بے لگام طاقت کی متمنی حکومت

0

ہوا پانی اور خوراک کی طرح ہی حکومت بھی انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر نہ تو نظم اجتماعی قائم رہ سکتا ہے اور نہ امن و امان ممکن ہے۔ جان،مال اور آبرو کے تحفظ کی ضمانت بھی حکومت ہی ہوتی ہے۔خاطیوں، خائنوں اور مجرموں کو سزایاب کرنا اور معاشرہ میں امن و امان برقرار رکھنا حکومت کا بنیادی کام ہے لیکن جب ایک جمہوری حکومت اپنے اس بنیادی کام کی آڑ میں بے لگام طاقت اور اختیار حاصل کرکے اپنی من مانی کرنے لگے اور عوام کی امنگوں اور آرزوئوں کے برخلاف کام کرے تو پھرجلد یا بدیر ایسی حکومت کا جوا عوام اپنے کاندھوں سے اتارپھینکتے ہیں اور اپنی ضرورت کی تکمیل کیلئے دوسری حکومت کاڈول ڈالتے ہیں۔ سری لنکا سے اس کا آغازبھی ہوچکاہے۔ لیکن ہندوستان کی حکومت اپنے پڑوس میں پیش آنے والے واقعہ سے سبق لینے کے بجائے اپنی من مانیوں پر بضد ہے۔ معاشی ابتری،بے روزگاری، مہنگائی اور قلت خوراک سے گزررہے شہریوں کے بنیادی حقوق اور رازداری کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کیلئے اب باقاعدہ قانون سازی کی جارہی ہے۔مرکز کی مودی حکومت نے مجرموں کی شناخت کے نام پر شہریوں کے ڈیٹا حاصل کرنے کیلئے باقاعدہ کریمنل پروسیجر (شناخت) بل پیش کیا ہے اور حزب اختلاف کے تمام تر احتجاج کے باوجود لوک سبھا سے اسے منظور کرالیا۔ اس سے پہلے 28 مارچ کو اسے حکومت نے متعارف کرایا تھا۔ حزب اختلاف شروع سے ہی اس بل پر اپنا اعتراض اٹھاتا رہا ہے۔ لوک سبھا میں بھی پوری اپوزیشن نے متفقہ طور پر اس کی مخالفت کی۔ لیکن پچھلے کئی بلوں کی طرح حکومت نے ان اعتراضات کو بھی بلاجواز قرار دیا اوراسے لوک سبھا سے پاس کروادیا۔ امید ہے کہ امروز فردا میں اسے راجیہ سبھا میں بھی پیش کرکے وہاں سے بھی اسے منظور کرالیاجائے گا۔ویسے بھی راجیہ سبھامیں بی جے پی کی طاقت بڑھ گئی ہے اوراس متنازع بل کی راہ میں رکاوٹ کے امکانات کم ہی ہیں۔ دونوں ایوانوں سے منظور ہونے کے بعد جب صدرجمہوریہ کے دستخط کے بعدکریمنل پروسیجر (شناخت) بل قانون بن جائے گا تو مرکز کی مودی حکومت کی طاقت میں کچھ اور اضافہ ہوجائے گااور عوام کے حقوق کی پامالی کا خدشہ بھی بڑھ جائے گا۔
حکومت نے اس بل میں ایک یہ شق بھی شامل کی ہے کہ پولیس مجرموں ہی نہیں بلکہ مشتبہ افراد کی انگلیوں اور پائوں کے نشانات کے ساتھ ساتھ ان کی آنکھ کی پتلیوں کا عکس (آئیرس اور ریٹینا اسکین)، حیاتیاتی نمونے، جسم کی مکمل پیمائش سمیت دیگر ذاتی معلومات اکٹھی کرسکے گی اور یہ معلومات75برسوں تک اپنے پاس محفوظ رکھے گی۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ موجودہ قانون کے تحت پولیس صرف ملزمین، ضمانت پر سزا یافتہ افراد اور سنگین جرائم میں سزا یافتہ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کرتی تھی لیکن اس نئے ترمیمی بل میں پولیس ان تمام افراد کی ذاتی معلومات اکٹھی کرسکے گی جنہیں صرف شک و شبہ کی بنیاد پرحراست میں لیاگیاہو۔اس کے ساتھ ہی یہ قانون ایسے لوگوں پر بھی نافذ العمل ہوگا جن پرتعزیرات ہند کی دفعہ117کے تحت امن برقرار رکھنے کیلئے کارروائی مقصود ہو۔اگر یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے تو یہ قیدیوں کی شناخت ایکٹ 1920 کی جگہ لے لے گا۔ حکومت کا خیال ہے گزشتہ ایک صدی میں جرائم کی نوعیت میں زبردست تبدیلی آئی ہے، اس لیے اس قانون میں تبدیلی ضروری ہے۔اس تبدیلی سے تفتیش اور جرائم کے خلاف شواہد اکٹھاکرنے میں مدد ملے گی۔ اس سے پہلے بھی ملکی سلامتی، دہشت گردی کی روک تھام اور آبروریزی جیسے جرائم کے خلاف کئی سخت قوانین بنائے گئے لیکن نہ تو ان سے جرائم کی شرح میں کوئی تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی مجرموں میں کسی قسم کا خوف پیدا ہوا ہے۔اس لیے اس قانون سے بھی جرائم کی تعداد میں کمی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مجرموں کے خلاف سختی کی آڑ میں اٹھایا گیا یہ قدم دراصل شہری آزادیوں پر حملہ ہے۔یہ قانون فرد کو اپنے ہی خلاف بزور طاقت شہادت پیش کرنے پر مجبور کرتا ہے۔شناخت کے مقصد سے مجرموں کے ساتھ ساتھ صرف شک کی بنیاد پر زیر حراست رکھے گئے افراد کی ذاتی معلومات اکٹھی کرنا اور ان کی جسمانی پیمائش کا ریکارڈ رکھنا آئین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ہندوستان کے آئین کی دفعہ 14، 19اور21انسانی حقوق اور شہری آزادی کو یقینی بناتی ہے۔ لیکن یہ قانون نہ صرف شہریوں کے حقوق اور آزادی پر قدغن ہے بلکہ اس سے سائبر کرائم میں بھی اضافہ کا خدشہ ہے کیوں کہ اس ڈیٹا کی حفاظت کا حکومت اب تک کوئی انتظام بھی نہیں کرسکی ہے۔ اوراس کا بھی قوی امکان ہے کہ حکومت اس قانون کا استعمال اپنے سیاسی مخالفین کی آواز دبانے کیلئے کرے۔سی اے اے اور این آر سی کی مخالفین کے ساتھ حکومت کا رویہ دنیا کے سامنے ہے۔ اسی طرح ملکی سلامتی کے نام پر حزب اختلاف کے لیڈروں، صحافیوں اور طلبا کے ساتھ حکومت کا سلوک بھی دنیا پر عیاں ہے۔اس نئے قانون کے ذریعہ حکومت کو نگرانی کے نام پر پولیس کا استعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو دبا نے کا ایک نیا حربہ مل جائے گا۔کسی جمہوری حکومت کو ایسی بے لگام طاقت کا مل جاناجس سے شہری آزادی اورانسانی حقوق پامال ہوتے ہوں کسی بھی حال میںمناسب نہیں ہے۔اس سے پہلے کہ عوام ایسی حکومت کا جوااپنے کاندھوں سے اتارپھینکیں بہتریہ ہوگاکہ حکومت خودہی اصلاح احوال کی طرف توجہ دے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS