خواجہ عبدالمنتقم
پولیس انکاؤنٹر میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے ہمارے ملک میں الگ سے کوئی قانون نہیں ہے۔ انہیںملک میں رائج تعزیری قانون کے تحت ہی سزا دی جاتی ہے البتہ سپریم کورٹ اور قومی انسانی حقوق کمیشن اس ضمن میں وقتاً فوقتاً ہدایات جاری کرتے رہے ہیں۔حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2017 سے جنوری 2022 تک ان انکاؤنٹرز میں 655 لوگوں کی موت ہو چکی تھی۔اس کے بعد بھی انکاؤنٹرز کا یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔
سپریم کورٹ نے پرکاش کدم بنام رام پرشاد وشوناتھ گپتا(اے آئی آر2011ایس سی1945) والے معاملے میں اپنی اس رائے کا اظہار کیا تھا کہ فرضی پولیس انکاؤنٹر انتہائی بے رحمی سے کیے گئے قتل عمدکے درجہ میں آتا ہے اور اسے نادر میںبھی نادر ترین معاملہ سمجھا جانا چاہیے اور ایسا کرنے والوں کو سزائے موت دی جا نی چاہیے مگر یاد رہے کہ کسی بھی پولیس انکاؤنٹر کو تب تک فرضی نہیں کہا جاسکتا جب تک کہ وہ فرضی ثابت نہ ہوجائے۔اس کے بعدستمبر 2014 میں سپریم کورٹ نے پی یو سی ایل بنام ریاست مہاراشٹر(2014)ایس سی سی635)والے معاملے میں یہ کہا تھا کہ پولیس انکاؤنٹرز پر بغیر سوچے سمجھے اور حقائق کا پتہ لگائے بغیر افسران اور پولیس اہلکاروں کو انعام واکرام سے نہ نوازا جائے چونکہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ ہمارے ملک میں ایسے کتنے ہی فرضی انکاؤنٹر ہوچکے ہیں اور ان کے فرضی ہونے کی تصدیق بھی ہوچکی ہے۔
پولیس کے ساتھ مبینہ فرضی انکاؤنٹرسے متعلق سپریم کورٹ کے متذکرہ بالافیصلوں کی اہمیت تاہنوز برقرار ہے بشرطیکہ ان کی کما حقہ قدر کی جائے اور ان پر دیانتداری اور سختی سے عمل کیا جائے اور قصورواروں کوبہ اعتبار نوعیت و شدت جرم بر وقت سزا دی جائے۔
آئیے اب اس پس منظر میں آخر الذکر فیصلے میں شامل ہدایتی خطوط، ان کے نفس موضوع اور ان کی تاکیدی و قانونی حیثیت پر غور کریں۔اس فیصلے میں 16نکاتی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔ان میں سے کچھ اہم ہدایات مندرجہ ذیل تھیں:
٭ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جب بھی پولیس کو کسی مجرمانہ فعل کے بارے میں کوئی خفیہ جانکاری ملے تو اسے یہ چاہیے کہ وہ سب سے پہلے روزنامچے میں اس کا اندراج کرے۔ اگر انکاؤنٹر میں پولیس کے ذریعہ کسی آتشی ہتھیار کا استعمال کیا گیا ہے اور اس کے باعث کسی کی موت ہوگئی ہوتو سب سے پہلے ایف آئی آر درج کی جانی چاہیے چونکہ ایف آئی آر کو ہی ابتدائی پرچۂ واردات کا درجہ حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ انکاؤنٹر کے بعد کسی خفیہ ایجنسی یا دیگر کسی تھانے کے اہلکاروںاور عہدیداروںکے ذریعہ آزادانہ تفتیش کرائی جانی چاہیے مگر یہ تفتیش کسی سینئر افسر کی نگرانی میں ہونی چاہیے۔
٭ سپریم کورٹ کا کہنا تھاکہ انکاؤنٹر کے بعدمجموعہ ضابطہ فوجداری، 1973 کی دفعہ176کے تحت مجسٹریٹ کی سطح پر تحقیقات فوراً شروع ہوجانی چاہیے۔ مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ176 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر پولیس کی تحویل میں کسی شخص کی موت ہوجاتی ہے تو قریب ترین مجسٹریٹ کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ موت کا سبب جاننے کے لیے خود تحقیقات کرے یا پولیس سے کرائے یا پولیس کے ذریعہ کی جانے والی تحقیقات کے ساتھ ساتھ خود بھی تحقیقات کرے۔اگر نعش دفن کر دی گئی ہو یا دبا دی گئی ہو مگر موت کا سبب جاننے کے لیے اسے باہر نکلوانا ضروری ہو تو وہ اسے باہر بھی نکلوا سکتا ہے۔ تحقیقات کے دوران رشتہ داروںکوحاضر رہنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ رشتہ داروں سے صرف والدین،اولاد،بھائی بہن اور حسب صورت شوہر یا بیوی مراد ہیں۔
٭ سپریم کورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر یہ بات علم میں آجاتی ہے کہ کسی پولیس افسر یا اہلکارنے کوئی ایسی کارروائی کی ہے یا کسی ایسے فعل مجرمانہ کا ارتکاب کیا ہے جو مجموعہ تعزیرات بھارت کے تحت جرم ہے تو اسے فوراً معطل کردیا جانا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے خلاف محکماتی جانچ کی شکل میں تادیبی کارروائی بھی شروع کردینی چاہیے۔
٭ اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب بھی کوئی پولیس انکاؤنٹر ہوتا ہے تو متعلقہ پولیس افسر یا افسران کی صرف میڈیا ٹرائل کی بنیاد پر واہ واہ ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی افسراپنی جان پر کھیل کر ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتا ہے تو وہ یقینی طور پر انعام واکرام کا حقدار ہے لیکن سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ایسا تبھی کیا جانا چاہیے جب عدالت کے ذریعہ یہ ثابت ہوجائے کہ مڈبھیڑ فرضی نہیں تھی اور یہ کہ پولیس کا دعویٰ بالکل صحیح ہے۔
٭ سپریم کورٹ کی ایک اور ہدایت کے مطابق متاثر خاندان کو اگر یہ محسوس ہوکہ معاملے کی جانچ صحیح طریقے سے یعنی قواعد وضوابط کے مطابق نہیں کی جارہی ہے تو وہ متعلقہ سیشن عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔
٭ سپریم کورٹ نے جائے واردات پر متاثر شخص یا متوفی کا رنگین فوٹوکھینچنے، اس کے بال اور دیگر اشیاء کا نمونہ لینے کی بھی ہدایت دی تھی حالانکہ ایسا تو معمول کے مطابق کیا ہی جاتا ہے اور ایسے موقع پر جو جو اشیاء قبضے میں لی جاتی ہیں ان کی باقاعدہ فردمقبوضگی بنائی جاتی ہیں۔ اس میں فردمقبوضگی آلۂ جرم، فردمقبوضگی پارچات خون آلود، فرد جامہ تلاشی وغیرہ شامل ہوتی ہیں۔
٭ سپریم کورٹ نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ موقعۂ واردات پر موجود افراد کا بطور گواہ بیان لیا جانا چاہیے اور ان کا پتہ اور ٹیلی فون نمبر وغیرہ بھی ریکارڈ میں درج کیا جانا چاہیے۔
٭ کبھی کبھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کی صداقت کی بابت بھی شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اس طرح کی صورت حال سے بچنے کے لیے یہ ہدایت دی تھی کہ متوفی کا پوسٹ مارٹم ضلع اسپتال کے دو ڈاکٹروں کے ذریعہ کیا جانا چاہیے اور اس پورے عمل کی ویڈیو ریکارڈنگ کی جانی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ اس واقعہ میں استعمال کیے گئے ہتھیار اور گولیوں وغیرہ کو بھی قبضہ میں لے کر بحفاظت رکھا جانا چاہیے۔
٭ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ متاثر شخص کو فوری طور پر طبی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں اور اس کی موت ہوجانے کے بعد متوفی کے رشتہ داروں کو اس واقعہ کی اطلاع دی جانی چاہیے، اس کے ساتھ ہی ایف آئی آر کی کاپی فوراً عدالت کو بھیجی جانی چاہیے۔
٭پولیس کو اس بات کی وضاحت بھی کرنی ہوگی کہ آخر انکاؤنٹر کس بنیاد پر کیا گیا ہے اور انکاؤنٹر میں شریک پولیس اہلکاروں کو فوراً اپنے ہتھیار جمع کرانے ہوںگے۔
٭اس طرح کے معاملے میں متاثر شخص، متاثرین، متاثر خاندان یا خاندانوں کو معاملے کی نوعیت اور جرم کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے معقول معاوضہ دیا جانا چاہیے۔
یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ قومی انسانی حقوق کمیشن بھی انکاؤنٹر ز سے متعلق متذکرہ بالا ہدایات سے ملتی جلتی ہدایات جاری کرتا رہتا ہے اور اس قسم کے واقعات کا از خود نوٹس بھی لیتا رہا ہے او ر متعلقین کو نوٹس بھی جاری کرتا رہا ہے جیسا کہ اس نے عتیق اور اشرف کے معاملہ میں بھی کیا ہے۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]