عبدالماجد نظامی: آسام میں جاری گرفتاریاں، اقلیتی طبقہ پر نشانہ

0

عبدالماجد نظامی

گزشتہ ہفتہ سے آسام میں آہ و بکا، بے بسی و بدحالی اور مایوسی کا ماحول ہے کیونکہ وہاں کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے اعلان کیا ہے کہ ان کی ریاست میں بچوں کی شادیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اس فرمان کو نافذ کرنے کے لیے جو پالیسی طے کی گئی ہے، اس کے تحت اب تک لگ بھگ ڈھائی ہزار لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آچکی ہیں۔ یہ گرفتاریاں بچوں کی شادیوں پر روک تھام سے متعلق قانون پر ’دی پروہیبیشن آف چائلڈ میرج ایکٹ،(2006)‘ اور بچوں کو جنسی جرائم سے محفوظ رکھنے والے قانون ’پروٹیکشن آف چلڈرین فرام سیکسوئل اوفینسز ایکٹ،(2012)‘ کے سہارے کی جا رہی ہیں۔ جن لوگوں کی گرفتاریاں عمل میں آرہی ہیں، ان میں بچیوں کے والد اور شوہر کے علاوہ، ملّا، پجاری اور قاضی بھی شامل ہیں۔ ان حضرات کی گرفتاری کے بارے میں ریاستی حکومت کی دلیل یہ ہے کہ اٹھارہ برس سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کی شادی میں ان کا کردار ہے اور اسی لیے کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی ایسے شخص کی گرفتاری عمل میں نہ آتی ہو جس پر بچوں اور بچیوں کی شادی کروانے میں ملوث ہونے کا الزام ہو۔ ہیمنت بسوا کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں مسلسل 2026 تک جاری رہیں گی یعنی جب تک ریاست آسام میں اگلا الیکشن نہیں ہوجائے گا تب تک اقلیت کو نشانہ پر رکھا جائے گا تاکہ مسلم مخالف جذبات کا فائدہ اٹھاکر پھر سے انتخابات میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ بھلا آج کی ہندوتو زدہ ملکی سیاست میں مسلم عداوت سے زیادہ موثر ہتھیار اور ہو بھی کیا سکتا ہے؟ ان گرفتاریوں کے نتیجہ میں ہر طرف خوف و ہراس کا ماحول قائم ہے۔ لوگ اپنے گاؤں اور بستیوں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو رہے ہیں یا پھر چھپتے چھپاتے پھر رہے ہیں تاکہ گرفتاریوں اور مشکلات سے بچ سکیں۔ معاملہ اگر اسی حد تک رک جاتا تو شاید پھر بھی غنیمت ہوتی لیکن صورت حال اس سے زیادہ بدتر نظر آ رہی ہے۔ خوف کے مارے لوگ اپنی بیویوں کو بے سہارا چھوڑ دے رہے ہیں یا پھر انہیں ان کے میکے رخصت کر دے رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ریاست کی سرکار ان گرفتاریوں سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے؟ ہیمنت بسوا سرما کے مطابق بنیادی طور پر بچوں اور بچیوں کی شادی سے بہت سے نقصانات ہو رہے ہیں، جن میں بطور خاص ولادت کے وقت عورتوں کی اموات اور اٹھارہ سے کم عمر کی بچیوں کا حاملہ ہونا ہے۔ وزیراعلیٰ کا ماننا ہے کہ ان مشکلات کو حل کرنے کا ایک ہی موثر طریقہ ہے کہ جو لوگ اس قسم کی شادیاں کرواتے ہیں یا اس میں اپنا رول ادا کرتے ہیں، ان کی گرفتاریاں عمل میں آئے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آسام سرکار کو تعلیم یافتہ اور با ثروت طبقوں کی بڑے پیمانہ پر خاموش حمایت حاصل ہے۔ یہ وہی طبقے ہیں جو کمزور، ناخواندہ اور سماج کے حاشیہ پر پڑے لوگوں سے دوری تو بنائے رکھتے ہیں لیکن کبھی ان کی حالت بہتر بنانے کے لیے کوئی پیش قدمی نہیں کرتے لیکن جب ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹتے ہیں تو اُلٹا انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا کر اپنا پلہ جھاڑ کر الگ ہو جاتے ہیں۔ اب کمزور اور بے بس طبقہ اپنی قسمت پر آنسو بہانے کے علاوہ کر بھی کیا سکتا ہے؟ اسے تو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ پیچیدہ قوانین کی زد سے کیسے بچنا ہے اور انصاف کے لیے کس دروازہ پر دستک دینی ہے۔ ایسی مایوسی کے عالم میں زندہ رہنا کتنا مشکل کام ہوتا ہے، اس کو سمجھنا بہت آسان ہے۔ لیکن ذرا غور کیجیے کہ جن مسائل کا حوالہ دے کر آسام ریاست کی سرکار گرفتاریاں کررہی ہے، کیا ان کے لیے یہ غریب اور ناخواندہ لوگ ذمہ دار ہیں یا پھر اب تک ریاست کی سرکار نے اپنی ذمہ داریوں سے جو پہلو تہی کی ہے، اس کے نتیجہ میں یہ مسائل جڑ پکڑ چکے ہیں؟ میری ای جون نے ’دی انڈین ایکسپریس‘ میں جو مضمون اس موضوع پر قلمبند کیا ہے، وہ بہت معلومات افزا ہے اور چونکا دینے والی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہیمنت بسوا سرما اور ان کے مشیروں کو گہرائی کے ساتھ اور ٹھنڈے دل سے اس کو پڑھنا چاہیے اور اس پر غور بھی کرنا چاہیے تاکہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ نہ ہو۔ میری نے بتایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہار، مغربی بنگال، راجستھان اور آندھرا پردیش کے بعد آسام میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں اور بچیوں کی شادیاں سب سے زیادہ ہوتی ہیں۔ لیکن نیشنل ہیلتھ سروے کے مطابق ایسی شادیوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔ ڈاٹا کے مطابق2005-06میں ایسی شادیوں کی شرح38.6فیصد تھی جو 2015-16 میں گھٹ کر33.7فیصد ہوگئی اور 2019-20 کے ڈاٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ فیصد محض 31.8رہ گیا ہے۔ یہی بات حمل سے متعلق تفصیلات پر بھی صادق آتی ہے کیونکہ وہاں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ 2015-16 میں19سال سے کم عمر میں حاملہ ہونے والی بچیوں کا فیصد16.4تھا جو 2019-20 میں گھٹ کر11.6 فیصد رہ گیا ہے۔ گویا کہ لوگوں میں جس قدر معلومات کا اضافہ ہوتا جاتا ہے، اسی قدر ان کا شعور بڑھ رہا ہے اور وہ خود ہی ایسی عادات سے باز آرہے ہیں۔ ایسے میں گرفتاریوں کے اس طوفان کا کیا مطلب رہ جاتا ہے؟ ویسے بھی آسام کوئی واحد ریاست نہیں ہے جہاں ایسی شادیاں ہوتی ہیں۔ اگر آپ ملکی سطح پر ہونے والی ایسی شادیوں کی شرح نکالیں تو اندازہ ہوگا کہ آسام میں صرف تین فیصد شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں بچیوں کی عمر18سال سے کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس گجرات جیسی ریاست جس کو ترقیاتی ماڈل بناکر بی جے پی نے ملک کے سامنے پیش کیا تھا، وہاں ایسی شادیوں کی شرح4.4فیصد ہے۔ اب سوائے اس کے اور کوئی دوسری وجہ نظر نہیں آتی کہ صرف مذہب کو دھیان میں رکھ کر ان گرفتایوں کا عمل شروع کیا گیا ہے کیونکہ آسام میں مسلمان ہی ہیں جن کے یہاں ایسی شادیوں کی شرح ہندوؤں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ آسام کے ہندوؤں کے درمیان اٹھارہ سے کم عمر کی بچیوں کی شادی23.5، عیسائیوں کے درمیان 23.8 فیصد جبکہ مسلمانوں کے درمیان ایسی شادیوں کی شرح 45.8فیصد ہے جو کہ قومی شرح(26.4) سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس کی اصل وجہ غربت ہے کیونکہ اسی آسام میں جہاں صرف 31 فیصد ہندو فقر و غربت میں جی رہے ہیں، وہاں51 فیصد مسلمانوں کی حالت ایسی بنی ہوئی ہے۔ میری جون نے اپنے مضمون میں نیشنل ہیلتھ سروے ڈاٹا کے تجزیہ کی روشنی میں بتایا ہے کہ ولادت کے دوران موت کی اصل وجہ خون کی کمی ہے نا کہ کم عمر کی شادی کیونکہ خون کی کمی کسی بھی عمر میں ہو سکتی ہے اگر مناسب غذا اور صحت عامہ کے وسائل مہیا نہ کروائے جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داریاں سرکار کی ہوتی ہیں کہ غربت کی شرح کو کم کرنے والی پالیسیاں بنائے اور ان کے نفاذ پر توجہ مرکوز کرے۔ اب چونکہ آسام کی سرکار اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہ ثابت ہوئی ہے، اس لیے پاپولزم کا راستہ اختیار کرلیا ہے اور پہلے سے ہی غربت و بدحالی کی شکار اقلیت کے لیے مسائل کا سیلاب پیدا کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں زندگیاں متاثر اور تباہ ہو رہی ہیں۔ ریاست کے وزیراعلیٰ کو سمجھنا چاہیے کہ ان اقدامات سے وقتی طور پر وہ اپنے اقتدار کی مدت کو طویل تو کر سکتے ہیں لیکن جو زندگیاں تباہ ہوں گی، ان کا وبال پوری ریاست کو جھیلنا پڑے گا۔ بہتر ہے کہ ڈنڈے کے استعمال کے بجائے لوگوں کو باشعور بنانے کا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے مسائل بھی حل ہو جائیں گے اور زندگیاں بھی محفوظ رہیں گی۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS