بغاوتوں کا براعظم

0

اگست کے وسط میں افریقہ کے ملک گیبون میں صدر علی بونگو کے خلاف تختہ پلٹ ہوا اور چھ دہائیوں کے بعد بونگو خاندان کے اقتدار کازوال ہوا۔ فرانس اور دیگر ملکوں نے اس تختہ پلٹ پراگرچہ بہت محدود ردعمل ظاہرکیا مگر یہ بغاوت گزشتہ تین سالوں میں ہونے والی بغاوتوں کا وہ لامتناہی سلسلہ تھا جو تھمتا نظر نہیں آرہاہے۔ گیبون کا شمار افریقہ کے خوش حال ملکوں میں ہوتا ہے۔ گیبون میںعلی بونگو کی خاندان کے اقتدارکے خلاف کافی دنوں سے لاوا پک رہاتھا۔ تمام وسائل کے باوجود عام شہری کی زندگی بہت مشکل تھی۔ آسودگی حاصل تھی مگر اس سب کے وہ اقتدار پرقابض تھے۔ ناراضگی عوامی سطح پرتھی اور جب اقتداران کے ہاتھ سے گیا تو گلی محلوں میں جشن کا ماحول تھا۔ 2020سے لے کر اب تک مغربی ساحل خطے میں یہ نویں بغاوت تھی۔
ساحل کے خطے کے مفلوک الحال لوگوں کے ملک مالے میں جب 2020میں بغاوت ہوئی تو اس کا زبردست خیرمقدم ہوا۔ اس وقت بھی ایک فوجی ٹولے نے تعاون کی تھی۔ پھر ایک اور فوجی ٹولہ سرگرم ہوا اور مئی 2021میں کرنل اسیمی گرئیٹا(Assimi Goia)نے بغاوت کردی۔ اس بغاوت پر جشن منایاگیا۔ خاص طور پر فرانس کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔ چار ماہ بعد ایک اور بغاوت گنیا میں ہوئی اور پھر تو بغاوتوں کاتانتا سالگ گیا۔ سوڈان میں عمرالبشیرکے طویل اقتدار کے خلاف 2021میں فوج نے بغاوت کی اور وہاں ایک عبوری فوجی انتظامیہ اقتدارمیں آیا۔ اس نے جلدانتخابات کرانے کاوعدہ تو کیا مگر اس پرعمل نہیں کیا۔ سوڈان میں کشت وخون کابازار گرم رہا اور عوامی احتجاجوں کے بعد دو فوجی سرداروں نے جب جمہوریت کی بحالی اور انتخابات کرانے کا فارمولہ سامنے رکھا تو فوجی جنرلوں میں پھوٹ پڑگئی،بدترین خانہ جنگی شروع ہوگئی اور جمہوریت کی تحریک ختم ہوگئی ہے اور اب چھ ماہ سے دونوں میں زبردست جنگ چل رہی ہے۔ اب تک ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاتعداد لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ 2023کے اوائل میں ساحل کے ایک اور خطے چاڈ میں فوجی کارروائی میں صدر ادریس الدیبی مرگئے تو ان کے بیٹے نے بغاوت کرکے عبوری انتظامیہ کی باگ ڈور سنبھال لی۔ الیکشن کرانے کاان کا موڈبھی نہیں لگتا،وہ فرانس کے منظور نظر ہیں اور پیرس سے ہی کنٹرول ہورہے ہیں۔
اسی طرح برکینافاسو میں2022میں فوجی بغاوت ہوئی۔ 26جولائی2023کو تیل، سونے اور یوینیم کی دولت سے مالامال نائیجر میں بغاوت ہوئی اور جمہوری طورپر منتخب صدر محمدبازوم جواپنے باپ کی موت کے بعد لگاتار 2009سے صدر ’منتخب‘ ہوتے چلے آرہے تھے، پھرمنتخب ہوچکے تھے مگر فوج نے ان کو اقتدار سے بے دخل کرکے صدارتی محل پر قبضہ کرلیا۔ انتخابات میں بدترین تشدد، لوٹ مارکرانے والے بازوم مغرب کے ایوان اقتدار میں بہت مقبول تھے۔ لگاتار بغاوتوں کے پیش نظر کئی پڑوسی ممالک اور اس میں اقتدار سے چمٹے حکمرانوں کے آقاؤں کے کان کھڑے ہونے لگے ہیں اوران بغاوتوں کے سلسلے کو سامراجی طاقت کے خلاف نیا نشاہ ثانیہ قرار دیاجارہاہے۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS