عبدالعزیز
آدمی کا صحت مند رہنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ اپنا بوجھ خود اپنے پیروں پر لاد کر لے جاسکے۔ جب وہ بیمار پڑجاتا ہے تو دوسروں کو سہارا دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح آدمی کا صحت مند رہنا نہ صرف گھر والوں کیلئے پریشانی سے دور رکھنے کیلئے ضروری ہے بلکہ حکومت کو اس کے علاج معالجہ کیلئے قومی آمدنی سے روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ یہی حال اس اَن پڑھ اور ناخواندہ فرد کا ہے جو نہ صرف اپنا نقصان کرلیتا ہے بلکہ خاندان، قوم و ملت کیلئے بھی مسئلہ بن جاتا ہے۔
ملک کی آزادی کے بعد سے ہندستانی مسلمان چار اہم مسائل سے دوچار ہیں۔ معاشی پسماندگی، تعلیمی پسماندگی، مذہبی و ثقافتی شناخت کی حفاظت اور برقراری، چوتھے جمہوری حکومت میں مسلمانوں کی غیر متناسب نمائندگی۔ ان سب مسائل کے حل کا جذبہ عام طور پر پایا جاتا ہے لیکن مسائل اور بھی پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں۔ ان سب میں اہم ترین بنیادی مسئلہ مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ہے کیونکہ وہ شاہ کلید ہے جو ہر مسئلہ کے حل کیلئے کافی ہے، جب تک مسلمانوں میں تعلیم عام نہ ہو، تب تک وہ نہ غربت کے شکنجے سے نکل سکتے ہیں اور نہ ہی وہ اپنی زبان، مذہب اور ثقافت کی حفاظت کرسکتے ہیں اور نہ وہ جمہوری حکومت میں کسی حساب کتاب میں آسکتے ہیں۔ پنڈت نہرو نے اپنی سوانح حیات میں کوئی ساٹھ برس پہلے یہی لکھا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ تعلیم سے دوری ہے۔ سرسید احمد کی علی گڑھ تعلیمی تحریک شروع ہوئے سو برس سے زائد ہوگئے لیکن مسلمانوں میں عام تعلیم کا فیصد 25% سے بڑھ نہ سکا۔ ہم اس حقیقت کو حسابی زبان میں وقت اور فاصلے کے لحاظ سے جانچیں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے سو برس میں تعلیم کے میدان میں صرف 25 کیلو میٹر کا فاصلہ طے کیا ہے۔ باقی فاصلہ طے کرنے کیلئے اس رفتار سے مزید تین سو برس لگیں گے۔ یہ کوئی شاعرانہ مبالغہ آرائی نہیں ہے، یہ بات بھی نہیں ہے کہ اس مسئلہ سے ہمارے سیاسی لیڈر، مذہبی رہنما اور دانش ور لاعلم ہیں۔ وہ اس مسئلہ سے اچھی طرح واقف ہیں لیکن آج تک نہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کیا گیا ہے اور نہ کوئی عملی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس صورت حال کی چند وجوہات سمجھ میں آتی ہیں:
(1 زمانے سے ہمارا معاشرہ ایک شدید غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ پڑھنا لکھنا خود بچے کی انفرادی ذمہ داری ہے، اگر کوئی بچہ پڑھ لکھ لیتا ہے تو خود اس کا ذاتی ذوق و شوق ہے یا پھر والدین کی توجہ کا سبب ہوسکتا ہے۔ یہ انفرادی ذمہ داری اس بچے پر ہے جو خود اپنی ذمہ داری کو سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ ماں باپ اس روایتی غلط فہمی سے نکلتے نہیں اور بچہ کا مستقبل تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔
(2 اس کام کا پھیلاؤ وسیع اور دیرپا ہے۔ تعلیم میں جو وقت، پیسہ اور محنت صرف ہوتی ہے اس کے نتائج بہت دیرسے ظاہر ہوتے ہیں۔ یہ ایک طویل مدتی کام ہے جو دس تا پندرہ برس پر پھیلا ہوتا ہے، ایسا کام مسلمانوں کے جذباتی مزاج سے میل نہیں کھاتا، وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ کام برائے نام ہو اور جلد اپنا نام ہو۔
یہی وجہ ہے کہ عام تعلیم (جنرل ایجوکیشن) کے پروگرام کا تذکرہ آپ نہ تو کسی ایجوکیشن سوسائٹی، مذہبی جماعت یا سیاسی جماعت کے دستور یا منشور میں پائیں گے اور اگر کہیں ہے بھی تو وہ برائے نام ہوگا۔
رسول اکرمؐ کی دُ ور اندیشی: جنگ بدر میں اہل مکہ کے جو لوگ گرفتار ہوکر جنگی قیدیوں کی حیثیت سے سامنے لائے گئے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی کی ایک شرط یہ رکھی تھی کہ جو پڑھا لکھا ہو وہ دس صحابیوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے۔ یہ پڑھانے والے مسلمان نہیں کافر تھے اور پڑھنے والے معمولی مسلمان نہیں صحابہ کرامؓ تھے اور اس کی اہمیت کو جاننے والے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو خود پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے مگر عام بنیادی تعلیم کی اہمیت سے واقف تھے۔ بعد میں ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی وجہ سے مدینہ میں تعلیم عام ہوئی۔ قرآن حکیم کی آیات کو لکھ لینا اور احادیث نبویؐ کے لفظ لفظ کو محفوظ کرلینا اس کے بعد آسان ہوسکا۔
منصوبہ بندی کا عام مفہوم: عام طور پر منصوبہ بندی کے چار مراحل ہوتے ہیں، مقصد کا تعین جس کیلئے نقشے اور پلان بنانا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ضروری وسائل اور سرمایہ مہیا کرنا۔ تیسرے مرحلے میں اصل کام شروع کرنا جس میں سارے عوامل ایک ساتھ حرکت میں آجاتے ہیں۔ اور جب منصوبہ مکمل ہوجائے تو یہ جانچ پڑتال کرنا کہ کیا منصوبہ کے مطابق وقت پر کام ہوا ہے۔ یہ جانچ اس لئے ضروری ہے کہ آئندہ کام کرنے میں آسانیاں پیدا ہوں۔
تعلیمی منصوبہ بندی کی ضرورت: ہمیں جس منصوبہ کا خاکہ پیش کرنا ہے وہ ’’جنرل ایجوکیشن ‘‘ پرائمری تا سیکنڈری ایجوکیشن سے متعلق ہے۔ دستورِ ہند کی دفعہ 45 کے تحت اس کو ’’لازمی جبری تعلیم‘‘ کا نام دیا گیا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ 6 تا 14 سال کی عمر کے لڑکے اور لڑکیوں کو مفت ابتدائی تعلیم دیں تاکہ وہ 14سال کی عمر تک ساتویں جماعت میں کامیابی حاصل کرلیں۔ گو یہ بات دستور ہند میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ذمہ داری بتلائی گئی ہے لیکن اب تک دو تین مرتبہ حکومت کو ناکامی ہوچکی ہے۔ ایک نیا ٹارگیٹ 1995ء میں بھی رکھا گیا لیکن یہ بھی ناکام ہوگیا۔
یہاں ایک بات کہنے کی یہ ہے کہ اگر ہم اپنی تعلیمی منصوبہ بندی کے پروگرام پر عمل کریں تو دستور ہند کی لازمی جبری تعلیم کی ایک اہم دفعہ کا مقصد پورا کرنے میں مسلمان بحیثیت قوم اپنا حصہ ادا کرسکیں گے۔
(1 ملک میں عام تعلیم کا اوسط 37 فیصد ہے اور مسلمانوں کا 15 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ مسلم عورتوں میں تعلیم کا فیصد برائے نام ہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر سو میں 85 آدمی پڑھے لکھے نہیں۔ ان پڑھے لکھے افراد میں غالب اکثریت ایسی ہے جن کی تعلیم چوتھی پانچویں جماعت تک ہوتی ہے یا پھر حرف شناس ہیں یا جو شد بد پڑھنا لکھنا جانتے ہیں۔
(2 اکثر شہروں میں مسلم ایجوکیشن سوسائٹیز کی جانب سے کھولے گئے پیشہ ورانہ کالجوں میں اب تک یہ شکایت عام ہوچکی ہے کہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ نشستوں میں پچاس فیصد بھی مسلم امیدوار دستیاب نہیں ہوتے۔ یہی حال جامعہ ہمدرد کے بعض کورسز کا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک جگہ پر 20 نشستوں میں صرف ایک مسلم امیدوار شریک ہوسکا۔
اس کا سبب عام طور پر یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ مسلم طلبہ میں مسابقت کا جذبہ نہیں، ان کا معیارِ تعلیم پست ہے۔ طلبہ کو زیادہ فکر باہر جانے کی رہتی ہے، عام بے حسی وغیرہ۔ بیشک یہ تمام باتیں کسی حد تک صحیح ہیں لیکن 50 فیصد اصلی سبب ہماری پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کی طرف سے لاپرواہی اور بے حسی ہے۔ جب تک بنیادی پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کا پھیلاؤ وسیع نہ ہوگا ’’تعلیمی اہرام‘‘ کبھی بلند نہیں ہوسکتا۔
(3ہندستان کے مزاج کے مطابق جمہوریت اور سیکولرازم یہ دونوں ایسی نعمتیں ہیں کہ مسلمان پوری طرح ان سے استفادہ کرنے کے قابل نہیں۔ اصل وجہ تعلیم سے محرومی ہے۔ جمہوریت ایسا نظام حکومت ہے جس میں سب شہریوں کو اپنا حق پانے، اپنا حق منوانے، اپنا حق لینے کا حق ہے مگر اس کیلئے تعلیم اہم شرط ہے۔
تعلیمی منصوبہ بندی کے اہم خدو خال: یہ پہلا پنج سالہ منصوبہ جنرل ایجوکیشن ساتویں جماعت تک تعلیم دلوانے کے پروگرام سے متعلق ہوگا۔ دس سال تک ہماری توجہ اسی بنیادی مقصد پر مرکوز رہے تو اچھا ہے۔ البتہ خود طلبہ اور والدین میٹرک تک طلبہ کو لے جانا چاہیں گے جب انھیں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔
اس کام کیلئے منڈل، سمیتی، تعلقہ، ضلع اور ریاستی سطح پر جنرل ایجوکیشن کمیٹیاں قائم کی جاسکتی ہیں، چونکہ تعلیم کا کام سب ہی کاہے۔ اس لئے مقامی، سماجی، سیاسی، مذہبی، ادبی انجمنوں کے کارکن آگے آسکتے ہیں۔ اس کمیٹی کا کام یہ ہوگا کہ بڑے شہروں میں محلہ واری اور چھوٹے قصبات میں پوری آبادی کا گھر گھر جاکر ایسے بچوں کے نام رجسٹر کرلیں جو کسی اسکول میں نہیں پڑھتے۔ یہ کام ایک مرتبہ کرلیں تو پھر یہی اعداد و شمار 5 برس تک کام آسکتے ہیں۔ یہ کمیٹی کوشش کرے کہ ان بچوں کو جن کی عمریں 5-6 سال ہوچکی ہیں، کسی نہ کسی سرکاری مدرسے یا پھر خانگی مکتب میں داخل کروادیں۔ اس کیلئے والدین کو بھی سمجھانا بجھانا ہوگا۔ جب بچے تعلیم سے جڑ جائیں تو ’’ڈراپ آؤٹ‘‘ کو روکنے کیلئے ان پر مسلسل نگرانی کی ضرورت ہوگی کیونکہ اگر 100 مسلم طلبہ پہلی جماعت میں داخلہ لیں تو میٹرک تک پہنچنے تک دس رہ جاتے ہیں۔ باقی درمیان ہی میں سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اس کمیٹی کا کام یہ بھی ہو کہ مقامی جمع شدہ سرمائے سے غریب طلبہ کی مدد کرے۔ شہر میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جو ان کی مدد کرسکتے ہیں۔
فوائد: ایسے مقامی افراد جنھیں اس کام سے دلچسپی ہوگی، ان کا تعلق گھر گھر سے ہوجائے گا۔ جو مواد جمع کیا جائے گا وہ مردم شماری، مادری زبان، پڑھے لکھے لوگوں کا اوسط اور ان غریب لوگوں کے مسائل سے واقفیت پیدا ہوجائے گی جن کی یہ کمیٹیاں رہنمائی کرسکتی ہیں۔ اگر پانچ سال یہ کام مسلسل جاری رہے تو اس مقام یا قصبہ کی آبادی میں کوئی بچہ بغیر ابتدائی تعلیم نہ رہ جائے گا۔
اس اسکیم کی خوبی یہ ہے کہ یہ کام کسی سطح پر شروع کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی ریاستی مرکزی تنظیم اس کام کو سنجیدگی سے شروع کرے اور چھوٹے بڑے مقامات پر اس قسم کی جنرل ایجوکیشن کمیٹیاں قائم کرے تو بہت اچھا ہے، ورنہ اس کام کو شروع کرنے کیلئے آپ کو کسی سیمینار، سمپوزیم یا کانفرنس کے ریزولیشن کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، بس چند روپے کا رجسٹر خرید لیجئے ، اٹھ کھڑے ہوجائیے، دیکھئے کام شروع ہوگیا۔
’’بیشک یہ پہلا قدم ہی بہت بڑے انقلاب کا پیشہ خیمہ ہوتا ہے‘‘۔ (مولانا آزاد)
وہ بھولے ہوئے ہیں یہ عادت خدا کی
کہ حرکت میں ہوتی ہے برکت خدا کی
(حالیؔ)
آپ شاید اس روز سے واقف نہیں کہ بھلائی کے چھوٹے سے چھوٹے کام سے بھی آدمی کتنا بڑا ہوجاتا ہے اور پھر یہ کام ایسا ہے جو ہر قسم کی سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشی، معاشرتی، دنیوی، دینی کام کیلئے بنیاد کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر یہ کام آج بھی نہ ہوا تو پھر ملت کی قسمت میں حرماں نصیبی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔