بڑھتافرقہ وارانہ جنون

0

جدید سیاست نے ملک میں تعمیرو ترقی او ر ریاست کے نظم و نسق کے چلانے میں جوبھی کردار ادا کیا ہولیکن معاشرے اور سماج میں تقسیم کی ایسی لکیر کھینچ دی ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ گہری ہوتی جارہی ہے۔سیاسی جماعتیں اپنی حکمرانی کو طول دینے کیلئے مذہب، نسل، علاقہ اور زبان کی بنیاد پر معاشرہ کو تقسیم در تقسیم کررہی ہیں۔اس کے نتیجہ میں فرقہ واریت، مذہبی جنون، تشدد اور عدم برداشت کی پیدا ہونے والی لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لئے ایسا سفر شروع کر دیا ہے جس کا انجام کھلی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔
گزشتہ دو تین دنوں کے دوران تسلسل کے ساتھ چند ایسی خبریں آئی ہیں جن سے اشارہ مل رہاہے فرقہ پرستی ہندوستان کا مجموعی مزاج بنتی جارہی ہے۔پنجاب کے ترن تارن ضلع میں ایک چرچ میں شر پسندوں نے توڑ پھوڑ کی اور پادری کی گاڑ ی کو نذر آتش کردیا۔ اترپردیش کے مرادآباد میں ایک گھر کے اندر جماعت سے نماز پڑھنے پر 16افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ۔ کرناٹک کے ہبلی میں مسلمانوں کی عید گاہ گرائونڈ میں نماز کی بجائے پولیس کی نگرانی میں گنیش اتسو منایاجارہا ہے۔
یہ واقعات ہر چند کہ نئے نہیںہیں لیکن ان واقعات کے حوالے سے انتظامیہ اور حکومت کاموجودہ کرداراور رویہ بہت سے ایسے سوال کھڑے کر رہا ہے جس کے جواب پر ملک کے امن و سکون، بھائی چارہ اور ہم آہنگی کا انحصار ہے۔ اس سے پہلے پیش آنے والے اس طرح کے واقعات اور واردات پر حکومت متحرک ہوتی تھی، انتظامیہ بھی ملزموں کے خلاف کارروائی کو اپنا فرض تصور کرتا تھا۔ حکومتوں کو اپنی جوابدہی کا خیال ہواکرتاتھالیکن اب یہ ساری باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ سنگینوں کے سایہ میں دوسرے مذاہب کی عبادتگاہوں پر قبضہ اور جشن منایا جاتاہے۔ حکومت نہ صرف ایسے ملزمین کی پشت پر کھڑی رہتی ہے بلکہ ایسے واقعات سے صریحاً انکار بھی کردیتی ہے ۔ حتیٰ کہ عدالتوں میںکھڑے ہوکر ایسے واقعات کو من مانے، غلط،بے بنیاد اور فرضی قرار دے ڈالتی ہے۔ ملک میں مسیحی برادری پرہونے والے حملوں کے سلسلے میں گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں حکومت نے یہی موقف اختیار کیاتھا۔مسیحی برداری کے افراد اور چرچ پرحملوں کے سلسلے میں دائر کی گئی مفادعامہ کی ایک عرضی پرسپریم کورٹ کی جانب سے طلب کی گئی رپورٹ میں حکومت نے ایسے تمام واقعات کو غلط قرار دے ڈالاتھا۔سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت سے کہاتھا کہ پی آئی ایل میں زیادہ تر مبینہ کیس جھوٹے ہیں اور ویب پورٹل پر شائع ہونے والے ایک مضمون پر مبنی ہیں۔ لیکن پنجاب کے ترن تارن میں چرچ پر ہونے والے حملہ کی خبر کو نہیں روک پائی ۔ اس واقعہ کے بعد ہی سپریم کورٹ نے مسیحی برادری اور ان کے چرچ پر حملوں کے حوالے سے حکومتی بیان کو نظر انداز کردیااور آج وزارت داخلہ سے کہا کہ وہ پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کرناٹک، اڈیشہ، چھتیس گڑھ اور جھار کھنڈ سے عیسائی اداروں پر حملوں کے بارے میں رپورٹ طلب کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ حالیہ چند مہینوں کے دوران ملک کے مختلف علاقوں میںمذہبی اقلیتوں پرچھوٹے بڑے تقریباً 500 حملے ہوئے ہیں۔ان حملوں کے دوران انفردای سطح پر مار پیٹ، قتل سے لے کر عبادت گاہوں میں توڑ پھوڑ اور قبضہ جیسے سنگین واقعات بھی شامل ہیں۔ ملوث ملزمین کی نشاندہی بھی ہوئی ہے لیکن ان کی گرفتاری، ایسے واقعات کے روک تھام اور مذہبی جنون پر لگام کی کوئی کوشش حکومتی سطح پر کہیں نظر نہیں آئی۔ حکومت کا یہ رویہ مذہبی جنونیوںاور شرپسندوں کے حوصلہ کو مہمیز دے کر ایسے واقعات میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری جانب پولیس کی زیادتی اور دیگر انتظامی محکموں کے اہل کاروں کا متعصبانہ رویہ فرقہ وارانہ تشدد کو بڑھاوادیتاہے ۔
ان سب کے پس پشت وہ سفاک سیاست ہے جو مذہبی تقسیم اور دو برادریوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرکے فرقہ واریت کو اپنے مفاد کی تکمیل کیلئے استعمال کرتی ہے۔ سیاسی جماعتیں باقاعدہ ایک عمل کے طور سیاست کوفرقہ وارانہ رنگ دے کر ملک میں فرقہ پرستی کو فروغ دے رہی ہیں۔ دو فرقوں کے درمیان اعتماداور باہمی افہام و تفہیم کو ختم کرکے ایک فرقہ کو دوسرے کے مقابل کھڑاکررہی ہیں۔ ایک کو دوسرے سے خطرہ بتاکر ان میں خوف اور شک کی نفسیات ابھاررہی ہیںجس سے لوگوں کے درمیان نفرت، غصہ اور تصادم کا جذبہ شدت اختیار کررہاہے ۔جسے آج ہم مذہبی تشدد کی شکل میں ہر گام دیکھ رہے ہیں۔ اس فرقہ واریت، مذہبی جنون اور تشدد پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے رویہ کا احتساب کریں اور مذہب و فرقہ کی بنیاد پر معاشرہ کو تقسیم کرنے کی بجائے ملک اور قوم کو پیش نظررکھیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS