یہ بے خودی بے سبب نہیں۔۔۔

0

صبیح احمد

آج کل بی جے پی اور آر ایس ایس دونوں ہی تنظیمیں مسلمانوں کو اپنے قریب لانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے ایک نئی ترکیب وضع کی ہے۔ سیدھی انگلی سے نہیں تو ٹیڑھی انگلی سے ہی صحیح۔ اسی حکمت عملی کے تحت مسلمانوں کی اکثریتی آبادی ’پسماندہ مسلمانوں‘ پر ڈورے ڈالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے۔ ویسے تو پوری مسلم کمیونٹی ہی پسماندہ ہے لیکن بی جے پی مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں تک پہنچنے کی یہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی پہلی کوشش ہے۔ دونوں تنظیمیں ایک عرصہ سے ہندو-مسلم اتحاد کی بات کر رہی ہیں۔ بی جے پی کے قیام کے بعد سے ہی بہت سے مسلم رہنما اس کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل رہے ہیں۔ سکندر بخت کی مقبولیت عام لوگوں میں بھلے ہی کم رہی ہو لیکن پارٹی تنظیم میں ان کی اہمیت اٹل بہاری باجپئی اور ایل کے اڈوانی جیسی ہی رہی۔ سنگھ نے کئی مواقع پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ اسے ان مسلمانوں سے کوئی مسئلہ نہیں ہے جو ہندوستان کو اپنی مادر وطن مانتے ہیں اور اس کی ثقافت کو اپنا سمجھتے ہیں۔ اس کی جھلک 2018 میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کے بیان میں بھی نظر آتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ ہندوستان مسلمانوں کے بغیر نامکمل ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے اور دونوں اس ملک کے اصل باشندے ہیں۔ اس ملک کی ثقافت کو بچانا بھی دونوں ہی کی ذمہ داری ہے۔
درحقیقت آر ایس ایس اور بی جے پی کی پوری سیاسی حکمت عملی اب تک قومی انتخابات میں 37.36 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ یہ پہلے ہی گجرات، مدھیہ پردیش اور دہلی جیسی کئی ریاستوں میں 51 فیصد کی نفسیاتی حد کو عبور کر چکی ہے۔ کیرالہ جیسی ریاستوں میں بی جے پی کی لاکھ کوششوں کے بعد بھی وہ ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ بی جے پی کو ملنے والے کل ووٹوں میں سب سے بڑا ووٹ بینک ہندو ووٹروں کا ہے۔ ملک کے کل ووٹروں کا تقریباً 67 فیصد ووٹ بینک ابھی تک اس کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر اپوزیشن اس غیر بی جے پی ووٹ بینک کو مہنگائی، بے روزگاری جیسے بڑے ایشوز کے ساتھ جوڑنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو وہ 2024 میں نریندر مودی کی راہ میں مشکلات کھڑی کر سکتی ہے۔ اگر بی جے پی کو زیادہ دیر تک اقتدار میں رہنا ہے تو اسے اپنا بنیادی ووٹ بینک بڑھانا ہوگا۔ لیکن چونکہ ہندو ووٹروں میں اس کی مقبولیت اب رک گئی ہے، اس لیے یہ اضافی ووٹ بینک صرف مسلم ووٹروں میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ مسلم ووٹروں کے درمیان بہتر طریقے سے پہنچنے کی سنگھ پریوار کی کوششوں کو بھی اس انتخابی حکمت عملی سے جوڑا جا سکتا ہے۔
بی جے پی دراصل ’پسماندہ‘ کا استعمال کرکے اپوزیشن جماعتوں کو کمزور کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی کس طرح چھوٹی پارٹیوں کی مدد سے ’پسماندہ مسلمانوں‘ کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتی ہے، یہ بات بہار کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے بخوبی سمجھی جا سکتی ہے۔ 2010 میں نتیش کمار کی قیادت میں این ڈی اے کی حکومت دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ بہار میں قائم ہوئی۔ نتیش کمار کے انتخابی نعرے گڈ گورننس اور مافیا کو ختم کرکے امن و قانون کو مضبوط کرنا ان کی جیت کی کئی وجوہات میں سے ایک تھی۔ یہی نہیں، نتیش کمار نے ذات پات کے تال میل کو بہت شاندار طریقے سے اپنے حق میں کیا تھا جس کی وجہ سے پسماندہ مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی نے این ڈی اے کو ووٹ دیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کی اتحادی پارٹیاں اے آئی اے ڈی ایم کے، اپنا دل، نشاد پارٹی، جے جے پی، راشٹریہ ایل جے پی، بی پی ایف، اے جی پی، آئی پی ایف ٹی وغیرہ پسماندہ مسلم طبقہ کو جوڑنے کے لیے دیگر چھوٹی معاون پارٹیوں کے توسط سے اپنے ماسٹر پلان کو نافذ کریں گی۔ یعنی انتخابات میں یہ پارٹیاں مسلم اکثریتی نشستوں پر پسماندہ برادری کے لیڈروں کو ان کے انتخابی نشان پر ٹکٹ دیں گی۔ بھلے ہی یہ پارٹیاں الیکشن نہ جیت سکیں لیکن مسلم ووٹوں کو تقسیم کرنے اور اپوزیشن پارٹیوں کو کمزور کرنے میں اہم رول ادا کریں گی۔
اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے ذریعہ راہل گاندھی نے بہت حد تک سنگھ اور بی جے پی کی مبینہ فرقہ وارانہ سیاست پر حملہ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس دوران کانگریس نے سنگھ کی علامت ’ہاف خاکی پینٹ‘ میں آگ لگنے کا اشارہ دے کر خوب سرخیاں بٹوری تھیں۔ اس سے کہیں نہ کہیں سنگھ کی شبیہ پر اثر پڑا ہی ہوگا۔ اگر مسلمانوں کا ایک طبقہ بی جے پی اور سنگھ کی حمایت میں آجاتا ہے تو کانگریس کا یہ حملہ کافی حد تک کمزور ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سنگھ اور بی جے پی مسلمانوں کو اپنے ساتھ جوڑ کر راہل گاندھی کے اس حملے کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ روایتی طور پر یہی مانا جاتا رہا ہے کہ مسلم ووٹر بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ نہیں دیتا۔ لیکن پچھلے کئی انتخابات میں بی جے پی کے اس اعتماد میں اضافہ ہوتا گیا ہے کہ وہ مسلم ووٹروں کو بھی اپنے ساتھ لا سکتی ہے۔ 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابات اور 2017 اور 2022 کے یوپی اسمبلی انتخابات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ خواہ کم تعداد میں ہی صحیح، بی جے پی کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے۔ اگر اسے مسلمانوں کا ووٹ نہیںملا ہوتا تو اس کے لیے ایسی بہت سی سیٹوں پر کامیابی حاصل کرنا ناممکن تھا جہاں صرف مسلم ووٹر ہی فیصلہ کن ہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار پر اگر یقین کیا جائے تومرکزی حکومت کی فائدہ مند اسکیموں (راشن-پی ایم آواس، اجولا یوجنا اور کسان سمان ندھی) کا سب سے زیادہ فائدہ پسماندہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کو ہی ملا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ان غریب مسلمانوں نے ہی خاموشی کے ساتھ بی جے پی کی حمایت کی جس کی وجہ سے 2017 اور 2019 کے انتخابات میں بی جے پی کی قسمت چمک اٹھی۔ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں تک اپنی رسائی میں اضافہ کر کے اسی بنیاد کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
حال ہی میں سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کچھ سرکردہ مسلم شخصیات سے ذاتی طور پر ملاقات کی تھی۔ میٹنگ میں دونوں برادریوں کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کے ممکنہ اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس سے قبل مسلمانوں کی ایک تنظیم کے رہنما نے بھی موہن بھاگوت سے ملاقات کی تھی۔ اس میٹنگ پر بھی کافی بحث و مباحثہ ہوا۔ موہن بھاگوت کی یہ میٹنگیں اگر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بہتر بنانے کے لیے ہو رہی ہیں تو یہ بہت ہی اچھی بات ہے اور اس طرح کے روابط اور بات چیت کا سلسلہ آگے بھی جاری رہنا چاہیے کیونکہ کسی بھی مسئلے کا حل باہمی بات چیت سے ہی نکلتا ہے۔ موجودہ حالات میں اس طرح کی پیش رفت کو مثبت زاویہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بشرطیکہ یہ کھلے دل و دماغ اور نیک نیتی پر مبنی ہو اور قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ بی جے پی کی سیاست بہت لچکدار رہی ہے اور اس کے لیڈر آفت میں بھی موقع تلاش کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ زیادہ دن نہیں ہوئے جب بی جے پی نے این ڈی اے کی تشکیل کے لیے دفعہ 370 اور رام مندر جیسے ایشوز کو پس پشت ڈال دیا تھا، لیکن اقتدار میں آتے ہی اس نے کیا کیا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایسے میں اگر بی جے پی کو پسماندہ مسلمانوں کا تھوڑا سا بھی ووٹ ملتا ہے تو لوگوں کو بی جے پی کی بدلی ہوئی شکل دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS