حساس ایشو عدالت میں زیر سماعت ہو تو اس پر فیصلے کا انتظار بڑی شدت سے رہتا ہے اور فیصلہ آنے کے بعد اس پر بحث و مباحثے کا ایک سلسلہ سا چل پڑتا ہے مگر فیصلے پر بحث کرتے وقت یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ انصاف دینے میں تاخیر انصاف دینے سے انکار کے مترادف ہوتا ہے اور یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ہمارے ملک کی عدالتوں پر مقدموں کا پہلے ہی بہت بوجھ ہے۔ ایسی صورت میں عدالتیں کئی معاملوں میں چاہ کر بھی فوراً انصاف نہیں دے سکتیں۔ اس کے باوجود عدالت عظمیٰ نے 6 مہینے کے انتظار کے بغیر طلاق کو ممکن قرار دیا ہے تو اس پر تاثراتی بحث چھیڑنے کے بجائے سنجیدگی سے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے یہ فیصلہ کیوں دیا ہے۔
طلاق کو کسی بھی مہذب سماج میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ طلاق سے رشتے ختم ہوتے ہیں اوراس کا اثر دو لوگوں کی زندگیوں پر ہی نہیں پڑتا، ان سے وابستہ لوگوں پر بھی پڑتا ہے لیکن اگر یہ سچ ہے کہ کچھ معاملوں میں طلاق دینے والے شریک حیات کی مذموم حرکتوں سے دلبرداشتہ نہیں ہوتے، وہ اپنی انا میں کسی چھوٹی بات کو خواہ مخواہ بڑی بنا دیتے ہیں اور مردانگی دکھانے کے لیے شریک حیات کو طلاق دے دیتے ہیں تو سچ یہ بھی ہے کہ بیشتر معاملوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ طلاق دینے سے پہلے بہت غور و غوض کیا جاتا ہے، خاص کراس صورت میں جب بچے بھی ہوں، کیونکہ طلاق دینے پر ان کے متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، زندگی بھر کے لیے وہ ماں باپ کو ساتھ دیکھنے، دونوں کی موجودگی میں ایک ساتھ خوشیاں منانے کے لیے ترس جاتے ہیں اور اس کا اثران کی زندگی پر پڑتا ہے۔اس کے باوجود اگر طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا تو یہ عام صورتحال نہیں ہوتی۔ اسلام میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر کسی غلط فہمی یا کسی ایسی وجہ سے بات طلاق تک پہنچی ہے توپھر جو وجہ معافی سے ختم ہو سکتی ہے، ختم کی جائے تاکہ میاں بیوی پہلے کی طرح زندگی بسرکر سکیں۔ اسی لیے عورت کے تین طہر تک ازدواجی زندگی میں لوٹ آنے کا موقع رہتا ہے مگر یہ اسلامی طریقہ ہے اور کئی لوگ مذہب دیکھ کربھی طریقے اپناتے ہیں، اس لیے وہ ان طریقوں پر بھی بلاتامل تنقید کرتے ہیں جنہوں نے دنیا میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ طلاق ثلاثہ پرجس طرح کی باتیں کی گئیں، وہ اس کی مثال ہیں مگرکسی ایشو کو سمجھے بغیر اس پرشورکرنا ٹھیک نہیں، اس لیے امید کی جاتی ہے کہ طلاق پر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ یہ بات فہم سے بالاتر نہ رہے کہ عدالت عظمیٰ نے طلاق کو 6مہینے کے انتظار کے بغیر ممکن کیوں قرار دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو اس طرح نہیں سمجھنا چاہیے کہ جیسے ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ ہوتا ہے، اسی طرح طلاق دینا بھی اب آسان ہوگا، البتہ ایسا ضرور لگتا ہے کہ عدالت عظمیٰ نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ طلاق تک پہنچ گئے رشتے سے وابستہ لوگ عام حالات میں نہیں ہوتے، وہ کورٹ کچہری کے زیادہ چکر کاٹنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے، چنانچہ انہیں مزید ذہنی الجھنوں سے بچانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ’اگر شادی اس حد تک پہنچ جائے، جہاں صلح کی گنجائش نہ ہو تو اس بنیاد پرعدالت طلاق کی منظوری دے سکتی ہے۔‘ اور جوڑا فیملی کورٹ سے طلاق لینے کے بجائے براہ راست سپریم کورٹ سے طلاق لے سکتا ہے۔ دراصل عدالت عظمیٰ میں کئی عرضیاں دی گئی تھیں اور ان میں یہ بات کہی گئی تھی کہ باہمی اتفاق سے بھی کیا طلاق لینے کے لیے انتظار کرنا ضروری ہے؟ عرضیوں کے توسط سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہندو میرج ایکٹ کی دفعہ 13B کے تحت باہمی اتفاق سے طلاق کے لیے ضروری انتظارکی مدت میں چھوٹ کیا دی جا سکتی ہے یا چھوٹ دینا ممکن نہیں؟ یہ معاملہ 29 جون، 2016 کو آئینی بینچ کے پاس گیا تھا۔ سماعت کے بعد عدالت عظمیٰ نے 29 ستمبر، 2022 کو فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اورآج سنایا ہے۔ جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس اے ایس اوکا، جسٹس وکرم ناتھ، جسٹس جے کے ماہیشوری کی بینچ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عدالت آئین کے آرٹیکل 142 کے تحت ملے اختیار کا استعمال کر سکتی ہے اور باہمی اتفاق سے طلاق کے لیے 6 مہینے کی ضروری انتظار کی مدت کو کچھ معاملوں میں ختم کر سکتی ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ عدالت عظمیٰ کا یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔ اس کے اثرات آنے والے وقت میں نظرآئیں گے۔
[email protected]
طلاق پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS