ماں کی سنیں یا بیوی کی ‘مردوں کا ایک ایسا مسئلہ جو صدیوں سے موجودہے

0

عام طور پر شادی کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ لڑکی کے لیے بہت مسائل ہوتے ہیں اور اس کو نئے گھر اور نئے ماحول میں ایڈجسٹ کرنا ہوتا ہے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شادی کے بعد جس طرح لڑکی کی زندگی میں تبدیلی آتی ہے ویسے ہی مرد کی زندگی بھی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے-
ماں اور بیوی کے درمیان توازن رکھنے کی کوشش میں وہ نہ صرف خود کو ہلکان کر لیتے ہیں بلکہ کئی بار یہ بات جاننے کے باوجود کہ ان کی بیوی حق پر ہے وہ بیوی کا ساتھ نہیں دے سکتے ہیں- اور ماں کی ضد کے سامنے بے بس ہو جاتے ہیں-
جب کسی بھی شادی شدہ جوڑے کو یہ خوشخبری ملتی ہے کہ وہ امید سے ہیں اور ان کے گھر کوئی خوشخبری آنے والی ہے تو ان کی خوشی مثالی ہوتی ہے۔ مگر یہ خوشی صرف ان کی خوشی نہیں ہوتی ہے بلکہ دادا ،دادی سب ہی اس بات سے بہت خوش ہوتے ہیں- مگر اس کے ساتھ ہی ایک نئی جنگ بھی شروع ہو جاتی ہے۔ جس کے مطابق ساس کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ بچے کی ڈیلیوری اس کے تجربات کی روشنی میں کروائی جائے جبکہ دوسری طرف بہو جو کہ موجودہ زمانے کی لڑکی ہوتی ہے وہ اپنی ضد پر قائم ہوتی ہے-اکثر ساسیں اس بات پر بضد نظر آتی ہیں کہ بہو کی بھی ڈیلیوری اسی طرح سے ہو جس طرح سے ان کے بچوں کی ڈیلیوری ہوئی چاہے وہ ڈیلیوری گھر پر ہو یا پھر محلے کے کسی میٹرنٹی ہوم میں ، ان کو وہی جگہ سب سے زيادہ قابل اعتبار نظر آتی ہے-
مگر بہو کو ایک طرف سے تو اس کے میکے کی جانب سے رہنمائی مل رہی ہوتی ہے اور دوسری جانب وہ ایک نئے دور کی لڑکی ہوتی ہے اور ایسے وقت میں کسی رسک لینے کا سوچ نہیں سکتی ہے- وہ اکیسویں صدی کی لڑکی ہونے کی وجہ سے ماضی کی عورتوں کی طرح خاموشی سے سسرال والوں کی ماننے کے بجائے اپنے فیصلے خود کرنے پر یقین رکھتی ہے- جس کی وجہ سے ساس بہو میں ایک کھینچا تانی کی کیفیت ہو جاتی ہے-
نو مہینے وہ عرصہ ہوتا ہے جس میں ایک جانب تو بیوی کے حمل کے سبب مرد اس کی دیکھ بھال کی اضافی ذمہ داری بھی سنبھال رہا ہوتا ہے- اور اس کی پوری کوشش یہی ہوتی ہے کہ بیوی کا ہر ممکن خیال رکھے تاکہ وہ صحت مند بچے کا باپ بن سکے- اور دوسری طرف ماں کو راضی رکھنا بھی اس کے لیے ضروری ہوتا ہے ورنہ اس پر زن مرید کا لیبل لگا دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ماں کی حکم عدولی سے بھی کتراتا ہے- ایسی صورت حال میں اکثر اوقات مرد حضرات ماں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں- اور بیوی کی ڈیلیوری ماں کی بتائی ہوئی دائی یا پھر کسی عام سے محلے کے میٹرنٹی ہوم میں کروانے کے لیے راضی ہو جاتے ہیں جہاں پر ماں اور بچے دونوں کے لیے سہولیات ناکافی ہوتی ہیں- مگر ماں کو راضی کرنے کے لیے وہ اپنی بیوی اور بچے کی جان کا رسک لینے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تاکہ ان کو کوئی زن مرید نہ کہے-
ایسے کئی واقعات کے نتیجے میں نہ صرف ڈیلیوری کے وقت مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے بلکہ اکثر اوقات بڑا نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے- اور پہلی بار کی ڈیلیوری میں ہونے والی پیچیدگی ساری زندگی ساتھ چلتی ہے-
یہ وقت بہت ذمہ داری کا وقت ہوتا ہے بطور مرد اپنے خاندان کی حفاظت کی ذمہ داری شوہر کی ہی ہوتی ہے- اور اس وقت میں کسی بھی تنازع سے بچنے کے لیے کیا جانے والا ایک غلط فیصلہ آپ کو ساری عمر کا روگ بھی دے سکتا ہے- اس وجہ سے اس وقت میں ڈیلیوری کروانے سے قبل ہسپتال کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے اور اس کے لیے صرف ماں کے ماضی کے تجربات پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کرنا چاہیے- کیوں کہ وقت بدل چکا ہے اور آج کل کے زمانے میں ناخالص غذاؤں اور مصنوعی ماحول کے سبب لڑکیاں ماضی کی خواتین کی طرح مضبوط اور طاقتور نہیں ہوتی ہیں- اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے بھی جدید ہسپتالوں میں ایسی سہولیات موجود ہیں جہاں پر ان کو ہر طرح کی فوری طبی امداد دی جا سکتی ہے-
آپ کا انتخاب چاہے سرکاری ہسپتال ہو یا پرائيویٹ ہسپتال، اس کے حوالے سے مکمل تحقیق ضرور کریں کہ وہاں کے ڈاکٹر تجربہ کار ہیں یا نہیں، وہاں پر زجہ بچہ کے لیے مکمل سہولیات موجود ہیں یا نہیں- اس کے ساتھ ساتھ مردوں کو یہ بھی چاہیے کہ ماں کو یہ بات سمجھائیں کہ یہ وقت ضد کا نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ مناسب فیصلے کرنے کا ہے ۔ پرانے وقت میں جبکہ عورتیں گھر پر ہی ڈیلیوری کروا لیتی تھیں تو اس وقت سہولیات بھی ناکافی تھیں- مگر اب جیسے ہم لینڈ لائن سے موبائل فون کے دور میں داخل ہو چکے ہیں تو ڈلیوری کے لیے بھی صرف تجربہ کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور بھی چیزیں دیکھنا ضروری ہوتی ہیں تاکہ زچہ اور بچہ کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے-

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS