آسام کا شرمناک واقعہ

0

انسانی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ہے لیکن آسام کی ہیمنت سرکار ظلم و جبر پر اتارو ہوکر انسانوں کو بھیڑ بکری سمجھتے ہوئے انہیں بے گھر اور بے در کرنے کے در پے ہے اوراس کا خاص ہدف مسلمان بنے ہوئے ہیں۔کبھی این آرسی میں نام نہ ہونے کی وجہ سے انہیں قیدخانوں میں ڈالاجارہا ہے تو کبھی پولیس انکائونٹر میںہلاکت آسام کے مسلمانوں کا مقدر بنتی ہے تو کبھی زمین خالی کرانے کے نام پرا نہیں بلڈوزر کے نیچے کچل کر ہلاک کیاجاتاہے۔ لیکن کل آسام کے ڈارنگ ضلع میں حکومتی جبر اور انسانی ظلم و بربریت کا ایسا شرم ناک واقعہ سامنے آیا ہے، جس نے ہلاکو اور چنگیز کی روحوں کو بھی شرم سار کردیاہوگا۔ضلع کے سیپ جھر سرکل کے مختلف مواضعات میں دہائیوں سے رہ رہے مکینوں سے زمین خالی کرانے گئی آسام پولیس نے800مسلم کنبوں کو ان کے گھر اور زمین سے بے دخل کرنے کیلئے پوری ریاستی طاقت کا استعمال کیا اور احتجاج کررہے لوگوں کو تاک تاک کر نشانہ بنایا جس میں دو افراد ہلاک اور دو درجن سے زائد افراد شدید طور سے مجروح ہوگئے۔ واقعہ اتنے پر ہی تمام نہیں ہوا، پولیس فائرنگ کا نشانہ بن کر زمین پر گرجانے والے نیم مردہ شخص کے گلے پرایک فوٹو گرافر نے جس طرح سے کود کود کر اپنے پیروں، گھٹنوں اور ٹخنوں سے اس کی موت یقینی بنائی اس نے عالم انسانیت کو جھنجھوڑ دیا ہے۔
مذہبی تعصب اور منافرت کی کوکھ سے جنم لینے والی یہ شرمناک واردات پولیس فورس کی موجودگی اور نگرانی میں ہوئی۔ اس انسانیت سوزواقعہ کا ویڈیو وائرل ہونے تک پولیس اس معاملے سے ہی انکاری تھی لیکن رات کے دس بجے آسام کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس بھاسکر جیوتی مہنتا نے اس واقعہ کی تصدیق کی اور ٹوئٹ کیا کہ بیجوئے بونیا نام کے اس فوٹو گرافر کو پولیس نے تجاوزات مہم کے کوریج کیلئے ہائر کیا تھا جسے حراست میں لے لیاگیا ہے۔ ہر چند کہ ریاستی حکومت نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے لیکن شرمناک بات یہ بھی ہے کہ ریاست میں حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی اوراس کے رکن پارلیمنٹ اس واقعہ پرطرح طرح کی دلیلیں بھی پیش کررہے ہیں۔آسا م میں بی جے پی کے ایم پی دلیپ سیکیا تو بے گھر کیے جانے والے مسلمانوں کو شدت پسند تنظیم کا کارکن کہنے سے بھی نہیں ہچکچائے اوریہ بھی کہہ دیا کہ آسام پولیس معصوم اور بے خطا ہے، اسے مظاہرین نے اکسایا اور اشتعال دلایاتھا جس کے جواب میں ان پر فائرنگ کی گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ آسام پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم کی بھی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی نوٹس دیے اور متبادل رہائش فراہم کیے بغیر اچانک بزن بولا اور800گھر وں پر بلڈوزر چلانا شروع کردیا۔ پولیس کے اس غیر انسانی طرز عمل پر احتجاج ہونا فطری تھا جسے کسی بھی لحاظ سے غلط نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے۔آسا م حکومت کو زمین خالی کرانے کی اتنی جلدی ہے کہ اس نے اس کیلئے اپنے ہی شہریوں پر فائرنگ تک کراڈالی اور ان سے زندگی کا حق بھی چھین لیا۔
ایسا لگ رہاہے کہ ہیمنت بسواسرما کا مقصد زمین خالی کرانا نہیں بلکہ آسام سے مسلمانوں کو نکالنا ہے۔اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی بہر حال ایک وزن رکھتی ہے اور کئی ایسے اضلاع ہیں جہاں وہ اکثریت میں ہیں۔3.12کروڑ کی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب 34.2فیصد بتایا جاتا ہے اور یہ آبادی ریاست کے 11 اضلاع میں مرکوز ہے۔ ہیمنت بسوا سرما چاہتے ہیں کہ آسام میں نہ صرف مسلمانوں کی آبادی کم ہوجائے بلکہ وہ مختلف مقامات پر منتشر بھی ہوجائیں تاکہ ان کے ووٹوں کو بے و زن رکھاجاسکے۔آبادی کم کرنے کے سلسلے میں تو انہوں نے جون کے مہینہ میں اقتدار سنبھالتے ہی اپنا فلسفہ بھی بیان کردیاتھا۔مسلمانوں کی غربت اور پسماندگی دور کرنے کاچارہ ڈالتے ہوئے انہیں اپنی آبادی کم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور یہ تک کہہ دیاتھا کہ آسام کی زمین پر گنجائش سے زیادہ بوجھ ہے، اسے ہرحال میں وہ کم کرناچاہتے ہیں۔ زمین خالی کرانے کی یہ مہم بھی ان کے اسی مقصد کی سمت ایک قدم ہے۔ اس سے قبل بھی ڈارنگ ضلع کے سیپ جھر میں ہی مسلمانوں سے 180 بیگھہ زمین خالی کراکر سیکڑوں خاندانوں کو اجاڑا جاچکا ہے۔ یہ درست ہے کہ سرکاری اراضی پر قبضہ ختم کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس کیلئے ہیمنت بسواسرما جو طریقہ اختیار کررہے ہیں اس کی تائید نہیں کی جاسکتی ہے۔زمین خالی کرانے کی اس مہم کے خلاف آسام کی عدالت میں مقدمات بھی زیر سماعت ہیں جب تک ان پر فیصلہ نہیں آجاتا ہے حکومت کو اس سے بازرہناچاہیے۔ حکومت کاکام شہریوں کی جان و مال کی حفاظت ہے، ان کا گھر اجاڑنا اور ان سے زندگی کا حق چھیننا نہیں ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS