عبدالماجد نظامی
راجستھان کا چھوٹا سا شہر کوٹہ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاریوں کے لیے بنائے گئے کوچنگ سینٹرس کا ایسا مرکز بن چکا ہے جس کو کسی تعارف کی حاجت نہیں ہے۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں کے اسٹوڈنٹس وہاں جے ای ای اور نیٹ کی تیاریوں کے لیے آتے ہیں اور دو سال تک اس امید میں شب و روز ایک خاص انداز میں تیاری کرتے ہیں کہ شاید ان کے والدین نے سماج میں عزت و رتبہ پانے یا جن کو حاصل ہے ان کو برقرار رکھنے کے لیے جو خواب دیکھا تھا وہ پورا ہوسکے۔ ایک بڑی تعداد تو ایسی ہوتی ہے جو کوچنگ سسٹم سے نامراد ہی لوٹتی ہے اور اسے کوئی نہیں جانتا۔ لیکن جو بچے اور بچیاں مقابلہ جاتی امتحانوں میں اچھی رینک حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ان کی تصویریں جگہ بہ جگہ آویزاں کی جاتی ہیں اور ان کے ذریعہ کوچنگ کی پبلسٹی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں کوچنگ سینٹر کے پاس مزید اسٹوڈنٹس آتے ہیں جس سے کمائی خوب ہوتی ہے۔ یہ سارا معاملہ پیسہ کا ہے۔ جو والدین اپنے بچوں کو ایسے کوچنگ سینٹرس میں بھیجتے ہیں، ان کا مقصد بھی اپنے بچوں کی مادی زندگی کو بہتر بنانا ہی ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ نابرابری اور بے روزگاری کے مسائل سے دوچار ہمارے سماج میں رتبہ حاصل کرنے کے لیے اچھی نوکری بہت ضروری ہے جو اچھی تعلیم سے ہی حاصل ہوسکتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اچھی تعلیم آج کے دور میں بہت مہنگی ہوگئی ہے، اس لیے غریب اور مفلوک الحال طبقہ اس کی سکت ہی نہیں رکھتا۔ جو طبقہ مالی اعتبار سے بہت بہتر ہے، اس کو اس بات میں خاص دلچسپی نہیں ہوتی ہے کہ ان کے بچے کوچنگ کی بھاگ دوڑ میں لگ کر محنت و جفاکشی کے بعد ڈاکٹر یا انجینئر بن جائیں۔ ان کے پاس بہت سے راستے ہوتے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی کے وسائل فراہم کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اصل مسئلہ اس طبقہ کا ہے جو بالکل غریب بھی نہیں ہے اور اتنا صاحب ثروت بھی نہیں کہ اپنے بچوں کو وہ سب کچھ دے سکے جو سماج کا ایک فیصد سے بھی کم طبقہ اپنے بچوں کے لیے کرسکتا ہے۔ اس طبقہ کو ہم نچلی سطح کے مڈل کلاس یا متوسط طبقہ کے طور پر جانتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی تعداد ہمارے سماج میں سب سے زیادہ ہے۔ ان میں سماجی طور پر ترقی کرنے اور رتبہ پانے کا شوق سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ آپ اگر باریکی سے غور کریں گے تو اندازہ ہوگا کہ ڈاکٹر، انجینئر یا سول سرونٹ بننے کا خواب عام طور پر ان ریاستوں کے بچوں کا زیادہ ہوتا ہے جو غریب ریاستوں یا چھوٹے شہروں میں پلتے بڑھتے ہیں۔ ان میں سماج کے حاشیہ سے اٹھ کر اس کے مرکز میں پہنچنے کی لگن بہت پائی جاتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کو ہمیشہ سماج کے چشمہ سے دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ یہی وہ طرز فکر ہے جو ان کو پٹنہ، دہلی، بنگلورو، چنئی اور کوٹہ کی تنگ گلیوں میں چکر لگانے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ شوق اور لگن انسانی زندگی کے لیے بہت ضروری بھی ہے۔ لیکن والدین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کے علاوہ بھی بیشمار اچھے مواقع دنیا میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں معلومات حاصل کرکے اپنے بچوں کو ان کی جانب مائل کروانے کی سعی کریں۔ ہر بچہ کو ڈاکٹر اور انجینئر بنانا بھی ضروری نہیں ہے۔ انہیں سوشل سائنس کے موضوعات میں ڈالا جا سکتا ہے جہاں بڑی وسعت اور شاندار مواقع موجود ہیں۔ بہار جیسی چھوٹی ریاستوں میں اسکول کی سطح پر سوشل سائنس کے موضوعات خال خال ہی پڑھائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی ان موضوعات سے متعلق معلومات مہیا نہیں ہوتی ہیں۔ یہ ذمہ داری اسکول کے ذمہ داروں کی ہے کہ ایسی تمام ریاستوں میں سرکار کی سطح پر یہ اقدام کیا جائے کہ اسکول اپنے بچوں کی کاؤنسلنگ کرے اور انہیں ان کی صلاحیتوں اور رجحان کے مطابق مستقبل کا راستہ منتخب کرنے میں تعاون پیش کرے۔ والدین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسکول کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کے مسائل اور ان کی ترجیحات کو سمجھیں اور اپنے بچوں کو ان ہی موضوعات کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیں جن میں ان کی زیادہ دلچسپی ہے۔ اس کے باوجود بھی اگر کچھ بچے کوچنگ سینٹرس میں پہنچتے ہیں تو کوچنگ چلانے والوں کی اخلاقی ذمہ داری یہ بنتی ہے کہ اسٹوڈنٹس کو داخلہ دینے سے قبل انہیں کم سے کم دو مہینے تک کوچنگ کے ماحول میں رکھیں اور اس کے بعد ان سے پوچھیں کہ کیا وہ ذہنی طور پر اس قسم کے نظام تعلیم و حیات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں؟ اس کے علاوہ تمام بچوں کو کوچنگ سینٹرس میں قبول بھی نہ کریں۔ جو بچے اپنی تعلیمی زندگی میں اب تک اوسط سے کم نمبر حاصل کرتے رہے ہیں، ان کو بھی اس قسم کے مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے کوچنگ میں ڈالنا یا ان کو وہاں قبول کرنا بچوں کے ساتھ زیادتی ہے جس کے لیے والدین اور کوچنگ سسٹم دونوں ہی ذمہ دار ہیں۔ ایسا کرنا بچوں کی نفسیات پر بہت برا اثر ڈالے گا اور اس کے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے جو کئی بار اسٹوڈنٹس کی خود کشی کی شکل میں سامنے آئے بھی ہیں۔ اس وقت بھی یہ تحریر اسی تناظر میں پیش کی جارہی ہے جب دو بچوں نے کوچنگ سسٹم کے دباؤ سے تنگ آ کر خود کشی کر لی۔ والدین کا کہنا ہے کہ انہیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ایسا کچھ چل رہا ہے اور اسی لیے وہ غم کے ساتھ ساتھ حیرت زدہ ہیں کہ ان کے بچوں نے ایسا کیسے کر لیا۔ سچی بات یہ ہے کہ اس کی علامتیں بہت پہلے سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں لیکن ہم غور نہیں کرپاتے۔مثلاً ہم سمجھ نہیں پاتے کہ بچہ انجینئر یا ڈاکٹر بننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ صرف والدین یا سماج یا دوستوں کے دباؤ میں یہ فیصلہ کر لیتا ہے اور پھر اپنی رغبت کے بالکل برعکس سمت میں چلتے چلتے تھک کر ایک دن حیرت زدہ کر دینے والا اقدام کر لیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی علامتیں ہوتی ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ بچوں کو بہتر زندگی کے لیے زیادہ مناسب ڈھنگ سے تیار کیا جائے۔ البتہ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اس قدر بیکار بنا دیا گیا ہے کہ اس سے اچھے نتائج کی امید ہی فضول ہے۔ اصل ذمہ داری سرکار کی ہے کہ وہ اسکول کا نظام درست کرے اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز کو ہر ریاست میں بڑے پیمانہ پر قائم کرے تاکہ چند امتیازی اہمیت کے حامل اداروں کی طرف جانے کا رجحان کم ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے تعلیم کے میدان میں جی ڈی پی کا کم سے کم چھ سے دس فیصد خرچ کیا جائے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو کوچنگ سسٹم کی ضرورتیں کم ہوجائیں گی اور بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔ اس انویسٹمنٹ کا فائدہ بھی ملک کو ہوگا اور ہم ایک پر اعتماد عالمی قوت کے طور پر دنیا کے نقشہ پر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]