یوگیندر یادو
کرناٹک میں گھومتے ہوئے ہمارا یہ تیسرا دن تھا اور آخر کار ہماری ایک ایسے ووٹر سے ملاقات ہو ہی گئی جو کانگریس کو چھوڑ کر اب بی جے پی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس وقت ہم یالا ہانکا اسمبلی حلقے میں ہیں جو کہ بنگلور کے نواحی علاقے میں پڑتا ہے۔ ہم چک منگلور سے واپس لوٹ رہے تھے ۔ ہمارے ساتھ عظیم پریم جی یونیورسٹی کے پروفیسر اے نرائنن تھے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کرناٹک کی سیاست کا انسائیکلو پیڈیا ہیں۔ ہمارے ساتھ این اے ایم اسماعیل تھے جو کہ کننڑ کے سینئر صحافی ہیں۔ اس کے علاوہ سنکیت ناگراج انگاڑی ہی تھے جو کہ ایک بہت سرگرم سوشل ورکر ہیں اور کننڑ زبان سے اچھا ترجمہ کرتے ہیں۔ یہ ہمارا پسندیدہ کام تھا ۔ ہاں ہم کو بہت اچھا لگتا ہے کہ ہم الیکشن کے دوران بغیر کوئی منصوبہ بنائے لوگوں سے ملنے کے لیے نکل پڑیں اور جہاں چاہیں رک جائیں اور جس موضوع پر چاہیں بات کرلیں۔ لہٰذا ہماری مختلف لوگوں سے ملاقات ہوئیں جو 10مئی کی الیکشن میں ووٹ ڈالنے جا رہے تھے۔ ا ن میں کانگریس ، بی جے پی اور جنتا دل سیکولر کے وفادار بھی تھے جوکہ اب کانگریس کو ووٹ دیناچاہتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جنتا دل ایس کے لیے ووٹ کرنے کے خواہشمند تھے۔ مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو کہ اپنی مرضی نہیں بتانا چاہتے تھے۔ لیکن ابھی تک ہم کو کوئی ایسا شخص نہیں ملا تھا جو کہ پچھلی مرتبہ یا اس سے پہلے کانگریس کو ووٹ دیتا رہا ہو۔ مگر اب بی جے پی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہو۔ میں نے کہاکہ یہ خاص قسم کی ہوا ہے۔
کانگریس کی ہوا
یہ شخص جو اب کانگریس کو ووٹ دینے کے بعد اس مرتبہ بی جے پی کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتا ہے اس کی عمر تقریباً 40سال تھی وہ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک گلی کے نکڑ پر چائے پی رہا تھا۔ سنکیت نے اس شخص کے انداز دیکھ کر اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی سن کر یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ یقینا بی جے پی کی طرف جائے گا۔ ہم کو اس سے مل کر ایسا لگا کہ ہم نے جنگل کے آخر میں کسی شیر کو دیکھ لیا ہو۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ بی جے پی سے کیا امید لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر اس نے ہندی میں کہا کہ’’ بی جے پی غریب کو مار دے گا۔‘‘ مجھے اس کی بات سن کر بہت حیرانی ہوئی اور میں نے اس سے پوچھا کہ وہ موجودہ وزیراعلیٰ بسو راج بومئی اور سدھا رمیا کے درمیان کس طرح سے مقابلہ کریں گی۔ اس مرتبہ اس نے خالص کننڑ زبان میں کہا ’’آپ ان دونوں کے مقابلہ کرہی کیسے سکتے ہیں۔‘‘ اس نے اشارہ سے کہاسدھا رمیا اتنے اوپر ہیں۔ اس کے اس اشارے کو کسی ترجمے کو ضرورت نہیں تھی۔
مگر میں نے سوال پوچھا بھائی تم بی جے پی کو ووٹ دے کیوں رہے ہو لیکن اب تک تم کانگریس کو ووٹ دیتے رہے۔ وہ میری بات پر مسکرایا اور اس نے کہا کہ اس کے علاقے میں رہنے والا لیڈر حال ہی میں کانگریس سے بی جے پی میں آیا ہے۔ یہ زندگی کے ہر مرحلے میں ہمارے دکھ اور درد میں شریک رہا ہے۔ اب ہم اس کا ساتھ دیں گے۔ یہ پہلا شخص تھا جو ہماری نظر میں آیا جو اب کانگریس سے بی جے پی کی طرف آنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اب تک جو لوگ اپنے ووٹ دینے کے پیٹرن میں تبدیلی کررہے تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے جو کہ بی جے پی اور جنتا دل (ایس) کو ووٹ دیتے تھے مگر اب کانگریس کو ووٹ دینے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ مگر ایک کیس ایسا تھا جس میں ایک شخص نے کہا تھا کہ کانگریس کو ووٹ دیتا رہا ہے مگر اس مرتبہ جنتا دل (ایس)کو ووٹ دے گا۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کانگریس کی ہوابن رہی ہے۔ 2018میں کانگریس نے بی جے پی کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔ مگر اس کو بی جے پی سے کافی کم سیٹیں ملی تھیں۔ جتنے بھی معتبر انتخابی سروے سامنے آئے ہیں ان میں یہ دکھایا گیا ہے کہ ووٹرو ںکا یہ فرق لگاتار بڑھ رہا ہے۔ سسرو نے جنوری میں جو سروے پیش کیا تھا اس میں بتایا گیاتھا کہ بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ووٹ شیئر میں چار فیصد کافرق آیا ہے۔ سی ووٹر نے حال ہی میں کہاہے کہ یہ فرق بڑھ کر چھ فیصد ہوسکتا ہے ۔ جبکہ لوک نیتی اور سی ایس ڈی ایس نے جو این ڈی ٹی وی کے لیے سروے کیا ہے اس میں بھی تقریباً اسی صورت حال کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جبکہ ایک اور سروے کرنے والی ٹیم ای ڈینا ڈاٹ کام نے کہا ہے کہ کانگریس 10فیصد تک زیادہ ووٹ حاصل کرسکتی ہے۔
اینٹی ان کمبنسی
اس ہوا کا وبراہ راست اثر یہ دیکھائی دے رہا ہے کہ بی جے پی کی بومئی سرکار کس طرح سے کام کر رہی تھی۔ اس کا اثر صاف دکھائی دے رہا ہے۔ میری کسی بھی ایسے شخص سے ملاقات نہیں ہوئی ہے جو کہ جوش خروش کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوکہ وہ بی جے پی کو ووٹ دے گا۔ ہاں جب بھی ہم نے بومئی سرکار کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو ہمارا سامنا ایک احمقانہ خاموشی اور پھیکی مسکراہٹ سے ہوا۔ عام طور پر یہ لوگ کہتے تھے کہ ہم بومئی سرکار کو ووٹ نہیں دے رہے بلکہ ہم مودی کو ووٹ دے رہے ہیں۔ کسی بھی بی جے پی کو ووٹ دینے والے شخص نے بومئی سرکار کا دفاع نہیں کیا۔ اور کسی بھی شخص نے بومئی سرکار پر 40فیصد کرپشن کے الزامات کا دفاع کرنے کی جرأ ت نہیں کی۔ اکثر بی جے پی کو ووٹ دینے والے یہی جواب دیتے تھے کہ ’’تو کیا ہوا ۔ اس میں نیا کیا ہے۔ کونسی سرکار کرپٹ نہیں ہے ؟ کیا کانگریس کرپٹ نہیں تھی؟ ‘‘
اسی قسم کے خیالات کا اظہار کئی سروے ڈاٹا میں سامنے آیا ہے۔ میں کئی سال سے ڈاٹا کی ریسرچ کررہا ہوں ۔ میں نے ہمیشہ یہ پایا کہ آپ اگر کسی شخص سے اس کے ووٹ دینے کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ان سے یہ پوچھئے کہ کیا وہ موجودہ سرکار کو ایک اور دفعہ موقع دیں گے؟ پچھلی مرتبہ جب کانگریس نے الیکشن ہارے تھے تو اس وقت کانگریس کی مخالفت کرنے والے ووٹوں کی تعداد برابر تھی۔ اس مرتبہ یہ شرح بالکل الگ ہے۔ سی ایس ڈی ایس سروے میں تقریباً 1.7کے مقابلے میں ایک کا تناسب سامنے آتا ہے۔ اڈیناایس کے سروے میں یہ تناسب 1:2کا ہے ۔کچھ سیٹوں پر بی جے کو سبقت حاصل ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ممبر اسمبلی نے مقامی سطح پر اچھا کام کیا ہے۔ ای ڈینیا کے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ موجودہ حکومت کے مقابلے میں ممبر اسمبلی سے ناراضگی کم ہے۔ کرناٹک میں اکثر ووٹرس ہر مرتبہ حکومت کو بدلتے ہیں۔ یہ رویہ کئی دہائیوں سے چلا آرہا ہے۔ اس مرتبہ بھی صورت حال مختلف ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
فرقہ وارانہ تقسیم
آپ جس قدر اندر کی طرف جاتے ہیں کانگریس کی ہوا اتنی ہی دکھائی دیتی ہے۔ کسی بھی غریب ووٹر کے منہ سے بی جے پی کے لیے کوئی اچھا لفظ نہیں نکلا۔ میںنے پہلا بھی ہے کہ اس مرتبہ کرناٹک کے الیکشن میں غریب اور امیر کی تقسیم صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اگر ووٹر زیادہ امیر ہے تو وہ کانگریس سے کم آگے ہے۔ اس سے بالکل مختلف صورت حال بی جے پی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ یہ بات بالکل واضح طور پر زمینی سطح پر دکھائی دے رہی ہے۔ جیسے ہی کسی غریب آدمی سے بات کرتے ہیں وہ روز مرہ کی اشیا کی گرانی کے بارے میں بتانا شروع کردیتا ہے کہ ان کا حاصل کرنا کتنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس معاملہ میں گیس سلینڈر کی قیمتیں سرفہرست ہیں۔’’ اس سے پہلے ہم کھانا ، لکڑی سے پکا رہے تھے انہوںنے ہم کو گیس دیا اب ہم پھر لکڑی کی طرف واپس نہیں جاسکتے اور حالات یہ ہیں کہ گیس سلنڈر کا خریدنا ہماری بساط سے باہرہو گیا ہے۔ ہر شخص نے شکایت کی کہ ان کو ملنے والا مفت چاول جو کانگریس کے دور حکومت میں 10کلو مل رہا تھا اب صرف 5کلو ہی مل رہا ہے۔ اس کے بعد پٹرول اور ڈیزل کی قیمتو ںکا نمبر آتا ہے ۔ کسانوں کی شکایت کھاد کے بارے میں ہے۔ وہ کسان سمان ودھی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوںنے ہم کو 2000روپے دیے ۔ مگر اس سے زیادہ ہماری جیب سے نکال لیے۔ عام آدمی اب جی ایس ٹی کے بارے میں زیادہ جاننے لگا ہے اور اب وہ حیران کن حد تک اس بات کو کہہ رہا ہے کہ جی ایس ٹی کی وجہ سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔
غریب لوگ بی جے پی کو ووٹ نہیں دے رہے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے حلقے کے امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سرپرست اور صارف کے درمیان کی ایک رشتہ ہے جس کے تحت یہ ووٹ دیے جارہے ہیں۔ وہ لوگ جو غریب ہیں مگر بی جے پی کو ووٹ دینا چاہتے ہیں مگر نہیں دیتے۔ کیونکہ وہ اس پارٹی کو اپنی پارٹی نہیں سمجھتے۔ ساحلی علاقوں میں صورت حال قدر مختلف ہے ان علاقوں میں بی جے پی نے اپنی جڑ بنا لی ہے۔
سدھا رمیا غریبوں میں کافی مقبول ہیں۔ یہاں پر غریب لفظ کی تشریح وہ نہیں ہے جو سرکاری معنوں میں ہے۔ اس زمرے میں ہم تین چوتھائی آبادی کو رکھ سکتے ہیں جو کہ گائوں میں رہتی ہے اور اس زمرے میں وہ50فیصد آبادی بھی آتی ہے جو شہروں میں رہتی ہے۔اگر آپ غریبوں کی ہمدردی سے محروم ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ووٹروں کی اکثریت کی حمایت سے محروم ہورہے ہیں۔
کوئی فرقہ وارانہ زوایہ نہیں ہے
اس ہوا کو کسی فرقہ وارانہ دیوار سے روکا نہیں جاسکتا ہے۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کرناٹک کے سیاسی مباحثے میں آتی ہی نہیں ہے۔ ہم نے جن لوگوں سے بات کی ان میں کسی بھی نے اس وقت ہندو مسلم کا سوال نہیں اٹھایا جب تک ہم نے اس طرح توجہ نہیں دلائی۔ یہ عجیب سی بات ہے کہ اس ریاست کے بارے میں جہاں پر حجاب ، اذان، لوجہاد اور بجرنگ دل کے معاملے پر سرخیاں اخباروں کی زینت بن رہی ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ کرناٹک کی سیاست سے فرقہ وارانہ تفریق ختم ہوگئی ہے۔ کرناٹک کی سیاست پر نظر رکھنے والے ماہرین کاکہنا ہے کہ ریاست میں فرقہ وارانہ تفریق اور کشیدگی کافی حد تک عوامی شعور میں پیوست ہوگئی ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ کرناٹک کے ووٹر اس الیکشن میں اس ایشو کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ بات 2022کے اترپردیش کے الیکشن کے دوران ہمارے سفر میں جو تاثرات نکل کر سامنے آئے تھے اس سے مختلف تھے۔ وہ لوگ بھی جنہوںنے سماجوادی پارٹی کو ووٹ دیا تھا انہوںنے بھی سرکشا کی بات کی تھی جس میں فرقہ وارانہ پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ کرناٹک میں جہاں پر مسلمان ریاست کے ذریعہ پھیلائی جارہی فرقہ وارایت ہے وہاں پر بھی یہ معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔ عوام کے درمیان ایک ایسا کرب محسوس ہوتا ہے کہ جس کے بارے میں کچھ بولا نہیں جاسکتا۔ ان کے اوپر ایک بوجھ ہے جو ان کے قوم پرستی ثابت کرنے کو لے کر ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ نفرت کو نظرانداز کردیں ۔ ہندوئوں کے لیے فرقہ واریت پہلی جیسی ترجیح نہیں رہی ۔ مسلمانوں کے لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ فرقہ واریت کو پیچھے کی طرف دھکیلیں۔ مجھے لگتا ہے کہ بی جے پی کی مایوسی اور جھنجھلاہٹ میں اٹھائے جانے والے اقدام یعنی ریاست میں فرقہ وارانہ درجہ حرارت کو بڑھانے کی کوشش کی ناقص کاکردگی کے اثرات زائل ہوجائیں گے۔
کرناٹک کی سڑکوں پر اس مرتبہ ایک نئی چیز دکھائی دے رہی ہے۔ وہ ہے یہاں کے سڑکوں پر بل بورڈ وں کی غیر موجودگی۔ آپ کو سڑکوں پر نہ تو بڑے بڑے بل بورڈ دکھائی دیں گے نہ تو دیواروں پر لکھے نعرے ۔ کہیں کہیں فلیکس بورڈ تو دکھائی دیتے ہیں۔ گاڑیوں پر بھی بہت ہی کم تعداد میں نعرے لکھے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کہیں پس منظر میں چلے گئے ہیں اور مجھے لگتاہے کہ اس دفعہ کے الیکشن کافی مہنگے ہوں گے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کرناٹک کے الیکشن میں آپ 10کروڑ روپے خرچ کرکے الیکشن ہار سکتے ہیں اور الیکشن جیتنے کی قیمت 20سے 40کروڑ کے درمیان ہوسکتی ہے۔ اس کھیل سے کوئی پارٹی بچی ہوئی نہیں ہے۔ حالانکہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی اخراجات کے معاملے میں کانگریس سے کہیں زیادہ آگے ہے۔ کرناٹک کے گلی کوچوں میں جو افواہیں اور سرگوشیاں چل رہی ہیں یہ سنا ئی دیتی ہیں وہ ہیں کہ کونسی پارٹی کس کو اپنے ساتھ لے کر آئی ہے۔ کس گروپ نے کس کا ساتھ دیا ہے اور کس کا چھوڑ دیا ہے ۔ کون کس کا ووٹ کاٹ رہا ہے اور وہی تمام مباحثے سرگوشیاں ہیں جو ہمارے جمہوریت کا حصہ ہے لیکن پھر بھی ایک ایسا ہاتھ ہے جو کہ دکھائی نہیں دے رہا ہے اور شاید یہ وہی ہاتھ ہیں جو کہ کانگریس کے لیے فضا سازگار کررہا ہے۔ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ چلچلاتی دھوپ کے بعد شام کو ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلا ہے۔ تمام اشارے اور علامات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ ایک طاقت ابھر رہی ہے جو موجودہ حکومت کے نظام کو چیلنج کرسکے گی۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ بے اطمینان ایک پانی کی طرح ہیں جو اپنا راستہ اپنے آپ بنا لیتی ہے۔
کرناٹک کا انتخابی منظر نامہ اور کانگریس
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS