہے لیکن اسلام، ہندوازم اور دیگر مذاہب کے بارے میں ضروری اور درست معلومات اکٹھا کرنے کے سلسلہ میں کوتاہ رہتی ہے بلکہ مجرمانہ سستی برتتی ہے اور جہل و نادانی کی بنیاد پر پوری زندگی ایک دوسرے سے نفرت کرنے میں ضائع کر دیتی ہے۔ اس معاملہ کی سنگینی تب زیادہ بڑھ جاتی ہے جب کوئی مضبوط سیاسی جماعت ایک خاص طبقہ یا عقیدہ کو اپنے حصولِ اقتدار کی ہوس کا شکار بنانے کا فیصلہ کرلیتی ہے۔ اس کی سنگینی اس بات میں مضمر ہے کہ ایک قومی سطح کی سیاسی پارٹی جو مرکز کے علاوہ مختلف ریاستوں میں بھی بر سر اقتدار ہے، اس کے پاس وسائل یا ایسے افراد کی کمی نہیں ہے جو اس کی رہنمائی کرسکیں کہ جرائم اور ٹریجڈیوں کا تعلق عقیدہ و مذہب سے نہیں ہوتا بلکہ سماج کے اس ڈھانچہ سے ہوتا ہے جس کی تشکیل میں خود سرکار اور غیر سرکاری ادارے اپنا کردار نبھاتے ہیں۔ اگر اس حقیقت کو ملحوظ رکھا جاتا تو مہاراشٹر کی موجودہ سرکار13رکنی کمیٹی اس مقصد سے تشکیل نہیں دیتی کہ پوری ریاست میں جو بھی شادیاں دو الگ الگ عقیدوں سے تعلق رکھنے والے مرد و زن کے درمیان ہوئی ہیں، ان کا پتہ لگایا جائے اور خواتین کو ان کے اہل خانہ کے ساتھ رابطہ میں لایا جائے۔ بظاہر یہ ایک مستحسن اور قابل تعریف قدم معلوم ہورہا ہے لیکن دراصل اس کے پیچھے ہندوتو کی وہی پالیسی کام کر رہی ہے جس کی جڑیں مسلم عناد میں گڑی ہوئی ہیں۔ مہاراشٹر کی حکومت نے ابتدا میں اس کمیٹی کے دائرۂ اختیار میں اس پہلو کو بھی شامل کیا تھا کہ دو الگ الگ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی شادیوں کا بھی پتہ لگائے تاکہ خواتین کے ساتھ ہو رہے مظالم کو روکا جا سکے۔ لیکن بعد میں اس کو کمیٹی کے دائرہ سے باہر کر دیا گیا اور صرف الگ الگ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی شادیوں کو ٹریک کرنے کا کام ہی اس کے سپرد کیا گیا۔ اس کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے بی جے پی کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ جلد ہی منعقد ہونے والے مقامی انتخابات میں شردھا والکر کے بہیمانہ قتل معاملہ کا استعمال کرکے بڑی سیاسی جیت حاصل کی جائے۔ اگر یہ نسخہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر اس کے بعد اسمبلی انتخابات اور 2024کے عام انتخابات میں بھی اس مسئلہ کو مزید ہوا دے کر پیش کیا جائے گا اور ووٹروں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرکے کامیابی حاصل کرنے کے مجرب نسخہ کو مزید موثر بنایا جائے گا۔ خاص طور پر مذہب کے ساتھ اگر عورت کی عزت و ناموس کا چھڑکاؤ بھی کردیا جائے تو پورا معاملہ کس قدر جذباتی اور نفرت انگیز ہوجائے گا، اس کا اندازہ ہندوتو کے پالیسی سازوں کو خوب ہے اور اسی لیے شردھا والکر قتل کی ٹریجڈی کو استعمال کرنے سے وہ باز نہیں آ رہے ہیں۔ اس 13 رکنی کمیٹی کی سر براہی جس وزیر کو دی گئی ہے وہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ان کا نام منگل پربھات لودھا ہے۔ یہ ریاست مہاراشٹر میں وزارت برائے ترقی خواتین و اطفال کے وزیر ہیں اور اس سے قبل ممبئی بی جے پی کی سر براہی کرچکے ہیں۔ دراصل مہاراشٹر سرکار کا یہ اقدام ہندوتو کی ملک گیر سطح پر چل رہی اقلیت مخالف پالیسیوں کا حصہ ہے۔ ان پالیسیوں میں مسلم تشخص کو ختم کرکے ایک خاص قسم کا ملک تیار کرنے کا جو پلان ہے، اس کے لیے ’لو جہاد‘کا پروپیگنڈہ خوب کیا گیا ہے اور باوجودیکہ پولیس انتظامیہ اب تک اپنی تحقیقات میں ایسی کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنے میں ناکام رہی ہے جس سے ثابت ہوتا ہو کہ مسلمان نوجوان ہندو خواتین کو عشق اور شادی کے جھانسہ میں ڈال کر انہیں پھانس لیتے ہوں اور پھر ان کا مذہب تبدیل کروا دیتے ہوں۔ لیکن اس پروپیگنڈہ کا اثر ایسا ہوا ہے کہ اب تک ہندوستان کی9ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قانون نافذ ہو چکا ہے جن میں اترپردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ، ہماچل پردیش، گجرات، کرناٹک اور اڈیشہ شامل ہیں۔ ان میں صرف اڈیشہ اور چھتیس گڑھ ایسی ریاستیں ہیں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار نہیں ہے اور ریاستِ ہماچل پردیش ابھی ابھی ان کی گرفت سے نکل گئی ہے۔ ان تمام ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قانون نافذ کیے جا چکے ہیں اور اب مہاراشٹر کو بھی اسی فہرست میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے لیے اس13 رکنی کمیٹی کو نقطۂ آغاز قرار دیا جا سکتا ہے۔ اب یہ تو عدالت میں طے ہو پائے گا کہ اس کمیٹی کی رپورٹ کے نتیجہ میں بننے والا قانون آرٹیکل21کی دستوری خصوصیات کو پیش نظر رکھنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں لیکن فوری طور پر مہاراشٹر کی دونوں اہم سیاسی پارٹیاں یعنی کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی نے اس کمیٹی کی تشکیل کے پیچھے کام کر رہی ذہنیت کو اجاگر کرتے ہوئے اس پر سخت تنقید کی ہے۔ حکومت مہاراشٹر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ وہی ریاست ہے جس کی روایت یہ رہی ہے کہ اس نے ترقی پسند تہذیب کو بڑھاوا دیا ہے اور1980کے بعد سے اب تک دو الگ مذاہب اور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے جوڑوں کی شادیوں کو نہ صرف سراہتی رہی ہے بلکہ اس کے لیے مالی تعاون بھی فراہم کرتی رہی ہے۔ ایسی وسیع الفکر ریاست پر یہ دھبہ نہ لگے تو اچھا ہوگا کہ کسی خاص مذہب کے لوگوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ملک کی کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی تہذیب و روایت کے لیے مفید نہیں ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS