ہندوستان کے وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ یہ دنیادوہرے معیاروالی ہے ،جو ممالک بااثر پوزیشن میں ہیں ، وہ نہ صرف تبدیلی کے دبائو کی مخالفت کررہے ہیں، جیساکہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں دیکھتے ہیں ،کہ انہوں نے اپنی صلاحیت اورطاقت کااستعمال ہتھیار کی صورت میں کیا ہے۔ انہوں نے ’گلوبل سائوتھ ‘ اور’گلوبل نارتھ ‘ 2 اصطلاحات کی مثال دی ،’ گلوبل سائوتھ‘ کی اصطلاح کااستعمال ان ترقی پذیر اورپسماندہ ممالک کیلئے ہوتا ہے ، جو بنیادی طورپر افریقہ ، ایشیااورلاطینی امریکہ میں واقع ہیں ،جبکہ ’گلوبل نارتھ ‘کی اصطلاح ترقی یافتہ ممالک کیلئے استعمال ہوتی ہے، ان میں بنیادی طور پر شمالی امریکہ ،یورپ، اسرائیل، جاپان ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔وزیرخارجہ جے شنکرکا کہناہے کہ آج جو ممالک معاشی طورپر مضبوط ہیں، وہ اپنی پیداواری صلاحیتوں کا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور جو ادارہ جاتی یا تاریخی اثر ورسوخ رکھتے ہیں، وہ بھی اپنی بہت سی صلاحیتوں کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔جس طرح آزادی کے نام پر بہت کچھ کیا جاتاہے ، اسی طرح بازارکے نام پر بہت کچھ کیا جاتاہے ۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ثقافتی توازن کا اصل مطلب دنیا کے تنوع کو تسلیم کرنااور دوسری ثقافتوں اور دیگر روایات کا احترام کرنا ہے۔وزیرخارجہ نے یہ باتیں اقوام متحدہ میں انڈیامشن اورریلائنس فائونڈیشن کے تعاون سے آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ ’رائز آف دی سائوتھ : پارٹنرشپس ، انسٹی ٹیوشنس اینڈآئیڈیاز‘ کے موضوع پر منعقدہ وزارتی اجلاس سے خطاب کے دوران کہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ثقافتی توازن کا اصل مطلب دنیاکے تنوع کو تسلیم کرنا اوردوسری ثقافتوں ودیگر روایات کا احترام کرناہے۔
کہنے کو تو دنیاکو گلوبل ولیج کہا جاتاہے ، لیکن اس میں تنوع ، اختلافات ،گروپ بندی ، برتری کی لڑائی ، طاقتور،کمزور،چھوڑے و بڑے ممالک اورامیروغریب کی ایسی خلیج نظر آتی ہے، جسے ولیج کہنا بددیانتی ہوگی ۔ ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اورپسماندہ ممالک وسلامتی کونسل کے مستقل اورغیر مستقل رکن ومختلف گروپوں میں دنیاکے ممالک کی زمرہ بندی بہت کچھ کہتی ہے ۔ کووڈمیں بھی ہم نے دوہرامعیاردیکھا، اس کے علاوہ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کا مسئلہ بھی ہمارے سامنے ہے ، جن کی وجہ سے گلوبل وارمنگ یا موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پیداہورہے ہیں ۔ کتنے برسوں سے اسے کم کرنے کی بات ہورہی ہے ۔ جن ممالک کی وجہ سے یہ مسئلہ کھڑاہوا ، وہ حل نہیں کرتے اوراپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے ، الٹے چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک پر دبائو ڈالا جاتا ہے۔ مغربی ممالک اپنے مسائل کو دنیاکے مسائل تو بتادیتے ہیں اورجو ماننے سے انکارکرے، ان پر دبائو بھی ڈالتے ہیں، لیکن وہ خود دنیا کے مسائل کو اپنے مسائل نہیں مانتے ۔ دنیامیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تووہ فورا بیان دینے اورنصیحت کرنے لگتے ہیں ، لیکن اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے ۔ وہ کچھ غلط قدم بھی اٹھاتے ہیںاوردنیاکے ممالک اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ دھمکی دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیںاورکارروائی بھی کرتے ہیں، یعنی دنیاکادوہرامعیارہر جگہ اورہرپلیٹ فارم پر نظر آتاہے ۔ بہت سے چھوٹے ، کمزور اور پسماندہ ، بلکہ ترقی پذیر ممالک اسی دوہرے معیارکی وجہ سے بہت سے مسائل اور پریشانیوں کے شکار ہیں ۔ترقی یافتہ ممالک قرض اورمدد کے نام پر ان کا استحصال کرتے ہیں ، بہت سے ممالک قرض اورمدد کے جال میں پھنس کر بربادہوجاتے ہیں ، جب ان کو احساس ہوتاہے ، تب تک بہت دیرہوچکی ہوتی ہے اور غلطی کی اصلاح کاموقع نہیں ملتا ۔آج دنیا کے کئی چھوٹے اورکمزور ممالک ان حالات سے دوچار ہیں اور پریشان بھی ۔وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں ۔
بڑے ممالک جس پر چاہتے ہیں ، پابندی لگادیتے ہیں ، ان کی غلطی پرکوئی پابندی نہیں لگاتا۔ اقوام متحدہ میں اصلاحات پر طویل عرصے سے زوردیا جارہا ہے ،کچھ مستقل ممالک کبھی کبھی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کی تعداد بڑھانے اورکچھ ملکوں کو مستقل ممبربنانے کی حمایت بھی کرتے ہیں، لیکن جب بات آتی ہے قدم اٹھانے کی تو پہل نہیں کرتے۔ ہندوستان ہی کی دعویداری کو لے لیجئے ، امریکہ ، روس ، فرانس اوربرطانیہ کسی نہ کسی موقع پر ضرور حمایت کرچکے ہیں، لیکن اقوام متحدہ میں اصلاحات کی پہل نہیں کرتے اوراپنی اجارہ داری کو برقراررکھنا چاہتے ہیں۔ایک طرف خوش کرنے کیلئے حمایت اوردوسری طرف اپنے فائدے کیلئے مخالفت۔وزیرخارجہ جے شنکر نے صحیح کہا ہے کہ یہ دنیادوہرے معیار والی ہے۔
[email protected]
دوہرے معیار والی دنیا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS