مالیاتی بدیانتی کے معاملے میں عالمی سطح پرتنقیدکا سامنا کررہے اڈانی گروپ کے حوالے سے مرکز کی مودی حکومت چاروں جانب سے گھر گئی ہے۔ پارلیمنٹ میں اٹھائے جانے والے سوالات کو ریکارڈ سے ہٹانے اور عالمی سطح پرہونے والی نکتہ چینیوں کو ’ ہندوستان پر حملہ‘ قرار دے کر بھی وہ اڈانی گروپ کی سرپرستی کے الزام سے اپنا دامن نہیںبچاسکی ہے۔ حکومت کے گلے میں رسوائی کا ایک اور طوق سپریم کورٹ نے جمعہ کے دن یہ کہتے ہوئے ڈال دیا کہ وہ معاملہ کی تحقیق کیلئے ناموں کی سفارش مہر بند لفافے میں قبول نہیں کرے گی۔ مودی حکومت کو سپریم کورٹ سے ملنے والا یہ جھٹکا دوسرے تمام جھٹکوں سے زیادہ شدید ہے۔سپریم کورٹ ہنڈن برگ رپورٹ کے بعد اڈانی گروپ کے شیئرز میں آنے والی غیر معمولی گراوٹ سے متعلق عرضیوں کی سماعت کر رہی تھی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردی والا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ وہ سرمایہ کاروں کے مفاد میں مکمل شفافیت برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل مرکزی حکومت نے ہندوستانی سرمایہ کاروں کے تحفظ کیلئے ریگولیٹری فریم ورک میں ترمیم کی ضرورت کے پیش نظرایک کمیٹی قائم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔لیکن مرکزی حکومت اور سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج بورڈآف انڈیا(ایس ای بی آئی]سیبی[) کی جانب سے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا نے کہا تھا کہ کمیٹی کے ارکان کے ناموں کی ممکنہ تجویز کے ساتھ ہم مہر بند لفافہ میں نام دے سکتے ہیں کیونکہ کھلی عدالت میں اس پر بحث کرنا مناسب نہیں ہوگا۔لیکن عدالت نے ماہرین کی کمیٹی کیلئے ’ مہر بند لفافہ ‘ میں مرکز کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ عدالت نے کہا کہ وہ حکومت یا درخواست گزاروں سے اس بارے میں تجاویز نہیں لے گی کہ کس کو کمیٹی کا رکن ہونا چاہیے اور وہ اپنے طور پر ماہرین کا انتخاب کرے گی۔ عدالت کا استدلال یہ ہے کہ اگر مہر بند لفافے میں دی گئی سفارش مان لی جائے تو دوسرے فریق کو اس کا علم ہی نہیں ہوگاکہ یہ نام کون ہیں۔ معاملے میں مکمل شفافیت برقرار رکھنے کیلئے مرکز کے مشورے یا سفارش کو قبول نہیں کیا جاسکتاہے۔ عدالت خود ارکان کا انتخاب کر کے ماہرین کی کمیٹی بنائے گی۔ کیونکہ اسٹیٹ بینک آف انڈیا اور ایل آئی سی کے کروڑوں صارفین کی رقم اس صنعتی گروپ میں پھنسی ہوئی ہے۔ عدالت سرمایہ کاروں کے مفادات کے تحفظ میں شفافیت کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔
شفافیت کے حوالے سے حکومتی تجویز کا رد کیاجانااس بات کا ثبوت ہے کہ عدالت کو کہیں نہ کہیں یہ شبہ ہے کہ اس معاملے میں حکومت پردہ پوشی کی خواہش مند ہے۔کالجیم کے معاملے میں ہوئے تنازع کے بعد سے حکومت کی نیت پر سپریم کورٹ کے شہبات ویسے بھی گہرے ہوگئے ہیں، ادھر اپوزیشن بھی بارہا یہ الزامات لگاتا آرہاہے کہ مودی حکومت ’ صنعت کاروں‘ کی محافظ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شفافیت کا دعویٰ کرنے والی مرکزکی مودی حکومت اپنے قیام سے اب تک ہر تنقیداورہرآوازکا گلا گھونٹتی آئی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی کھلے منچ پر ہونے والے سوالات سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ’ کھلی عدالت، نکتہ چینی‘ تنقیداور سوال جواب جیسے جمہوری طریقہ کار سے خدا واسطے کا بیرہو اوریہی وجہ ہے کہ آرٹی آئی ایکٹ کی کئی ایک اہم شقوں کو بھی ختم کردیاگیا ہے۔ ایوان میں کیے جانے والے سوالات کا جواب دینے کے بجائے سائل کو ادھر ادھر کی باتوں میں بھٹکانے اور ماضی میں دفن راکھ کو کرید کر نئی چنگاری سلگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔بارہا سوالات کو ریکارڈ سے ہی حذف کردیاجاتا ہے۔حالیہ دنوں پورے ملک نے یہ دیکھا کہ ایوان میں اپوزیشن کے اٹھائے گئے سوالات کو وزیراعظم نریندر مودی نے تاریخ کے گم گشتہ اوراق میں مستور کرنا چاہالیکن جب اس سے بھی بات نہیں بنی تو پارلیمنٹ کی کارروائی کو ہی ریکارڈ سے ہٹادیاگیا۔
طاقت کے زعم میں آج حکومت بھلے ہی سوالات کو صرف نظر کرے، تنقید اور نکتہ چینی کو پائوں تلے روند ڈالے لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ان سوالات کی گونج ختم ہونے والی نہیں ہے۔ تنقید کو حملہ اور سوال کو ملک دشمنی ٹھہراناجمہوریت نہیں آمریت کہلاتا ہے۔جمہوریت کے حوالے سے جارج سوروس کے بیان کو ملک پر حملہ بتانے سے پہلے حکومت کو اپنی شفافیت کے دعویٰ پر پورا اترنا ہوگا۔ صنعت کار اڈانی گروپ کے معاملے میں پردہ پوشی کی کوششیں کام آنے والی نہیں ہیں۔
[email protected]