زین شمسی
عہد قحط الرجال میں سچائی ، ایمانداری ، اخلاق و اطوار کی باتیں مضحکہ خیز جان پڑتی ہیں۔ کسی کا نام ضمیر ہو سکتا ہے ، کسی کا نام اخلاق ہو سکتا ہے، مگر ضمیر و اخلاق اپنے لغو ی معنی کھو چکے ہیں۔ کبھی کسی نے بتایا تھا کہ یہ دنیاتب تک اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے جب تک اس دنیا میں کوئی ایک آدمی بھی خدا کا نام لیوا ہو۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ جوخدا کو مانے اور خدا کی بھی مانے۔ ویسے مذہب کے نام پر جو تماشے برپا ہوئے ہیں، اس کا ذکر کر کے مزید تماشے برپا کرنے کاکوئی ارادہ یا فائدہ نہیں ہے۔مذہب کی انڈسٹری دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ اس انڈسٹری میں پیسہ لگانا نہیں ہوتا ہے بلکہ پیسہ اگانا ہوتا ہے اور اسے اگانے کے لیے ڈر و خوف ، آستھا اور مریادا کی نئی نئی تشریحیں اور تاویلیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔ انسان خودپرست ہوچکا ہے اوراس کے منافع بخش ذہن نے عملی طور پر دنیا کو اسی کے حال پر چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھ چکا ہے کہ گھر و خاندان سے لے کر سماج کے تمام اصولی رشتے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ سماج کی اس ڈوبتی اقدار کا سب سے بڑا فائدہ سیاست کو ہوا ہے۔ سیاست سماج کو اپنے مفاد میں بدلنے کے لیے تیار ہو گئی ہے اور وہ سماج جس کی طاقت سیاست کو بدلنے کی ہوا کرتی تھی، وہ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ تمام شعبۂ حیات میں بے اصولی نے اپنے قدم جما لیے ہیں، خاص کرتعلیم کا شعبہ جو سماج کی بہتری کی شہ رگ ہوا کرتاتھا خود کی کٹی ہوئی نس لیے پھڑپھڑا رہا ہے۔ جہاں تعلیم نے کاروبار کرنا سکھایا، وہیں کاروبار نے تعلیم کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ سیاست کاروباریوں کے ساتھ مل گئی اور تعلیم کو امیری و غریبی میں تقسیم کر دیا گیا۔ کالجز طلبا کے لیے ترستے رہے اور کوچنگ پیسہ کمانے کا بہترین شعبہ بن گیا۔
ایسے میں یونیورسٹیوں کو تو جس طرح کے مسائل کا سامنا ہے وہ تو جگ ظاہر ہے، مگر چھوٹے چھوٹے کالجز کی حالت دگرگوں ہے۔ اسکولوں کو مڈ ڈے میل دے کر خراب کرنے کے بعد کالجز کی تعلیمی صورتحال کو بگاڑ دیا گیا۔ اساتذہ کی اسامیاں ختم کر دی گئیں اور غیر اساتذہ اسٹاف کی بھرتیاں پُر نہیں کی گئیں۔ جب استاد نہیں رہیں گے تو پڑھنے کا ماحول نہیں بنے گا۔ آج کالجز پڑھائی کا مرکز نہیں ہیں بلکہ سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی دکان تک محدود ہوگئے ہیں۔ کچھ بچے ہوئے استاد کلاسیز نہیں لیتے بلکہ ایڈمیشن اور رجسٹریشن کرانے پر مامور ہیں۔کسی طرح کا کوئی کلچرل پروگرام نہیں ہوتا اور نہ ہی دلچسپی کا کوئی سامان مہیا کرایا جاتا ہے کہ بچے کالجز آنے میں دلچسپی دکھائیں۔ انہیں آسانی کے ساتھ سرٹیفکیٹ مل جاتے ہیں۔ کتابوں کی جگہ گیس پیپر(Guess paper) نے لے لی ہے۔ لیکچر کی جگہ نوٹس نے لے لی ہے۔ امتحانات میں چوری کا ماحول بن گیا ہے۔ کاپی جانچنے میں ایمانداری نہیں رہی۔ بچوں کو بغیر پڑھے پاس کیے جانے کی روایت پھل پھول رہی ہے۔ بنیاد کمزور ہونے کی وجہ سے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے بچے ہائر ایجوکیشن میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ ان کے مستقبل کی فکر نہیں کی جا رہی ہے۔
اس سسٹم پر وار کرتے ہوئے بہار یونیورسٹی مظفر پور بہار کے نتیشورکالج کے ایک پروفیسر نے ایک ایسا قدم اٹھایا جو نہ صرف متحیر کر دینے والا ہے بلکہ پورے ایجوکیشن سسٹم کی پول کھول دینے والا ہے۔ ان کا یہ قدم تعلیمی میدان میں ایک ایسا خاموش انقلاب ہے جس کی جڑیں گاندھیائی فلسفہ سے متاثر ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر للن کمار نے کلاس میں طلبا کی مسلسل صفر حاضری سے پریشان ہو کر اپنے2سال9ماہ کے دور ملازمت کی پوری تنخواہ23لاکھ 82 ہزار 228 روپے یونیورسٹی رجسٹرار کو یہ کہتے ہوئے واپس کر دیے کہ جب ہم نے ہمارا کوئی کام ہی نہیں کیا تو پھر پیسہ کس لیے دیے جا رہے ہیں۔تاہم رجسٹرار اور دیگر اسٹاف نے انہیں بہت سمجھایا، لیکن وہ اپنے فیصلے پر اٹل رہے۔ للن کمار ایک کسان خاندان سے ہیں، جنہوں نے غربت کے باوجود تعلیم حاصل کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ وہ جے این یو سے ماسٹرس اور ڈی یو سے پی ایچ ڈی ہیں اور ہندی ساہتیہ پر دسترس رکھتے ہیں۔ گولڈ میڈلسٹ ڈاکٹر للن کو اکیڈمک ایکسلنس پریسیڈنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے انتظامیہ سے کئی بار کہا کہ مجھے اس کالج میں بھیج دیا جائے جہاں اکادمک کام ہوتا ہے۔ پڑھنے پڑھانے کاماحول ہے، لیکن کسی نے ان کی نہ سنی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کالج میں ہندی کے تقریباً ہزار طلبا ہیں ،مگر کوئی پڑھنے نہیں آتا، انہوں نے صاف طور وہ بات کہی جو بہار اور اسی طرح کے کالجوں میں تدریس کاکام انجام دے رہے ہیں، ان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کالج اسی نہج پر چلتا رہے گا تو اگلے پانچ سالوں میں تمام پروفیسروں کی اکادمک ڈیتھ لازمی ہے۔ استاذوں اور طلبا کا کریئر تبھی فروغ پاسکتا ہے جب اکیڈمک اچیومنٹ کا ماحول قائم ہو۔
اخبار میں چونکانے والی اس اخبار کی اشاعت یوں تو آج کے کاروباری اور مفاد پرست زمانہ کی نہیں لگتی، لیکن اس خبر نے اس امید کو ضروربڑھاوا دیا ہے کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں جو اپنے ضمیر کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور سماج کی فلاح و ترقی کو اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔یہاں پر یہ لکھ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ان کا قدم قابل ستائش تو ضرور ہے مگر قابل تقلید نہیںکیونکہ للن سنگھ کے اس قدم پر چلنے کی کوئی ہمت تو کیا کرے گا بلکہ اس قدم پر ہی ہزاروں سوال اٹھانے والے پیدا ہو جائیں گے۔ کئی سوال تو داغے ہی جانے لگے ہیں کہ آخر 3سال تک انہوں نے گزارہ کیسے کیا۔ کیا ان کا کوئی الگ کاروبار تھا اور کچھ چالاک ذہن کے پروفیسران اور اسٹاف تو یہ بھی کہتے سنے گئے کہ طلبا کی حاضری سے پروفیسر کاکیا لینا دینا۔ ان کا کام کلاس روم میں لیکچر دینا ہے۔ بچے آئیں انہیں پڑھائو ، نہ آئیں تو اسٹاف روم میں گپیں ہانکو، لیکن کیا یہ دلیلیں للن کمار کی قربانی کا مذاق اڑانے جیسی نہیں ہیں۔ ان کی نیک نیتی پر سوال کھڑا نہیں کرتیں۔ انہوں نے لڑکھڑاتے ، ڈگمگاتے اور ہچکولے کھاتے تعلیمی نظام کے خلاف ایک ایسی قربانی کی مثال پیش کی ہے، جس کو شاید ہی کوئی آگے بڑھانے کی کوشش کرے لیکن ان کی نیک نیتی اور دیانتداری سے سبق حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہر وہ لوگ جو یہ چاہتے ہیں کہ کالجز پڑھائی کا مرکز بنیں تو کم از کم انہیں کالجز کی خدمت پورے صدق دل سے کرنی ہوگی اور انتظامیہ سے لڑنا ہوگا، جواکثر و بیشتر سیاست کے مرہون منت ہوتا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]