ارون کمار
پینڈورا پیپرس جیسے انکشافات ہماری معیشت کی گڑبڑیوں/خرابیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ پناما پیپرس، پیراڈائس پیپرس جیسے کئی انکشافات کے ہم گواہ رہے ہیں۔ ان سب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح سے ملک سے پیسہ نکال کر غیرممالک میں بھیجا گیا اور ٹیکس سے بچنے کی پوری کوشش کی گئی۔ خوشحال طبقہ ایسا کرتا ہے، تاکہ اسے اپنی آمدنی پر پورا ٹیکس نہ ادا کرنا پڑے۔ پیسہ بھیجنے کا ذریعہ عموماً حوالہ ہوتا ہے یا پھر ’انڈر-انوائے سِنگ آف ریونیو‘(سامان کی قیمت حقیقی قیمت سے کم بتانا) یا ’اوور-انوائے سِنگ آف کاسٹ‘(سامان کی قیمت حقیقی قیمت سے زیادہ بتانا) کے ذریعہ سے کالی کمائی کی جاتی ہے۔ ٹیکس ہیون ممالک(جن ممالک میں ٹیکس کی شرح کافی کم یا برائے نام ہوتی ہے) میں پیسوس کی ’لیئرنگ‘ ہوتی ہے، یعنی پیسے کے بنیادی ذرائع کو چھپانے کے لیے اسے مالیاتی نظام سے اِدھر اُدھر کیا جاتا ہے۔ مثلاً پہلے کسی ایک ٹیکس-ہیون ملک کی شیل کمپنی (عموماً کاغذوں پر چلنے والی کمپنی) میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے، پھر اس کمپنی کو بند کرکے پیسے کو کسی دوسرے ٹیکس-ہیون ملک کی شیل کمپنی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ عمل تیسری، چوتھی، پانچویں، چھٹی یا اس سے آگے کی کمپنی تک دوہرایا جاتا ہے۔ اور آخر میں کسی دیگر ٹیکس-ہیون ملک کی شیل کمپنی میں پیسہ رکھ دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں تقریباً 90ٹیکس-ہیون ملک ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اس سے مبرا نہیں ہیں۔
ایک مطالعہ میں ہم نے پایا کہ 1948سے 2012 کے درمیان ہندوستان سے جو پیسہ باہر گیا، اس سے ملک کو تقریباً 2ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ بیشک جو پیسہ یہاں سے نکلتا ہے، اس کا کچھ حصہ ’راؤنڈ ٹریپنگ‘ کے ذریعہ واپس لوٹ آتا ہے، لیکن یہ محض 30-40 فیصد ہوتا ہے۔ باقی رقم کا ایک حصہ ٹیکس-ہیون ملک میں خرچ ہوتا ہے اور باقی نقد کے طور پر جمع رہتا ہے، جسے واپس لیا جاسکتا ہے۔ تقریباً 500-700 ارب ڈالر کی رقم اب بھی غیرممالک میں پڑی ہوگی، جس کو پکڑا جاسکتا ہے۔ مگر لیئرنگ کی وجہ سے حکومتوں کے لیے یہ معلوم کرنا کافی مشکل ہوجاتا ہے کہ پیسے کا بنیادی ذریعہ کیا تھا اور یہ کہاں سے آیا ہے؟
حالاں کہ ایک دقت کام کرنے کے طریقہ کے تعلق سے بھی ہے۔ ہم نے اب تک جو کوششیں کی ہیں، وہ کارگر نہیں رہی ہیں۔ عدالت کی نگرانی میں 2014 میں ایس آئی ٹی(خصوصی تحقیقاتی ٹیم) کی تشکیل کی گئی، کالا دھن بل بھی لایا گیا، مگر نتیجہ بہت مایوس کن رہا ہے۔ پھر، اپنے مطالعہ میں ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کل کالی کمائی کی صرف10فیصد رقم غیرممالک بھیجی جاتی ہے، باقی 90فیصد یہیں رہ جاتی ہے۔ اس لیے اگر اس غیرقانونی آمدنی کا پروڈکشن روک دیں تو باہر جانے والا پیسہ بھی خودبخود رک جائے گا۔ 1955-56 میں کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹر کالڈور یہاں آئے تھے۔ انہوں نے اندازہ لگایا تھا کہ کالی کمائی ملک کی کل مجموعی گھریلو پیداوار، یعنی جی ڈی پی کا چار سے پانچ فیصد ہوتی ہے۔ 1970میں وانچوکمیٹی نے اسے 7فیصد کہا تھا۔ ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی‘ نے بتایا کہ 1980-81میں کالا دھن جی ڈی پی کا 18سے 21فیصد ہوگیا تھا۔ 1995-96تک یہ 40فیصد ہوگیا۔ ای پی ڈبلیو کے ایک مضمون میں اب اسے جی ڈی پی کا 62فیصد بتایا گیا ہے۔
پینڈورا پیپرس انہی اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس نے واضح کردیا ہے کہ کس طرح سے ٹیکس چوری کے ساتھ ساتھ کالی کمائی کا جال بناگیا ہے۔ کیمین آئی لینڈ میں تو ایک ہی کمرے میں 10ہزار شیل کمپنیاں چلتی ہیں۔ یہاں دو ڈھائی ہزار ڈالر میں کوئی اپنی کمپنی بناسکتا ہے۔ ماریشس کا حال بھی اس سے بہت الگ نہیں ہے۔ لندن، نیویارک کی فائنانشیل کمپنیز بھی یہ کھیل بخوبی کھیلتی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ تو خیر اس کے لیے بدنام ہی ہے۔ ایسے ممالک میں ایک پورا سسٹم کالے دھن کو کھپانے کے لیے کام کرتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنی غلطی کا علم نہیں ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں میں کالی کمائی کو روکنے کے لیے 30-40کمیٹیاں بن چکی ہیں۔ سیکڑوں قدم اٹھائے گئے ہیں۔ 1971میں انکم ٹیکس کی شرح 97.5 فیصد سے کم کرکے 30فیصد کی گئی، 1991میں لبرل اکنامی اپناکر کئی طرح کے کنٹرول ہٹائے گئے، پھر بھی کالا دھن اپنی رفتار سے بڑھتا رہا ہے۔ دراصل، بدعنوان صنعت کاروں، سیاسی لیڈروں، پولیس و انکم ٹیکس محکمہ کے افسران کی سازباز اس کی پرورش کرتی ہے۔ جب تک اس پر کنٹرول نہیں کیا جائے گا، کالی کمائی کا پروڈکشن نہیں رکے گا۔
واضح رہے، کالی کمائی ہماری پروڈکٹیوٹی کو متاثر کررہی ہے۔ اس سے کام کے معیار پر بھی کافی اثر پڑ رہا ہے۔ ایسے میں، ہمیں اس کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ اگر کالی کمائی آج اتنی نہ ہوتی تو پروڈکٹیوٹی میں اضافہ کی وجہ سے ہماری معیشت 2.5 ٹریلین ڈالر کی جگہ تقریباً 20 ٹریلین ڈالر کی ہوتی اور ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے۔ یہ اب بھی ممکن ہے، بشرطیکہ کالی کمائی کا پروڈکشن ہم روک پائیں۔
ہم چاہیں تو دوسرے ممالک سے سبق لے سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ اور اسکینڈی نیویائی ملک بیشک چھوٹے ممالک ہیں، لیکن وہ ہمارے لیے آئیڈل ہوسکتے ہیں۔ وہاں ٹیکس بہت زیادہ وصول کیا جاتا ہے، لیکن لوگ خوشی خوشی اسے دیتے ہیں، اور کالی کمائی وہاں محض ایک فیصد ہے۔ لوگوں کو یہ اعتماد ہے کہ جو پیسے ان سے لیے جارہے ہیں، وہ ان کے مفاد کے لیے خرچ ہوں گے۔ وہاں تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر کافی سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ مگر اپنے یہاں عام تصور ہے کہ کرسی پر بیٹھے سبھی بدعنوان ہیں، جو صرف اور صرف عوام سے پیسے لوٹ کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ اسی لیے ہر کوئی ٹیکس بچانے کے جگاڑ میں رہتا ہے۔ یہاں مجھے 1976 کا اپنا امریکی دورہ یاد آرہا ہے۔ جب میں وہاں سے لوٹنے کو تھا، تب ٹیکس سرٹیفکیٹ کے لیے میں مقامی محکمہ انکم ٹیکس میں گیا۔ وہاں کے افسران میری گزارش سن کر حیران ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے یہاں آنے کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ یہ تو بس ایک فون کال پر پورا ہوجاتا ہے اور سرٹیفکیٹ گھر پہنچا دیا جاتا ہے۔ کیا اپنے ملک میں ہم ایسا کچھ سوچ سکتے ہیں؟
واضح رہے، کالی کمائی ہماری پروڈکٹیوٹی کو متاثر کررہی ہے۔ اس سے کام کے معیار پر بھی کافی اثر پڑرہا ہے۔ ایسے میں، ہمیں اس کو ہلکے میں نہیں لینا چاہیے۔ اگر کالی کمائی آج اتنی نہ ہوتی تو پروڈکٹیوٹی میں اضافہ کی وجہ سے ہماری معیشت 2.5ٹریلین ڈالر کی جگہ تقریباً 20ٹریلین ڈالر کی ہوتی اور ہم ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوتے۔ یہ اب بھی ممکن ہے، بشرطیکہ کالی کمائی کا پروڈکشن ہم روک پائیں۔
(مضمون نگار ماہرمعاشیات ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)