عبدالسلام عاصم
چندریان کی کامیابی کو سب سے بڑا خراج عقیدت یہ ہوگا کہ ملک میں عقائد پر علم کو ترجیح دینے کی خال خال کوششوں کو بڑے پیمانے پر مہمیز لگائی جائے اور حکومتِ وقت اس کی نہ صرف تائید کرے بلکہ حسبِ توفیق سرپرستی سے بھی کام لے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ امید عبث ہے کیونکہ چندریان نے جس جگہ سافٹ لینڈنگ کی ہے اس مقام کا نام مذہبی حوالے سے رکھا گیا ہے، لیکن یہ نہایت وقتی معاملہ ہے۔ ہمسائے میں میزائلوں کے نام غوری اور غزنوی رکھ کر جس نفرت کو حکمرانی کیلئے بھنایا گیا تھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس لحاظ سے عمل اور ردعمل کے ساتھ یہ سلسلہ اپنے منطقی انجام کو پہنچنے کے بعد کم سے کم ہندوستان کی ترقی کا حصہ نہیں ہوگا۔
یہ ملک ارتقاء پذیر ہے اور تمام رکاوٹوں کے باوجود رہے گا۔ سردست ہمیں جس وقتی جمود کا سامنا ہے اُس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ فاتحین کی لکھوائی ہوئی تا ریخ قوموں کے درمیان توازن بدلنے کے ساتھ ہر عہد میں ازسرنو مرتب ہوتی آئی ہے۔ اس سے بہرحال صرف نقصان نہیں ہوتا بلکہ تقابلی جائزہ لینے والوں کو اس سے فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ لہٰذاہر ناخوشگوار تبدیلی کا صرف یہ مفہوم نہیں نکالنا چاہیے کہ اب اسے ہی دوام حاصل رہے گا۔ ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔
ہاں تو بات چل رہی تھی چندریان کی۔ اس کامیابی کے راست اور بالواسطہ اثرات مرتب ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ علم اور عقائد کے بعد المشرقین والے حلقوں کے الگ الگ تاثرات سامنے آ رہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارے ایک عزیز نے جو میری سوچ سے بظاہر مصلحت پسندانہ اختلاف رکھتے ہیں، چندریان کی کامیابی کے نتائج پر میرے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ کوئی بھی حقیقی علمی اور سائنسی کامیابی کسی قوم کو توہم پرستی سے نجات دلا سکتی ہے۔ اگرچہ ان کے سامنے ایسی اقوام کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جو عقائد اور آستھا کے اندھیرے سے علم کی بدولت روشنی میں آئی ہے، لیکن میرے خیال کی رد میں موصوف نے براہ راست حوالہ جاتی اظہار کیا اوریہ دکھانے کیلئے ایک انگریزی اخبار کا تراشہ پیش کر دیا کہ کس طرح ایک سائنس داں نے چندریان کی کامیابی کیلئے اپنے مذہب کی عبادت گاہ میں حاضری دے کر آشیرواد حاصل کیا ہے۔ میں نے انہیںترکی بہ ترکی جواب دینے کے بجائے اُن پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ہم اور وہ جس معاشرے کا حصہ ہیں، وہ علمی اعتبار سے کامل نہیں بلکہ آج بھی زیر تشکیل ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی سائنس کے پرچے کا امتحان دینے والے طالب علم بہ کثرت امتحان گاہ جاتے ہوئے راستے میں مندر و مسجد میں حاضری دے کر روحانی تقویت حاصل کرتے ہیں اور امتحان دے کر لوٹتے وقت بھی ان معبدوں میں حاضری دے کر کامیابی کی دعا/ پرارتھنا کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر چندریان کی روانگی سے پہلے کوئی سائنس داں پوجا /پرارتھنا کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ہمارے معاشرے میںاکثردعا/پرارتھنا کے ذریعہ ہی نیک تمناؤں اور خواہشات کا اظہار کیا جاتاہے۔ مغرب میں اس جذبے کا اظہاربیشتر موقعوں پر بیسٹ ویشیز اور کمپلی مینٹس کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ وہاں دعا pray/ کی کہیں گنجائش نہیں، وہاں بھی کچھ چھوٹے موٹے حلقے دنیاوی کامیابی کیلئے دین کے راستے سے بلیسنگ حاصل کرتے ہیں۔
اصل خرابی نہ دین میں ہے نہ دنیا میں۔ در اصل دونوں میں جب ہم مفروضات کو ماننے تک محدود رہ جاتے ہیں تو جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اگر مفروضات کوماننے کے بجائے حقائق جاننے کے متحمل ہوجائیں تو امداد باہمی کے ساتھ آرام سے جینے کا ہنر سیکھ لیں گے۔ اس کیلئے ہمیں نہ کسی کی پرستش کی ضرورت ہے نہ کسی سے ڈرنے کی۔ اگر ہم یہ مان کر چلتے ہیں کہ تینوں براہیمی ادیان خدا کے مرتب کردہ ہیں۔ یعنی وہ ’’ مین میڈ‘‘ نہیں توپھر یہ ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی تشہیر اور سیاسی، سماجی و معاشی تعبیر کے ذمہ دار کل بھی انسان تھے اور آج بھی وہی ہیں۔ ایسے میں انسانوں کی وجہ سے تینوں کی مسخ شدہ عملی شکلوں کی ذمہ داری ہرگز ہرگز اللہ پاک پر نہیں ڈالی جا سکتی، جن کا وہ حسب عقیدہ مرتب ہے۔
سوال ہے اس بگاڑ کے ازالے کی صورت کیا ہو گی! چندریان کی کامیابی سے سر شار ماحول میں یہی بات منجملہ دیگرباتوں کے زیادہ غور طلب ہے۔ میرے ناقص خیال میں علم سے دور ی اور عقائد کی من مانی تشریحات سے سارے نقائص پیدا ہوئے ہیں۔گویا ازالے کیلئے ہر اُس جگہ محنت کرنے کی ضرورت ہے جہاں جہاں عقائد علم سے متصادم ہیں۔ یہ ضرورت صرف سائنس پوری کرسکتی ہے جو عمل اور ردعمل سے عبارت نہیں۔ سائنس کا کارواں حکمت سے آگے بڑھتا ہے۔عقائد کی دنیا میں رائج کسی بھی تکلیف دہ عمل پر معتدل یا شدت پسند رد عمل سے ہرگز بات نہیں بن سکتی۔ یہ کام صرف حکمت سے ممکن ہے اور حکمت کی راہ میں عام گمراہ بھیڑ حائل نہیں بلکہ وہ عناصر حائل ہیں جو عام لوگوں کو گمراہ اور سوچنے اور سمجھنے والوں کو بیزار کرتے ہیں۔ یہی بیزاری کبھی کبھی اصل دین سے بھی دور ی کا سبب بن جاتی ہے۔
اس صورت حال سے کیسے رجوع کیا جائے، اس پر حقیقی اور سائنٹفک علم رکھنے والوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ چونکہ تکلیف دہ عصری منظر نامہ مذاہب کی موجودہ شکلوں کا ہی مرتب کردہ ہے، اس لیے اس سے نجات کی واحد صورت یہ ہے کہ نئی نسل کو اُس وراثت سے عاق کر دیا جائے جسے ہم نسل در نسل ڈھوتے آرہے ہیں۔ اس عمل کو انجام دینے کیلئے پہاڑ کاٹنے جیسی جسمانی محنت درکار نہیں، صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کیلئے حقیقی اور سائنسی علم کے در بڑے پیمانے پر وا کر دیں۔ زمانے کی رفتار بتاتی ہے کہ پاپائیت سے نجات میں جہاں صدیوں کا زیاں ہوا تھا،وہیں ہم یہ کام دہائیوں میں انجام دے سکتے ہیں بشرطیکہ ہم ردعمل کی جگہ حکمت سے کام لیں۔
انسانی وسائل کے فروغ کی ذہنی کمان کو انٹرنیٹ اور روبوٹکس سے مصنوعی ذہانت تک وسیع کرنے والے مغرب نے دین اور دنیا کے مابین جو ہم آہنگی قائم کی ہے، وہ باقی دنیا بالخصوص بر صغیر کیلئے انتہائی قابل تقلید ہے۔ یہ تقلید نہ پیرانِ دیر و حرم سے ممکن ہے نہ ان پر رات دن نشانہ سادھنے والے نام نہاد لبرلوں سے جو گھر کی حالت سدھارنے کے بجائے الحاد کے نام پر ایک نیا عقیدہ متعارف کرانے میں لگے ہیں۔ یہ کام صرف اُن روشن خیالوں سے ممکن ہے جو ذہنوں کو فتور سے اور دلوں کو ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندانہ جذبات سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ عقائد کی ذاتی وابستگی کے اعتبار سے چندریان کے ہمہ جہت سائنس دانوں کی یکجا ئی میں ایک ایسے ہی حلقے کی جھلک نظر آئی تھی جو اندھیرے سے اجالے کے سفر کی قیادت کر سکتا ہے۔ عجب نہیں کہ فطرت نے بھی اسی غرض سے چندریان کی سافٹ لینڈنگ کیلئے چاند کی سرزمین پر روشنی کی منتظر تاریک جنوبی قطب کے حصے کو ترجیح دی۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]