نیلم مہاجن سنگھ
ہندوستان کثیر رنگی مختلف مذاہب پر مشتمل سیکولرملک ہے جہاں ایک طرف مذہب اسلام جس میں ’جہاد‘ اپنی نفس کے خلاف ہے، وہیں ہمارے ملک میں سبھی ممالک میں مذہب اسلام کے لوگ رہتے ہیں۔ ہندو مذہب میں دنیا ایک خاندان کا تصور ہے، ہندوستان میں جب بی جے پی کے ترجمان نوپورشرما اورنوین جندل نے پیغمبر حضرت محمدؐ کے خلاف توہین آمیز زبان کا استعمال کیا تو نریندرمودی سرکار کو یہ پیغام دینا پڑا کہ ہندوستان سبھی مذہبوںکا احترام کرتا ہے اور ہندوستان کی سرکار کا وہ نظریہ نہیں ہے جوکہ مذکورہ بالا دونوںافرادنے ظاہر کیا ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی اور ڈاکٹر ایس جے شنکر کی سمجھداری اور دوراندیشی سے معاملہ ختم ہوگیا۔ نوپوروشرما اور نوین جندل کو بی جے پی سے خارج کردیا گیا۔ اجیت ڈوبھال آئی پی ایس اور وزیراعظم کے دفاعی امورکے مشیر کا موقف وہی ہے جو وزیراعظم نریندرمودی کی پالیسی ہے۔ جب انڈیا اسلامک کلچر سینٹر نے اجیت ڈوبھال نے اپنے کلیدی خطبہ میں کہا کہ ہندوستان اسلام کو سلام کرتا ہے کیونکہ اسلام امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ انڈونیشیا میں مسلم آبادی زیادہ ہے۔ کئی ملکوں نے اپنے کو اسلامی جمہوریہ قرار دیا ہوا ہے۔ ہندوستانی علماء کے درمیان اسلامک کلچر سینٹر میں ہوئے اس اجلاس کے دوران ہندوستان کے دفاعی امور کے مشیر اجیت ڈوبھال نے اسلام پر کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے جوکہتا ہے کہ ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ اس دوران انہوں نے جہادکو لے کر بھی بڑی بات کہی۔ ڈوبھال نے کہا کہ جہاد نفس کے خلاف ہے۔ اپنی خطاب میں اجیت ڈوبھال نے انڈونیشیا میں آئے بھیانک زلزلے کے بعد پیدا ہوئے حالات پر تکلیف کا اظہار کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ہندوستان اور سبھی مسلم ممالک کے مضبوط رشتوںکو لیکر کہا کہ ہندوستان میں اسلام کی گہری تاریخ ہے۔ اسلام کے ہندوستان سے تعلقات چودہویں صدی سے چلے آرہے ہیں۔ سبھی مسلم صوبوں میں سماجی ہم آہنگی اپنے آپ میں بڑی مثال ہے۔ کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی ہندوستان میں رہتی ہے۔ ہندوستان میں 30کروڑ سے زیادہ مسلم آبادی ہے۔ آپسی بھائی چارے کو لوگ بڑھانے اور سبھی ملکوںکے علماء کے ساتھ الگ الگ ایشوز پر بحث کرنے کے مقصد سے دنیا بھر میں گفت و شنید ضروری ہے۔ عالمی علماء کا وفد وزیراعظم نریندر مودی سے بھی ملا کیونکہ علماء کا سماج میں گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ لوگ سماج میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ سراج الدین قریشی کو گلوبل پرسنالٹی فار ریلیجس ہارمنی اینڈ پبلک لائف کے اعزاز سے نوازا گیا۔ سراج الدین قریشی ہندوستان کے اسلامک کلچر سینٹر کے صدر ہیں۔ وہ ہندوستان کے اہم صنعت کار اور مسلم فرقہ کے عوامی مقبول شخصیت ہیں وہ چار بار اسلامک کلچر سینٹر کے صدر رہ چکے ہیں۔ سراج الدین قریشی نے سابق وزیرخارجہ سلمان خورشید اور کیرالہ کے گورنر عارف محمدخاں کو ہرایا تھا۔ ان کی ٹیم آئی آئی سی سی کو عالمی اور بین الاقوامی سطح کی تھنک ٹینک بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ سراج الدین قریشی مختلف مذاہب کی فلاح وبہبود اور کوبقائے باہم کے اصول کے تئیں پرعزم ہیں۔ اسی لئے انہیں حضرت انسانیت کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ انہوں نے ہندوستانی اسلامک کلچر سینٹر کو اسلامی دانشوروں اورمسلم فرقہ کا عالمی مرکز بنایا ہے۔ مسلمانوںکو تعلیم سے آراستہ کرنے اور خودکفیل بنانے کے لئے وہ کوشاں ہیں پھر ہندو مسلم سکھ عیسائی وغیرہ کے سیکولر تانے بانے کا اہم حصہ ہیں۔ سراج الدین قریشی کے کئی ملکوںکے سربراہان مملکت اور حکومت کے ساتھ تعلقات ہیں۔ ایک مثبت سوچ کے ساتھ وہ سماج کی خدمت میں اپنی ترجیحات پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ مختلف مذاہب اور عقائد کو انسانیت میں ملانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ مختلف مکاتب فکر کے لوگ ہندوستانی جمہوریت کی اساس ہیں۔ مسلم فرقہ کے لئے تعلیم پر دھیان مرکوز کرنا ضروری ہے۔ عورتوںاور بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنا اور بااختیار بنایا جانا چاہئے۔ دانشورو ں، مصنفوں،شاعروں اور سماجی لیڈروں کو امن اور استحکام سے سبھی مذاہب کے انسانی پہلوئوںکو سامنے لایا جانا چاہئے اوراس کو فروغ ملنا چاہئے۔ ہندوستان عالمی گلوبل پاتھ فائنڈر کے طورپر سامنے آیا ہے جس سے اس کی دوراندیشی پرمبنی نقطہ نظر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ اجیت ڈوبھال نے کہا کہ جمہوریت میں نفرتی تقاریر، مذہب کے غلط استعمال کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ مذہب کا غلط استعمال ہم سبھی کے خلاف ہے۔ اسلام جس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔ ہمارا ملک دہشت گردی اور فرقہ وارانہ بدامنی کا شکار رہا ہے۔ ہم نے ان چیلنجز پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے۔ سرحد پار سے آنے والی دہشت گردی آئی ایس آئی ایس سے متاثر دہشت گردی کی وارداتیں ایک بڑا خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ آئی ایس آئی ایس جیسے گروپ خطرہ بنے ہوئے ہیں اس لئے اس سے نمٹنے کے لئے سبھی کی مدد ضروری ہے۔ ہندوستان دنیا بھر کے ملکوںکے ساتھ مل کر ایک بڑا پیغام دے سکتا ہے جو سماجی رواداری کی بڑی مثال بنے گا۔ انڈونیشیا کے وزیر محمد مفہود ایم ڈی نے کہا کہ میں علماء کے وفد کو لے کر ہندوستان آیا ہوں۔ ہمارا عزم ہے کہ اسلامی اصولوں کو قائم کرنا ہے اور دنیا میں استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ اسلام مذہب امن کی علامت ہے۔ ہم سب کئی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں۔ غریبی، آلودگی، وبائی امراض اور غیرقانونی طورپر آنے والے مہاجرین کے مسائل اور غذا کی کمی جیسے کئی ایشوز پر دنیا بھر کے کئی ملک متحدہورہے ہیں۔ ویسے بھی 74سال کی آزادی کے بعد اب ہندوستان میں ہندوئوں اورمسلمانو کے درمیان اختلاف رائے نہیں ہونا چاہئے کیونکہ مسلم آبادی ہمارے ملک کا اہم حصہ ہے۔ مجموعی طورپر یہ کہنا لازمی ہوگا کہ ہندوستان میں مسلم اورہندو اتحاد دنیا بھر کے لئے ایک بڑی مثال بن سکتا ہے۔ اس لئے انسانیت مذہب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا۔
(مضمون نگار سینئرصحافی، مفکر، مدبر، تجزیہ کار، دوردرشن سے وابستہ سالیڈیٹری فار ہیومن رائٹس سے وابستہ ہیں)