عبدالماجد نظامی: مہلک محبت اور سماج پر اس کے مضر اثرات

0

عبدالماجد نظامی

ہندوستانی معاشرہ عام طور سے خواتین کے تئیں بڑا ظالم اور بے رحم ثابت ہوا ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ صدیوں سے یہی سلسلہ جاری ہے۔ خواتین کو حقوق دلانے اور انہیں با وقار زندگی عطا کرنے کی کوششوں میں گرچہ ہر روز اضافہ ہوتا رہتا ہے لیکن عمومی طور پر ان کے مسائل میں کمی نہیں ہو رہی ہے۔ خواتین کی حالت زار کی نمائندگی کرنے کے لیے ایک جملہ جو زبان زدِ عوام بھی ہوچکا ہے، اس قابل رحم حالت کا صحیح عکس پیش کرتا ہے۔ وہ جملہ ایک خاتون کے منہ سے ہی ادا کروایا گیا ہے اور بالی ووڈ کی فلموں نے اس کو گھر گھر پہنچانے میں بڑا رول ادا کیا ہے۔ وہ جملہ جس میں کہا گیا ہے کہ ’عورتوں کو پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے‘ دراصل خواتین کے تئیں ہمارے معاشرہ کے قابل افسوس نقطۂ نظر کی مناسب عکاسی کرتا ہے۔ اس مظلوم صنف کے خلاف ظلم کا آغاز رحم مادر میں ہی ہوجاتا ہے جس کا سلسلہ زندگی کے آخری مرحلہ تک چلتا رہتا ہے۔ کبھی اس کو شکمِ مادر میں ہی ختم کر دیا جاتا ہے تو کبھی اس کی پیدائش کے بعد سخت ناگواری کا اظہار کیا جاتا ہے اور ہرممکن کوشش کی جاتی ہے کہ اسے احساس دلایا جائے کہ وہ اس گھر میں مطلوب نہیں ہے اور محض ایک بوجھ کے طور پر اس کو برداشت کیا جا رہا ہے۔ بسا اوقات ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ ننھی سی بچی کی پیدائش کی سزا اس کی ماں کو بھی جھیلنی پڑتی ہے۔ گویا گھر میں بیٹی کی پیدائش کوئی لعنت ہو جس کے لیے اس ممتا کو بھی معتوب کیا جائے جو نو مہینے تک اپنا سُکھ دُکھ بھول کر اور اپنے خونِ جگر سے پال کر ایک نئی زندگی کو وجود بخشنے کا ذریعہ بنی ہو۔ یہ ہندوستانی سماج کی بد قسمتی ہے کہ اس دور میں بھی جس کو علم اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور عروج کا دور کہا جاتا ہے، خواتین کو ایسے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ کبھی ذات پات کے نام پر ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے بلکہ ان کی عصمت دری کرکے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے تو کبھی انہیں تعلیم و ترقی کے مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے۔ سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جب وہ شادی کے جوڑے میں ملبوس ہوکر اپنے سسرال پہنچتی ہے تاکہ اپنے شریک حیات کے ساتھ ایک ایسی نئی زندگی کا آغاز کرے جہاں ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے تو وہاں بھی کئی خواتین کو زد و کوب کیا جاتا ہے اور انہیں اس قدر مسائل کے بوجھ تلے دبا جاتا ہے کہ وہ یا تو خود اپنی زندگی سے عاجز آکر جینا نہیں چاہتی ہیں یا پھر کئی بار سسرال کے لوگ ہی اپنی بے رحمی اور ظلم کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے ان خواتین کی جان لے لیتے ہیں جن کے ساتھ مل کر زندگی کے سفر پر آگے کی منزل طے کرنے کا عزم لے کر وہ آئی ہوتی ہیں۔ عموماً یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جہیز کی لعنت کا شکار ایسی عورتیں ہوجاتی ہیں اور انہیں سسرال میں ذہنی و جسمانی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اذیت ناکی کے اس معاملہ میں جب شوہر اور رفیق حیات بھی شامل ہوجائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خاتون پر کیا گزرتی ہوگی۔ وہ جس کے سہارے اپنا مائیکہ چھوڑ کر آ گئی تھی اور جس پر اپنی محبت و الفت کے پھول برسائے تھے وہی شخص جب درپئے آزار ہوجائے تو نفسیات کی دنیا میں ایک زلزلہ سا پیدا ہوجاتا ہوگا۔ وہ جس کرب اور ذہنی کوفت سے گزرتی ہوگی، اس کا اندازہ صرف وہی شخص کر سکتا ہے جس نے کبھی اپنوں کے ہاتھوں المناک مسائل کا سامنا کیا ہو۔ اب تک یہ معاملے شادی بیاہ کے تعلقات تک محدود تھے جہاں کم از کم خواتین کو اپنے میکے والوں کا سہارا رہتا ہے اور جب کبھی ازدواجی زندگی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو دو گھرانوں کے باشعور بزرگوں کی مداخلت سے معاملہ کو حل کر لیا جاتا ہے۔ لیکن جب کبھی آفتاب پوناوالا اور شردھا والکر جیسے تعلقات کی نوعیت سامنے آتی ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایسے تعلقات میں خواتین کی بے بسی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ ہم نے مغربی تہذیب کے زیرِ اثر جو معاشرہ تیار کیا ہے، اس میں دھیرے دھیرے سارے بندھن ٹوٹ رہے ہیں۔ رشتوں میں وہ گرمی اور اپنائیت باقی نہیں رہ گئی ہے جو کبھی ہماری معاشرتی زندگی کا طرۂ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ مغربی جدیدیت نے ہمیں اس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے کہ انسانی قدروں سے بھی ہم عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ جس محبت کے لیے لوگ کبھی اپنی جانیں قربان کر دیا کرتے تھے لیکن اپنے محبوب پر ایک کھرونچ تک نہیں آنے دیا کرتے تھے اب اسی محبت کے نام پر محبوب کو تڑپا تڑپا کر اور پوری وحشت ناکی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ ایسی وحشت ناکیوں کو روکنے کے لیے قانون اپنا کام کرے گا اور مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی لیکن سماج کے طور پر ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اس نہج پر کریں کہ ان میں اپنے والدین کے مشوروں کو قبول کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو سکے۔ ’یہ میری زندگی ہے اور میں اس کے ساتھ جو چاہوں کروں‘ کا فلسفہ نہایت مہلک اور جان لیوا ہے۔ شردھا والکر کے والد نے بھی اپنی بچی کو ایسے رشتہ میں داخل ہونے سے منع کیا تھا لیکن اس نے نہیں مانا اور نتیجہ اتنا بھیانک ہوا۔ کئی بار والدین کی بھی غلطی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے مشورہ نہیں کرتے اور ان پر بس اپنی مرضی تھوپنے کی ضد کرتے ہیں جس کا نہایت افسوسناک نتیجہ سامنے آتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ رشتوں کی اہمیت کو سمجھایا جائے، خاندانی نظام کو ایسا مضبوط کیا جائے جہاں افراد کی زندگیاں خوشگوار بن سکیں۔ گھر کا ماحول ایسا ہو جہاں سماج کے مسائل پر گفتگو ہو اور ان کا انسانی حل پیش کرنے کا راستہ ڈھونڈا جائے۔ تعلیم گاہوں میں اساتذہ و معلّمات کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک ایسا دماغ تیار کریں جس میں دل کے پاکیزہ جذبات کو سمجھنے اور اس کے مطابق ایک ہمدرد معاشرہ قائم کرنے کا عزم پیدا ہو۔ تعلیم کا مقصد صرف اپنی ذات کو بہتر بنانا اور مادی ترقی کی سیڑھیاں طے کرنا نہ ہو بلکہ انسانی زندگی میں محبت و رواداری کے اصولوں کو بروئے کار لانے کا بھی نسخہ عطا کیا جاتا ہو۔ آفتاب پوناوالا نے شردھا والکر کے ساتھ جس وحشت و بربریت کا مظاہرہ کیا ہے اس کا شکار کئی مقامات پر کئی بے قصور بچیاں ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داری معاشرہ کے تمام افراد اور اداروں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ گھر، سماج، اسکول و کالج اور آفس و کارخانہ کے ساتھ ساتھ پولیس و عدلیہ ہر نظام کو اتنا چست درست بنائیں کہ کوئی ہنستی کھیلتی زندگی اس طرح بے رحمی کا شکار نہ ہو جائے۔ آج کی نسل کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ محبت کے کھوکھلے دعوؤں کے نام پر اپنے اہل خانہ کے ساتھ تعلقات کو منقطع کرنے کی غلطی نہ کرے۔ زندگی فلم اور ٹیلی سیریل کی طرح نہیں ہوتی ہے جس کا پلاٹ ایک خاص نہج پر چلتا ہے اور ڈائریکٹر کے مطابق ایک خاص نتیجہ پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ زندگی کو ہمیشہ سنجیدگی سے لینا چاہیے اور تمام رشتوں کے درمیان توازن پیدا کرنے کا سلیقہ آنا چاہیے۔ شردھا والکر کا قتل ہمارے معاشرہ کے ضمیر پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔ اگر ہم کسی کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس کا ہر طرح سے خیال رکھنا اور اس کے نرم و گرم رویہ کو برداشت کرتے ہوئے آپسی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنانے کی فکر کرنا ہی اصل فکری پختگی ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری موجودہ اور آئندہ نسلیں اس بات کا خیال رکھیں گی کہ وہ ایک صحتمند اور ہمدردی پر مبنی معاشرہ کی تشکیل میں اپنا کردار نبھائیں گی اور آفتاب پوناوالا جیسے عناصر کو پروان چڑھانے والی علامتوں سے اپنا کوئی واسطہ نہیں رکھیں گی۔ یہی ملک اور سماج کے لیے مفید ہوگا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS