سیاست ایسا حیرت کدہ ہے جہاں تبدیلی کیلئے برسوں اور دہائیوںکاانتظار نہیں کیاجاتا ہے بلکہ آنے والا ہر لمحہ تبدیلی کا نقیب ہوتا ہے۔ اس حیرت کدہ میں کچھ ’ راہ نما‘ ایسے ہوتے ہیں جو غور و فکر کے پردے میں اپنی پست ہمتی چھپائے رہتے ہیں تو کچھ حوصلہ مند اور مہم جو ایسے بھی ہیں جو تمام رکاوٹوں کو بصدحقارت نو ک پا سے ٹھکراتے ہوئے نقیب کی آواز پر لبیک کہتے ہیں۔ ایسے ہی حوصلہ منداور مہم جو سیاست دانوں میں شردپوا ر کا بھی شمار ہوتا ہے۔اپنے فیصلوں سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دینے کی شہرت رکھنے والے شرد پوار نے اچانک اپنی پارٹی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی(این سی پی) کے عہدۂ صدارت کو چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔عام قاعدہ ہے اور سیاست میںیہ روایت بھی رہی ہے کہ سیاست داں اپنی سبکدوشی سے پہلے پارٹی میں اختلاف، اپنی بڑھتی عمر اور گرتی صحت وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے پہلے دھیرے دھیرے اپنی سرگرمی کم کرتے ہیں اور لوگوں کو بالواسطہ پیغام دیتے ہیں لیکن شرد پورا نے ایساکچھ نہیں کیا، نہ اس کا کوئی پیشگی عندیہ دیا نہ کچھ دنوں تک منظر نامہ سے اوجھل رہے بلکہ عین سیاسی ہنگاموں اور سرگرمی کے درمیان اچانک ہی دھماکہ کردیا کہ وہ این سی پی کاعہدۂ صدارت چھوڑرہے ہیں ۔
سیاسی رتوں کی پیش بینی میں شرد پوار کو یدطولیٰ حاصل ہے اور وہ بجا طور گرگ باراں دیدہ سیاست داں ہیں، ان کی کہی ہوئی ایک چھوٹی سی بات بھی ہندوستان کی سیاست میں بڑامقام رکھتی ہے لیکن اتنے بڑے فیصلے کا انہوں نے اس طرح اچانک اعلان کیوں کیا، یہ ایک معمہ بن گیا ہے۔ ان کے اس اعلان سے یہ بھی سوال کھڑا ہوگیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسے وقت میں این سی پی کاعہدۂ صدارت چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا جب مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ ملک کی سیاست میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ یہ تو ابھی کی بات لگتی ہے کہ انہوں نے دہلی میں کانگریس کے صدر ملکا رجن کھڑگے اور راہل گاندھی سے ملاقات کے بعد اپوزیشن اتحاد کی کوششوں کا نئے سرے سے آغاز کیا تھا۔اس میٹنگ کے بعد اپوزیشن کی سوکھی رگوں میں لہو جوش مارنے لگا، آمد بہار کی نویدیں سنائی دینے لگیں، ممتابنرجی اور نتیش کمار بھی بہار نو کیلئے آرائش جمال میں مصروف ہوگئے لیکن شرد پوار کے اچانک فیصلہ نے اس ناآمدہ بہار کی رونق ہی لوٹ لی اور اپوزیشن اتحادکے چمن پر بجلی گرادی۔
شرد پوارکے اس اچانک فیصلہ کی وجہ کیا ہے یہ تو وہی بہتر بتاپائیں گے لیکن شنید ہے کہ کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے اور راہل گاندھی سے ملاقات کے چند دنوں بعد ان کی ملاقات معروف صنعت کار اور سرمایہ دار گوتم اڈانی سے بھی ہوئی تھی اور کہاجا رہاہے کہ اپنے اپنے شعبہ کے دونوں نابغہ نے دو گھنٹے تک بند کمرے میں بات چیت کی تھی۔ اس ملاقات کی تفصیلات تو منظرعام پر نہیں لائی گئیں اورنہ مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہی نظر آتا ہے لیکن حالات پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ ہنڈن برگ کی رپورٹ منظر عام پرآنے کے بعد اپوزیشن کے مطالبات اور پارلیمنٹ میںہنگاموں کے درمیان شرد پوار جس طرح صنعت کار گوتم اڈانی کے ساتھ کھڑے ہوئے، اس سے یہی لگ رہاہے کہ این سی پی کا عہدۂ صدارت چھوڑنے کے اچانک اعلان کے پس پشت انتہائی طاقتور محرک ہے۔ ویسے بھی شرد پوار کی ایک صفت صنعت کار دوست سیاست داں ہونا بھی ہے اور غالباً یہی دوستی نبھاتے ہوئے انہوں نے اپوزیشن کو بالواسطہ مشورہ دیاتھاکہ وہ صنعت کاروں کے گروپ پر حملہ نہ کریں۔ معمر سیاست داں نے تنازعات میں گھرے ہوئے گوتم اڈانی کی تعریف و توصیف بھی کی تھی اور کہا تھاکہ وہ بہت محنتی، سادہ اور زمین سے جڑے ہوئے صنعت کار ہیں۔ ان کے خلاف سازش کی جارہی ہے اور انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایاجارہاہے۔شرد پوار نے اس معاملے میں اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی کے مطالبہ کی حمایت بھی نہیں کی تھی۔پھر سونیا گاندھی کی جانب سے بالواسطہ فہمائش پر اپنے موقف سے رجوع کرلیا اوربظاہر اپوزیشن کے چمن کی آبیاری میں لگ گئے۔اب انہوں نے این سی پی کا عہدۂ صدارت چھوڑنے کا اعلان کردیا ہے۔
غالباًیہ ان کی سیاسی فہم اور آنے والے موسموں کی آہٹ محسوس کرنے کا وجدان ہے کہ انہوں نے صرف عہدۂ صدارت چھوڑنے کا اعلان کیا ہے تاکہ باغباں بھی خوش رہے اور صیاد کی رضابھی انہیں حاصل ہو۔اگر قرعہ فال بدستور بی جے پی کے نام نکلے تو وہ معتوب نہ ہوں اور اگر اپوزیشن اتحاد کے سر پر کامیابی کا سہرا بندھے تو وہ شاہ سازکاکردار اداکرسکیں اور ممکن ہو توخودشاہ بن سکیں۔یہ سیاست کا حیرت کدہ ہی ہے کہ جہاں بسنے والے پانی میں اتر کر بھی اپنا دامن تر نہیں ہونے دیتے۔
[email protected]
باغباں کوخوش اور صیاد کو بھی راضی رکھنے کا ہنر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS