آدمی کو چاہیے، وقت سے ڈر کر رہے: صبیح احمد

0

صبیح احمد

’آدمی کو چاہیے، وقت سے ڈر کر رہے…۔‘گردش زمانہ کسی کو نہیں بخشتا۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان نے جس ’کرپشن‘ کے ڈنڈے سے ہانک کر اپنے پیش رو حکمرانوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے تک پہنچایا تھا، آج اسی ’کرپشن‘ کے ڈنڈے سے چوٹ کھا کر وہ خود بھی قید خانے کی تنہائیوں میں رات گزارنے پر مجبورہیں۔ اب فیصلہ پاکستان کے عوام کو کرنا ہے کہ درحقیقت ’کرپٹ‘ کون ہے؟ پہلے جیل جانے والا یا بعد میں جانے والا! فارسی کا ایک مشہور مقولہ ہے: ’چاہ کن را چاہ درپیش‘(کسی دوسرے کے لیے کنواں کھودنے والا ایک دن خود ہی کنواں میں گرتا ہے)۔ فی الحال یہ عمران خان پر صادق آتا ہے۔ کیا صحیح ہے، کیا غلط، یہ بعد میں طے ہوتا رہے گا۔ ہوگا بھی یا نہیں، کسے معلوم؟ عمران خان نے محض 2 روز قبل اپنے ایک انٹرویو میں اپنے مخالف سیاست دانوں کو چور اور ڈاکو قرار دیا تھا۔ اب اس عدالتی فیصلہ کے بعد وہ خود اسی صف میں کھڑے ہو چکے ہیں۔ وہ عدالت کے ذریعہ نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔ ویسے یہ گرفتاری کوئی نئی بات نہیں ہے، ان سے پہلے بھی پاکستان میں وزیراعظم گرفتار ہو چکے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری نوشتہ دیوار تھی۔ یہ دائروں کا سفر ہے، جو پاکستان کے اندر جاری ہے۔ دراصل عمران خان سیاسی طرز عمل اختیار کرنے کو تیار نہیں تھے جس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
توشہ خانہ کیس میں پاکستان کی راجدھانی اسلام آباد کی سیشن عدالت کی جانب سے عمران خان کو 3 سال قید کی سزاسنائے جانے کے ساتھ فوراً ہی ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کیونکہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ اقتدار سے بے دخل کر دیے جانے کے بعد سے ہی یہ بات کنفرم تھی کہ انہیں کسی بھی وقت گرفتار کر لیا جائے گا اور یہ بات خود انہیں بھی اچھی طرح سے معلوم تھی کہ کسی بھی وقت گرفتاری ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے وہ تیار بھی تھے، لیکن عمران خان کی گرفتاری میں جس طرح عجلت کا مظاہرہ کیا گیا، یہ اچنبھے کی بات ضرور تھی۔ فیصلہ کی خبر شاید ابھی ملک کے سبھی لوگوں تک پہنچی بھی نہیں ہوگی کہ گرفتاری عمل میں آگئی۔ بہرحال عمران خان بالآخر تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ ان کی حکومت گرائے جانے کے تقریباً 18 مہینے کے بعدسزا وار ٹھہرائے گئے، انہیں 3 سال کی قید کی سزا سنائی گئی، ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوا اور سیاست میں حصہ لینے کے لیے 5 سال کے لیے نا اہل قرار دیے گئے۔ عمران خان اور ان پر اندھا اعتماد کرنے والے ان کے حامیوں کے لیے تو شاید یہ نئی بات ہو لیکن پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ماضی میں بھی سابق وزرائے اعظم کے ساتھ ایسا ہوتا رہا ہے۔ حسین شہید سہروردی، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور پھر نواز شریف، سب مقدمات کی زد میں آئے۔ اگر نواز شریف کے ساتھ ایسا پنامہ یا اقامہ کی وجہ سے ہوا تو عمران خان کے ساتھ توشہ خانہ کی وجہ سے۔ اسکرپٹ بہرحال وہی پرانی ہے۔ ایک بار پھر ثابت ہوا کہ پاکستانی سیاست میں اس طرح کی سزائیں قانون کی بالادستی کی طرف نہیں بلکہ اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اس وقت طاقت کس کے پاس ہے اور اس بات کا ادراک اب عمران خان اور ان کے حامیوں کو شاید ہوچکا ہوگا۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ فی الحال جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ آخری ہے، سیاستدانوں کو جیلیں ہوتی رہتی ہیں۔ تاریخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔
بہرحال عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ اب آگے کیا ہو گا؟ پاکستان کی قومی اسمبلی کی مدت ختم ہونے میں چند دن باقی رہ گئے ہیں اور عام انتخابات کے لیے میدان سجنے ہی والا ہے۔ ایسے حالات میں عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی اسی طرح کی قانونی مشکلات میں پھنس چکے ہیں جس طرح کی مشکلات کا سامنا دوسری سیاسی جماعتیں پہلے کرچکی ہیں۔عمران خان خود بھی دوسری جماعتوں کو قانونی معاملات میں پھنساتے رہے ہیں۔ اب وہی معاملات پلٹ کر ان کی طرف واپس آئے ہیں۔اگر ماضی سے ہٹ کر آگے کی طرف دیکھا جائے تو ایک ایسے وقت میں جب الیکشن قریب آ رہے ہیں، 9 مئی کے بعد مسلسل پی ٹی آئی پر زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن ایک کامیاب کپتان کی طرح وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والے نہیں ہیں۔ عمران خان کا ایک بہت وسیع فین کلب ہے جو ان کے سحر میں مبتلا ہے، ان کی آواز پہ لبیک کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کپتان جو بھی کہہ رہا ہے وہی سچ ہے۔ عمران خان کرکٹ ہی کی اصطلاح میں انہیں ہمیشہ بتاتے رہے ہیں کہ وہ ڈٹ کے کھڑے ہیں اور آخری گیند تک کھیلیں گے۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ وہ آخری گیند تک کھیلے، بس ان کی خواہش یہی رہی کہ امپائر بھی ہمیشہ ان کا ساتھ دیں۔ کم از کم 5 اگست 2023 کی صبح ایسا نہیں ہوا۔ کپتان ہمیشہ اپنی ٹیم کے تھکے ہوئے کھلاڑیوں اور مداحوں کو بتاتے رہے ہیں کہ میچ ابھی ختم نہیں ہوا، اس لیے انہیں ’ابھی گھبرانا نہیں ہے۔‘ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار بھی ایسا ہے اور بازی کوئی اور پلٹا کھا سکتی ہے یا پھر واقعی میچ ختم ہوگیا ہے اور کسی دوسرے میچ کی تیاری کرنی چاہیے۔ عمران خان نے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے قبل ایک مرتبہ کہا تھا کہ یہ اگر مجھے حکومت سے نکالیں گے تو میں مزید خطرناک ہوجاؤں گا۔ اور وہ خطرناک بھی ہوئے۔ انہوں نے پہلے اشاروں کنایوں میں، پھر دبے دبے لفظوں میں اور آخر کار کھل کر اپنے مخالفین، خصوصاً فوجی جرنیلوں اور سینئر اہلکاروں کے نہ صرف نام لینا شروع کیے بلکہ ان پر روز بروز الزام لگانا شروع کر دیے۔ حالانکہ انہوں نے نہ کسی عدالت اور نہ ہی کسی پبلک پلیٹ فورم پر ان الزامات کے ثبوت پیش کیے۔ لیکن ان کے حامی کوئی ثبوت بھی تو نہیں مانگتے۔ عمران کا ہر حرف ان کے لیے حرف سچ ہے اور یہی ہے ان کی شخصیت کا سحرہے، جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں دائروں کا سفر ہوتاہے جس میں کبھی منزل نہیں ملتی۔ اب سوال یہ ہے کہ عمران کا سیاسی سفر ختم ہوچکا یا وہ اگلی اننگ کھیل پائیں گے؟ یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ ابھی بڑا مسئلہ پارٹی کی قیادت کا ہے۔ جب تک عمران خان جیل میں ہیں تو کیا شاہ محمود ان کی جگہ پارٹی کی قیادت کریں گے اور کیا شاہ محمود کو عمران کی عدم موجودگی میں عوام اور پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے خاطرخواہ تعاون ملے گا؟ یہ بڑی اہم باتیں ہیں اور مستقبل کا تعین انہی باتوں سے ہو گا۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس فیصلہ کے بعد اعلیٰ عدلیہ سے عمران خان کو کوئی ریلیف ملتا ہے یا نہیں؟ اگر وہاں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تو پھر صورت حال سنگین ہو جائے گی۔ جہاں تک لوگوںکے گھروں سے نکلنے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے کی بات ہے تو نہیں لگتا کہ اس بار ایسا کچھ ہونے والا ہے۔ کم از کم ابھی تک کے ردعمل سے تو نہیں لگتا ہے کہ پارٹی کارکنان پھر اسی جوش اور ولولے کے ساتھ سڑکوں پر اتریں گے، جیساکہ ماضی میں ہوتا رہاہے۔ بلاشبہ عمران خان کی گرفتاری سے لوگ ناراض ہوں گے، افسردہ بھی ہوں گے مگر احتجاج کے لیے سڑکوں پر آئیں گے، ایسا نہیں لگتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ کا ٹوٹنا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS