پروفیسر اخترالواسع
جنم دہلی کا گزشتہ ایک ہزار سال سے زیادہ عرصے میں کوئی ایک روپ نہیں رہا۔ اب تک دہلی آٹھ جنم لے چکی ہے۔ 1911سے پہلے جو دہلی تھی وہ شاہجہان آباد کہلاتی تھی اور وہ اس کا ساتواں جنم تھا۔ اس دہلی کو شاہجہان بادشاہ نے آباد کیا تھا۔ وہ شاہجہاں جس نے اس ملک کو تاج محل کا حسن، لال قلعہ کی پختگی اور شاہجہانی مسجد کا تقدس عطا کیا۔ یہ دلّی کیا تھی بلکہ عالم انتخاب تھی جس کے گلی کوچے نہ ہوکر اوراق مصور تھے۔ حضرت دہلی کے پہلے قصیدہ گو حضرت امیر خسروؔ تھے لیکن ان کی دلّی مہرولی، سیری، تغلق آباد وغیرہ سے عبارت تھی۔ دہلی کے آخری مرثیہ گو الطاف حسین حالیؔ تھے جن کے نزدیک زندوں کی بات ہی کیا:
چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہہ خاک
دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز
اب جب کہ آٹھوں دلّی ایک دوسرے میں ضم ہوتی چلی گئی ہیں اور اب ایک قومی راجدھانی علاقے کی ضامن ہے۔ پہلے 1947 میں تقسیم وطن نے لوگوں کو اپنی دلّی چھوڑنے پر مجبور کیا تو اب دیکھتے ہی دیکھتے گنجان آبادیوں سے گھبراتے ہوئے لوگوں نے ادھر ادھر نکلنا شروع کر دیا ہے۔
یہ شاہجہان آباد یعنی فصیل بند شہر تھا جس کی وہ زبان معیاری اور ٹکسالی تھی جو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر سنی اور بولی جاتی تھی اور جہاں خواجہ حسن نظامی کے اردو بازار میں اب کتابوں کی جگہ کبابوں کی دکانیں جگہ لے رہی ہیں۔ مولوی سمیع اللہ کا عزیزیہ کتب خانہ تو ہے لیکن اس کتب خانے کے باہر بیٹھنے کا کوئی سامان نہیں۔ اب میرؔ، ذوقؔ، غالبؔ اور داغؔ تو بڑی بات ہے، سائلؔ، بیخودؔ اور انتہا یہ کہ استادرساؔ جیسے لوگ بھی ناپید ہیں۔ کیا اشخاص، کیا محلے، کیا کوچے، کیا گلیاں، نئی تعمیرات نے تقریباً سب کا تشخص چھین لیا ہے۔ وہ تو خدا بھلا کرے کہ انجمن ترقی اردو ہندکا، جو کبھی بابائے اردو اور پنڈ ت برج موہن دتّاتریہ کیفی کے ساتھ دریا گنج میں ہوا کرتی تھی اور تقسیم کے بعد کچھ عرصے کے لیے ذاکر صاحب (ڈاکٹر ذاکر حسین) جسے اپنے ساتھ علی گڑھ لے گئے تھے وہ پھر ایک بار راؤز ایوینیو(دین دیال اپادھیائے مارگ) میں واقع اپنے اردو گھر میں آ بسی۔ انجمن نے ہندوستان میں اردو زبان کے حوالے سے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے۔ دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کو خاموشی سے زوال پذیر ہوتے ہوئے دیکھا۔ بہار، آندھرا پردیش (موجودہ تلنگانہ سمیت)، مہاراشٹر، کرناٹک اور بنگال میں اردو کے تحفظ اور بقا کو یقینی بنایا، اس کے لائق و فائق موجودہ صدر پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی اور جواں سال، جواں ہمت، جواں فکر جنرل سکریٹری ڈاکٹر اطہر فاروقی کی قیادت میں ایک نیا سفر شروع کیا ہے اور اکیسویں صدی میں اردو کے حوالے سے بہت کچھ کام کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسی سلسلے کا ایک کام یہ بھی ہے کہ شاہجہان آباد کے حوالے سے جو مستند، معتبر اور تاریخی اعتبار سے پختہ ثبوت والی کتابیں ہیں اور اس شہر کے جو مختلف پہلو ہیں، ان کو اپنے سہ ماہی جریدے اردو ادب میں جمع کر دیا ہے۔ پروفیسر عرفان حبیب نے انجمن ترقی اردو ہند کے زیراہتمام ایک سمینار میں جو کلیدی خطبہ دیا تھا، اس میں صرف شاہجہاں آباد نہیں بلکہ دہلی کی 11صدیاں سمٹ آئی ہیں۔ اسی طرح پروفیسر شریف حسین قاسمی نے خسرو کی دہلی کے نام سے ہمیں مغلوں سے پہلے کی دہلی، جو کہ مملوک، خلجی، تغلق، سادات، لودھی اور سوری خاندانوں کے بادشاہوں کا تذکرہ محفوظ کر دیا ہے۔ محمود فاروقی کی عوامی پہچان آج کل ایک داستان گو کی ہے لیکن ان کے علم و فضل کی گہرائی کا انداز ہ نہیں لگایا جا سکتا۔ انہوں نے 1857 میں دہلی کیا تھی، اس پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ اسی طرح علی ندیم رضوی نے شاہجہان آباد کا تصور مدنیت اور سہیل ہاشمی نے شاہجہان آباد کے شاہی دسترخوان پر اپنے قلم سے ایک دفعہ پھر اس عہد کو زندہ کر دیا ہے اور کس طرح مختلف کھانوں میںاستعمال ہونے والے اجزا اور پکانے کے طریقوں میں جو فرق آیا اس سے متعارف کرایا ہے۔ محترمہ سونل نے مغل برطانوی ہندوستان میں خلعت کی روایت اور مغل حکومت کے زوال کی تاریخ کو اس کے حوالے سے پیش کیا ہے۔ اسی طرح محترمہ سوپنا لڈل نے شاہجہان آباد کی تعمیر، اس کی تعمیر میں حصہ لینے والوں، سب کا تذکرہ ’’جواب کاہے کو تھا، لاجواب تھی دہلی‘‘ میں کیا ہے۔
سیرالمنازل اور آثارالصنادید دونوں انتہائی اہمیت کی حامل کتابیں ہیں۔ سیرالمنازل کو لیکن اولیت کا یہ شرف حاصل ہے کہ یہ سرسید کی کتاب سے بیس برس پہلے لکھی گئی۔ ان دونوں کتابوں کی اہمیت یہ ہے کہ ان میں دہلی کی عمارتوں اور ان پر نقش کتبات کا بہترین ذخیرہ ہے۔ اگرچہ سیر المنازل میں ان کی تعداد زیادہ ہے لیکن سرسید کے نام اور کام کو جو شہرت ملی وہ غیر معمولی ہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ دونوں کتابیں برطانوی استعماریت کے زمانے میں لکھی گئیں بلکہ سیرالمنازل تو اس کے مصنف سنگین بیگ نے چارلس مٹکاف اور ولیم فریزر کے کہنے پر ہی لکھی اور سیرالمنازل کے لیے سنگین بیگ کو انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا تھا۔ سرسید کی آثارالصنادید ان کے تاریخی ذوق و شوق کی سب سے آخری لیکن مہتم بالشان یادگار ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے یوروپ کے علمی حلقوں میں ان کی پذیرائی بھی ہوئی اور انہیں ایل ایل ڈی کی ڈگری (LLD)سے بھی سرفراز کیا گیا۔ اس کتاب میں دہلی کی عمارتوں، محلوں، ممتاز ترین افراد کا تذکرہ موجود ہے۔
واقعاتِ دارالحکومت دہلی دراصل ڈپٹی نذیر احمد کے بیٹے جناب بشیرالدین احمد کی علمی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ بقول فیروز دہلوی ’’یہ کتاب نہیں بلکہ شاہجہان آباد کی دو صدیوں کی تاریخ کا ریکارڈ ہے۔‘‘ اور ڈاکٹر اطہر فاروقی نے کیا صحیح کہا ہے کہ ’’واقعات دارالحکومت دہلی کی سماجی زندگی کا دارالمعارف ہے۔‘‘ اس کتاب کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ اگرچہ یہ آثارالصنادید کے 75 سال بعد لکھی گئی لیکن اُس کا ایجاز اس کی تفصیل میں پنہاں ہے۔
پون کمار ورما ہندوستان کی وزارت خارجہ میں مختلف اہم مناصب پر فائز رہے ہیں۔ دہلی میں بَلّی ماران اور گلی قاسم جان کے نکّڑ پر واقع غالب کی حویلی، جو آج ساری دنیا کے لیے توجہ اور کشش کا سبب بنی ہوئی ہے، پون کمار ورما کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ پون کمار ورما پیشے سے سفارتکار لیکن ان کے جمالیاتی ذوق نے انہیں اپنی تاریخ سے کبھی دور نہیں ہونے دیا۔ ان کی اور علمی فتوحات تو اپنی جگہ ہیں لیکن ان کی کتاب پرانی دہلی کی حویلیاں شاہجہان آباد کو ایک نئے انداز سے پیش کرتی ہے۔ تحریر اور تصویر کی آمیزش نے اس کو اور زیادہ بامعنی اور معلومات افروز بنا دیا ہے۔ اس پوری کتاب پرانی دہلی کی حویلیاں کا ترجمہ ڈاکٹر اطہر فاروقی نے جو ترجمے کے بھی بادشاہ ہیں، بہت خوب صورت انداز سے ہمارے سامنے پیش کیا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ شاہجہان آباد کی مختلف حویلیوں اور عمارتوں کی سندیپ شنکر کی تصاویر سے مزین ہی رکھا ہے۔
انجمن ترقی اردو ہند نے یہ خاص نمبر شائع کرکے نہ صرف تاریخ کے طالب علموں، اپنی تہذیب و ثقافت سے دلچسپی رکھنے والوں اور اپنی زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے ایک بہت شاندار سوغات پیش کی ہے جس کے لیے وہ ہم سب کے شکریہ کے مستحق ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب کہ بعض تنگ نظر افراد اور ادارے مغلوں کی تاریخ کو نصاب سے خارج کرنے پر لگے ہوئے ہیں، اس طرح کی کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ زندہ قومیں تعصب اور تنگ نظری کا مسکت جواب اسی طرح دیتی ہیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس ]اسلامک اسٹڈیز[ ہیں۔)
[email protected]