حکیم محمد اجمل خاں کے کارناموں کی ایک جھلک

0

حکیم (ڈاکٹر ) اسلم جاوید
حکیم اجمل خاں کے بزرگ جو خاندانی حکیم تھے، مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں بھارت آئے اور یہاں اپنی حکمت کے جوہر سے جلد ہی شاہی دربار تک رسائی حاصل کرلی۔ حکیم اجمل خاں کے دادا حکیم شریف خاں مغل بادشاہ شاہ عالم کے حکیم خاص تھے اور انہیں مغلیہ سلطنت میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ اسی اہمیت کی وجہ سے انہوں نے شریب تنزل منزل کی تعمیر کرائی جو بعد میں ایک اسپتال کے روپ میں تبدیل ہوا، جہاں غریبوں کا مفت علاج ہوتا رہا۔ یہاں حکمت کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔
حکیم اجمل خاں کی پیدائش 1868 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے عربی اور فارسی کی حاصل کی اور اس کے بعد دادا کی صلاح اور تربیت میں حکمت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ حکیم اجمل خاں کے دادا طب یونانی کی اہمیت کو جانتے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اس کا فائدہ عام انسانوں کو حاصل ہو۔ وہ اپنے شاگردوں کو طب یونانی کے فوائد سے آشنا کراتے رہے۔ حکیم اجمل خاں کو بھی انہوں نے اس مشن پر لگایا اور حکیم اجمل خاں نے ان کے دیکھے ہوئے خواب کو حقیقت میں تبدیل کردیا۔
حکیم اجمل خاں کے تعلق سے کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ میں جادو تھا، وہ مریض کے چہرے کو دیکھ کر اس کی بیماری کے بارے میں جان لیتے تھے اور ایسی دوا تشخیص کرتے تھے کہ مریض جلد ہی صحت یاب ہونے لگتا تھا۔ انہیں رام پور کے نواب کا خاص حکیم مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے طب یونانی کے فروغ کے لیے کئی ادارے بنائے جن میں سنٹرل کالج، ہندوستانی دواخانہ اور یونانی طبیہ کالج بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان اداروں کی وجہ سے یونانی طب جو اپنے جوہرکھو رہی تھی، اسے پھر سے زندہ جاوید کردیا۔
حکیم اجمل خاں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام میں بھی پیش پیش رہے۔ اس طرح ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ وہ تعلیم اور تکنیکی تعلیم کے تعلق سے کتنے سنجیدہ تھے اور یوں کہیں تو غلط نہ ہوگا کہ وہ آنے والے زمانے کی آہٹ کو سمجھ رہے تھے اور اس لحاظ سے تیاری بھی کررہے تھے۔ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ اور یونانی طبیہ کالج کی اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ سرسید احمد کی کوششوں کا نتیجہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے، جہاں سے لاکھوں کی تعداد میں بطور خاص مسلم بچے تعلیم حاصل کرکے پوری دنیا میں اپنی اہمیت کا لوہا منوا چکے ہیں۔ اسی طرح یونانی طبیہ کالج اور جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے افراد پوری دنیا میں اپنی صلاحیت کی وجہ سے خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ آج ہم جب غور کرتے ہیں کہ ان دو بزرگوار سرسید احمد خاں اور حکیم اجمل خاں صاحب نے کتنی سنجیدگی کا مظاہرہ اس زمانے میں کیا جب مسلمانوں کے پاس وسائل کم اور مسائل زیادہ تھے۔ لیکن ان دو حضرات نے تعلیم کے تئیں اپنی سنجیدہ فکر سے ایسے اداروں کو فروغ عطا کیا جو آج روشن ستارہ کی اہمیت رکھتے ہیں۔ افسوس کہ اب ایسے جہاں دیدہ افراد کی قوم میں بڑی قلت ہے اور ان اداروں کے وجود میں آئے زمانے گزرگئے، مگر ان کے بعد کوئی ایسا ادارہ وجود میں نہیں آیا جسے ہم اپنا ادارہ کہہ سکیں۔
حکیم اجمل خاں ایک ایسے باشعور مفکر قوم تھے جن کے ہر ایک قدم سے ہم اور آپ روشنی حاصل کرسکتے ہیں۔ ان کا پورا خاندان حکمت کا اعلیٰ جانکار تھا۔ اس فن سے انہوں نے دولت بھی کمائی اور خدمت خلق بھی کیا۔ حکمت کے فروغ کے لیے ادارے قائم کئے، وہیں تعلیم کے لیے الگ جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسے ادارے کے قیام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1920 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شیخ الجامعہ بنائے گئے اور اپنی موت یعنی 27 دسمبر 1927 تک اس عہدہ پر قائم رہے۔ حکیم صاحب چونکہ مفکر قوم بھی تھے، اس لیے ان دنوں جس طرح کے ملک کے حالات تھے، ان سے بے فکر رہنا مشکل تھا۔ اس لیے سیاست میں بھی آپ نے غیر معمولی دلچسپی لی اور کانگریس پارٹی کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ حکیم صاحب کانگریس کے صدر منتخب ہونے والے پانچویں مسلم تھے۔ آپ ہندو مسلم میں یکساں مقبول تھے۔ آپ نے اپنی پوری زندگی خدمت خلق میں لگا دی اور یہی وجہ ہے کہ آپ کو کئی خطاب عطا کئے گئے۔ جس میں ایک خطاب خاص ہے جو آج بھی آپ کے نام کے ساتھ مسیح الملک جابجا لکھا اور بولا جاتا ہے۔ مسیح الملک کا خطاب کسی شخص کو یونہی نہیں مل جاتا اور اس کے لیے مسیحائی کرنی پڑتی ہے اور حکیم صاحب نے واقعی مسیحائی کی ہے۔ آج طب یونانی جس بلندی پر ہے، اسے وہاں تک پہنچانے میں حکیم صاحب اور ان کے خاندان کے بزرگوں کا ہی ہاتھ ہے۔
حکیم اجمل خاں صاحب ہندوستان کے اکیلے ایسے فرد ہیں، جنہیں کانگریس مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کے صدر بننے کا شرف حاصل رہا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حکیم صاحب کی سیاسی بصیرت کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ خلافت آندولن کے زمانے میں حکیم صاحب بطور خاص مہاتما گاندھی کے رابطے میں آئے اور گاندھی جی نے آپ کے سیاسی شعور کی کئی مواقع پر تعریف کی ہے۔
حکیم صاحب کے خاندان کے بزرگوں نے ایک ہفتہ وار اخبار ’’اکمل الاخبار‘‘ شروع کیا تھا، جس میں حکیم صاحب نے بھی دلچسپی لینی شروع کی اور اس میں سیاسی خیالات کے مضامین پڑھتے اور لکھتے ہوئے سیاست میں ان کی دلچسپی ہونے لگی اور یہی وجہ ہے کہ اپنے سیاسی شعور کی وجہ سے انہوں نے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں سیاسی پارٹیوں میں عہدۂ صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔
حکیم اجمل خاں صاحب نے علم طب کی دنیا میں اپنے چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو پورے ملک میں انسانی خدمات کے لیے اپنی زندگی ہی میں ٹرینڈ کرکے پھیلا دیا۔ اب ان کے شاگردوں کے شاگردوں کی بڑی تعداد اس اہم کام میں مشغول ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تندرسی ہزار نعمت ہے اور اس کا اندازہ تب ہوتا ہے جب آدمی بیمار ہوتا ہے، اس لیے زندگی اور وہ بھی تندرستی کے ساتھ حاصل ہو تو پھر شکر خداوندی کرنی چاہیے۔
یونانی طب کو ختم کرنے کی سازشیں پہلے بھی بہت ہوئی ہیں، ایک خاص واقعہ کی طرف اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ 1910 میں انگریزی حکومت نے ایک قانون بنانے کی کوشش کی تھی کہ ڈاکٹروں کا رجسٹریشن کیا جائے گا اور اس میں طبیب اور وید کو شامل نہ کیا جائے۔ جب ان کا رجسٹریشن ہی نہیں ہوگا تو پھر انہیں کنارے لگانا آسان ہوجائے گا۔ ممبئی اور مدراس میں اس کی کوشش بھی کی جانے لگیں۔ اس موقع پر حکیم اجمل خاں نے غوروفکر کے بعد ایک بڑا اجلاس بلانے کا ارادہ کیا۔ پورے ملک میں اطباء کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر کھڑا کرنے کا عزم کیا تاکہ اس وقت حکومت پر دبائو بنایا جاسکے۔ انہوں نے ملک کے مختلف شہروں میں لوگوں سے رابطہ شروع کیا اور پورے ملک سے اس کانفرنس میں اطباء شامل ہوئے جو دہلی کے ڈراما سنٹر میں ہوا۔
اس کانفرنس میں جب پورے ملک کے اہم نمائندوں نے شرکت کی اور یونانی طب کے تعلق سے اپنی مفصل باتیں حکومت کے سامنے رکھیں تو حکومت نہ صرف اس کے فوائد کی قائل ہوئی بلکہ اس نے یونانی طبیب کے خلاف سازش کرنے سے توبہ بھی کرلی۔ اس واقعہ سے یہ پیغام ہمیں ملتا ہے کہ ہمیں اپنی آواز حکومت تک پہنچانی ہو تو کس ذرائع سے پہنچانی چاہیے، اس کا انتخاب بڑا ضروری ہوتا ہے۔ اس کانفرنس میں پورے ملک سے تقریباً 400 اطباء شامل ہوئے اور حکومت کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کردیا۔
حکیم اجمل خاں کو کتب بینی کا بڑا شوق تھا، ان سے ایک نواب صاحب نے دریافت کیا کہ حکیم صاحب آپ کو دنیا میں کسی چیز کا شوق سب سے زیادہ ہے یا پھر کون سی چیز زیادہ پسند ہے تو حکیم صاحب نے بتایا کہ ویسے تو دنیا میں کوئی شئے مجھے بہت زیادہ پسند نہیں ہے لیکن اگر کہنا پڑا تو میں کتب بینی کا شوق رکھتا ہوں اور جب جہاں موقع ملتا ہے تو کتاب ضرور پڑھتا ہوں۔ اسو قت کے نوابوں کے شوق دیکھ لیں اور حکیم صاحب کے شوق کو ملاحظہ کریں تو معلوم ہوگا کہ وسائل سب میسر ہونے کے باوجود اگر انسان اپنی عقل کی بات مان لیتا ہے تو وہ زندگی میں تو سرخرو ہوتا ہی ہے اصل میں مرنے کے بعد زندہ جاوید ہوجاتا ہے۔
حکیم اجمل محمد خاں جنہیں شاعری کا بھی شوق تھا اور وہ شیداؔ تخلص فرماتے تھے لیکن اپنی شعرگوئی کو اپنے خاص احباب تک ہی محدود رکھا۔ عوام کے درمیان مسیح الملک اور حاذق الملک ہی بن کر رہے۔ ان کی پوری زندگی ہمارے سامنے آئینہ کی طرح ہے جس میں ہم اس زمانے کی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔ جس شخص کی رسائی اعلیٰ سے اعلیٰ محفل تک رہی ہو۔ جس کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہ ہو، اس کے باوجود قوم کی خدمت کا جذبہ اس میں ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کچھ مقصد لے کر آیا ہے اور اسے پورا کئے بغیر خاموش بیٹھنے والا نہیں ہے۔
حاذق الملک حکیم محمد اجمل خاں کے انتقال کو کم و بیش 91 سال ہوگئے ہیں۔ ان کے ذریعہ جس پودے کو لگایا گیا تھا وہ کافی چھتنار درخت بن چکا ہے اور اس سے لاکھوں انسان فیضیاب ہورہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ احساس شدت سے ہوتا ہے کہ اس میں جس رفتار سے ترقی ہونی چاہیے تھی نہیں ہوسکی۔ ملک کو حکیم اجمل خاں صاحب کا کوئی بدل نہیں مل پایا۔ آج قوم و ملک کو حکیم اجمل خاں صاحب اور سرسید احمد خاں صاحب جیسے لوگوں کی ضرورت ہے جو قوم و ملت کا درد رکھتے تھے اور ان کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کا کوئی بدل عطا کرے جو اسے مزید آگے بڑھائیں۔
حکیم محمد اجمل خاں کی شخصیت لائق تقلید ہے اور ان کے تعلق سے قوم کی جو بے خبری ہے، اس سے پہلا نقصان تو یہ ہورہا ہے کہ ان سے نئی نسل واقف نہیں ہے۔ نئی نسل میں کتب بینی کا شوق کم ہوا ہے اور وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں کھوتے جارہے ہیں۔ اب ہمیں چاہیے کہ حکیم صاحب کی سوانح اور ان کی طبی خدمات، تعلیمی مشن، سماجی خدمات اور سیاسی بصیرت سے نئی نسل کو روشناس کرائیں تاکہ نئی نسل ان اکابر سے واقف ہوسکے، جنہوں نے مثالی کردار ادا کیا ہے۔
حکیم محمد اجمل خاں کو مسیح الملک اور حاذق الملک کے خطاب سے بھی نوازا گیا اور سرخروئی حاصل ہوئی۔ ان میں بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ بیک وقت اعلیٰ پائے کے طبیب، سیاستداں اور ماہر تعلیم تھے۔ حکیم صاحب اپنی اعلیٰ ظرفی اور اصول و ضوابط کے پابند تھے اور یہی وجہ ہے کہ وہ مہاتما گاندھی کے قریبی لوگوں میں تھے۔ گاندھی جی کے ساتھ آزادہندوستان کا خواب دیکھنے والے حکیم صاحب عظیم مجاہد آزادی بھی تھے۔ انہوں نے کانگریس میں رہ کر سیاسی و سماجی خدمات بھی انجام دیں۔
انہوں نے کئی اداروں کی بنیادیں رکھیں جو آج ملک کے بڑے اداروں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ حکیم صاحب بلاشبہ پورے ملک کے اور خصوصاً مسلمانوں کے بڑے قائد تھے، جن کی چہار جانب سرگرمیاں تھیں اور وہ مستقبل پر گہری نگاہ رکھتے تھے طب یونانی کو زندگی بخشنے والے حکیم صاحب کا یہ بڑا کارنامہ ہے کہ آج لاکھوں کی تعداد میں حکیم طب یونانی سے فارغ اطباء انسانیت کی فلاح کے ساتھ اپنی زندگی کو بھی خوشگوار بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنی نئی نسل کو ان کے کارناموں سے واقف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل کے چیلنجز کو دیکھتے ہوئے وہ خود کو تیار کرسکیں۔
بانی و جنرل سکریٹری، حکیم اجمل خاں میموریل سوسائٹی(رجسٹرڈ)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS