سوڈان میں ہورہاہے شہ مات کا کھیل

0

مغربی ممالک میں افریقہ کے کئی خطوں میں روس کی مداخلت پر تشویش کااظہار کیا جارہاہے اور ان ممالک میں تازہ ترین ملک سوڈان ہے جہاں جمہوریت پسندوں نے ملک میں ایک نمائندہ اورجمہوری حکومت بنانے کے لیے زبردست طریقہ سے مہم چھیڑی ہوئی ہے اور مغربی ممالک جمہوری مہم کو جس کو پیشہ وروں، دانشوروں اور مزدور یونین چلارہی ہیں، ہرقسم کا تعاون دے رہے ہیں۔
اپریل 2019میں سوڈان میں عمرالبشیر کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے فوج نے اپنی گرفت بنائی تھی مگر معزول حکمراں عمرالبشیر نے بھی اقتدار سے بے دخل ہونے سے قبل روس کی پناہ اختیارکی تھی وہ 2017میں روس گئے تھے اور ساچی میں روسی صدر ویلادیمیرپتن سے ملاقات کرکے اس حکومت کو بچانے کے لیے مدد طلب کی تھی۔ آج افریقہ کے مختلف ملکوں میں روس اور ان کے مددگار ومعاون ویگنرگروپ کے لیے راستے کھلے ہوئے ہیں۔ آج ساحل اور قرن افریقہ (Horn of Africa)افریقہ کہلائے جانے والے خطے میں روس کا اچھا خاصا دبدبہ ہے اور سوڈان کے موجودہ حکمراں برہان نے تو روس کے ساتھ تعاون کو ایک بلند اور ناقابل واپسی مقام پر پہنچادیاہے۔ روس، سوڈان کے لیے فوجی بیڑے بنانے میں مدد کررہاہے۔
سوڈان نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کی دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آلات اور جدید ہتھیار مہیا کرائے۔ اس خطے میں روس ایک جنگی بیڑے کا خواہش مند تھا۔آج کے بدلتے ہوئے حالات میں روس کی یہ خواہش پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ 2021کے اواخر سے روس نے اس ضمن میں کسی سمجھوتے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اس نئے بیڑے میں روس کے 300فوجی موجود ہوں گے۔بحراحمر میں اس کے چار بحری جہاز ہیں، جس میں ایک بحری جہاز میں نیوکلیئر سہولیات بھی ہوں گی۔
ظاہر ہے کہ اس کا اثر بحرہند پربھی پڑے گا اور اس خطے میں بھی روسی بیڑے کی موجودگی معنی خیز ہوگی۔ سوڈان اور روس کے درمیان 25سال کا سمجھوتہ ہواہے اور اس میں یہ التزام بھی ہے کہ اگر کسی فریق کو اعتراض نہیں ہوا تواس سمجھوتے میں مزید دس سال کی توسیع کی جاسکتی ہے۔ اس سمجھوتے کو روس اس خطے میں اپنی بڑی جیت کے طورپردیکھ رہا ہے۔ اس بابت دونوں ملکوں کے سمجھوتے پر تبصرہ کرتے ہوئے روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے کہاہے کہ مغربی ممالک ان کے ملک کو الگ تھلگ کردیناچاہتے تھے مگر وہ اپنی سازشوں میں ناکام ہیں۔
امریکہ، سوڈان کی فوجی حکومت کے خلاف ہے اور اس پر پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔
پچھلے دنوں روسی وزیرخارجہ افریقہ اورمشرق وسطیٰ کے کئی ممالک گئے تھے اورانہوں نے روس کی افریقہ میں موجودگی کو مضبوط کرنے کے لیے مالے، موریٹینا، سوڈان اور عراق کا دورہ کیا ہے۔ اس سے قبل وہ جنوبی افریقہ، اسواتنی، انگولہ اور ایریٹریا کا بھی دورہ کرچکے ہیں۔اس طرح روس اپنا اثر ورسوخ بڑھانے کی مہم میں کافی کامیاب ہے۔
سوڈان پراقوام متحدہ نے بھی پابندیاں عائد کررکھی ہیں۔ یہ پابندیاں 2005سے جاری ہیں۔ یہ پابندیاں دارفر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرعائد کی گئی ہیں۔ سوڈان چاہتاہے کہ اس پر عائد پابندیوں کو واپس لے لیاجائے۔دارفر کا تنازع 2003 میں شروع ہواتھا اور وہاں کے مسلح گروہوں نے معزول حکمراں عمر البشیر کے خلاف بغاوت کردی تھی۔ اہل دارفر کا شکوہ تھا کہ ان کے خطے کو نظرانداز کیاجارہاہے اور وہاں فوج میں بے چینی کو دبانے کے لیے بدترین مظالم کررہی تھی۔
عمر البشیرانٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) کو مطلوب ہیں۔ 2009میں ان کے خلاف وارنٹ جاری کیا گیا تھا۔ بعدازاں 2019میں ان کے خلاف قتل عام (Genocide)کے الزامات بھی عائد کردیے گئے تھے۔ عمر البشیر سوڈان میں تین دہائیوں تک اقتدار پرجمے رہے اور آج بھی سوڈان میں فوجی ٹولہ حکمراں ہے اور جنرل عبدالفتح برہان جمہوری تحریک کو دبا کر اور کھل کر اقتدار سے چمٹے ہوئے ہیں۔ عمرالبشیر کے زوال کے بعد جو عارضی مقتدر گروپ (Transitional Military Council) کام کررہاہے، اس کے سربراہ عبدالفتح جنرل برہان جو اقتدار میں برسراقتدار رہنے کاہرہتھکنڈا اختیار کررہے ہیں۔ سوڈان میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے جو طاقتیں کام کررہی ہیں، ان میں تقسیم اور اختلاف رائے کوہوا دے کر وہاں نظام حکومت کسی منتخب گروپ یا جماعت کے حوالے کرنے میں آنا کانی کی جارہی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی مخالفت کا مقابلہ کرنے کے لیے روس کا سہارا لیاجارہاہے۔n

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS