تحریر: محمد سبطین رضا مرتضوی
اللہ تبارک و تعالیٰ نے استاد کو یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ وہ قوم کا مستقبل تعمیر کرتا ہے ، ملک و ملت کے سرمایہ کی حفاظت کرتا ہے ، استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کا سامان فراہم کرتا ہے ، استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر راہ راست کی رہنمائی کرتا ہے ، استاد طالب علموں کی رہنمائی و رہبری کرکے ان میں شعور و تجسس پیدا کرتا ہے ، استاد طالب علم کی محض تعلمی تربیت ہی نہیں کرتا بلکہ جینے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے ، استاد شاگرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت کرکے اسے زمین کی پستیوں سے اٹھا کر اسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے، استاد کے ہاتھوں میں افراد کی زندگیاں ہوتی ہیں، استاد کی حیثیت ایک رہنما و معمار کی ہے ، استاد ہی قوم و ملت کی تعلیم و تربیت کا ضامن ہوتا ہے۔
رہبر بھی، یہ ہمدم بھی، یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ نہایت بلند و بالا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن پاک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک کہ:اِنَّمَابُعِثتُ معلماً۔(سنن دارمی) یعنی ’’مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘ سے استاد کے مقام و مرتبہ کا خوب خوب پتہ چلتا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ نے استاد کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: وتَواضَعوا لِمَن تَعَلَّمونَ۔ (بیہقی ) یعنی ”جس سے علم حاصل کرتے ہو اس سے تواضع اختیار کرو“۔
حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ اتنی بڑی اسلامی مملکت کے خلیفہ ہونے کے باوجود آپ کے دل میں کوئی حسرت ہے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کاش میں ایک معلم ہوتا‘‘۔ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس شخص کا غلام ہوں جو مجھے ایک حرف بھی سکھادے ،اگر وہ چاہے تو مجھے بیچ دے اور اگر چاہے تو مجھے آزاد کردے۔ (تعلیم المتعلم)
حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ اور اس کے فرشتے آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، بلوں میں رہنے والی چیونٹیاں، پانی میں رہنے والی مچھلیاں اس شخص کے لیے دعائے خیر کرتی ہیں جو لوگوں کو علم (بھلائی) سیکھاتا ہے۔ (ترمذی)
حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ کی مجلس درس بڑی باوقار ہوا کرتی تھی، ہم تمام طلبہ ان کے درس میں ادب سے بیٹھتے تھے حتیٰ کہ ہم لوگ اپنی کتابوں کا ورق بھی آہستہ الٹتے تھے تاکہ کھڑکھڑاہٹ کی آواز بلند نہ ہو۔ لہذا ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے اساتذہ کے ادب واحترام کو اپنے اوپر لازم سمجھیں،ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔ان کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے ان کی باتوں کو بغور سماعت فرمائیں۔ ان کو کبھی برائی نہ کریں ورنہ کل آپ کے تلامذہ بھی آپ کی برائی کریں گے۔ ان کو کبھی ناراض نہ ہونے دیں اگر ان کی شان میں کبھی کوئی بے ادبی ہو بھی جائے تو فورا انتہائی عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لیں۔
کسی نے کیا ہی خوب بات کہی ہے کہ: ”میرے والدین بھی بڑی عظمت والے ہیں اور میرے اساتذہ بھی، لیکن میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ میرے ماں باپ مجھے آسمان سے لے کر زمین پر آئے اور میرے استاد نے مجھے زمین سے آسمان تک پہنچا دیا“۔
سنگ بے قیمت تراشا اور جوہر کردیا
شمع علم و آگہی سے دل منور کردیا
چشم فیض اور دست وہ پارس صفت جب چھو گئے
مجھ کو مٹی سے اٹھایا اور فلک پر کر دیا
حق تعالیٰ جل مجدہ ہم سبھی کو اپنے اساتذہ کے جملہ حقوق ادا کرنے اور ان کے کردار و عمل کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے اساتذہ کا سایہ ہم خدام کے سروں پر تادیر صحت و سلامتی کے ساتھ دراز فرمائے اور میرے وہ اساتذہ جو اس دار فانی سے رخصت ہوچکے ہیں ان کی قبروں کو نور سے منور فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
دھامی گچھ، سوناپور، ضلع اتردیناج پور، مغربی بنگال ، الہند