مغربی ایشیا میں جو حالات کروٹ لے رہے ہیں اس کا اثرپوری دنیا اور ہر اتحاد اور دفاعی گروپ پر نظرآرہا ہے۔ پورا یوروپ ، امریکہ، افریقہ اور ایشیا میں اس کی بازگشت محسوس کی جارہی ہے۔ اس ضمن میں دنیا کے سب سے طاقتوراور ترقی یافتہ ممالک کے اتحاد گروپ 7 کے ممالک میں بے چینی محسوس کی جارہی ہے اورجلد ہی گروپ 7 ممالک کی کانفرنس میں طاقتور مغربی ممالک کے اتحاد کے لئے اس صورت حال پر غور کیا جائے گا۔ دراصل یہ ممالک جوکہ صنعتی اور اقتصادی طاقتیں اس خطے میں اپنے گھٹتے اثرورسوخ کولے کرمتفکر ہیں۔
مغربی ایشیا کے ممالک مغربی دنیا کی فکرات اور تحفظات نظرانداز کرکے علاقے میں ایک پرسکون ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ فکر ان ممالک کو شام کی ہے جس کو لے کر امریکہ اور ناٹو کے حلیف ممالک بشارالاسد سے قطعی تال میل نہیں کرنا چاہتے ہیں اور گھڑی کی چوتھائی میں بشارالاسد کی حکومت کو مٹی میں ملا دینا چاہتے ہیں۔10مارچ کو سعودی عرب اور ایران کے ماضی کی تلخیوں کو بالائے طاق رکھ کر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لئے ایک سمجھوتہ پر دستخط کئے تھے اور رفتہ رفتہ وہ ممالک جو ان دونوں ممالک کی تلخیوں کی وجہ سے الگ حکمت عملی اختیار کئے ہوئے تھے اورجس سے پورے خطے کے امن و امان اور اقتصادی ترقی بے حد متاثرہوئی تھی۔ کئی ملکوں میں پراکسی وارسے بھاری جانی ومالی نقصان ہورہا تھا۔ مغربی ممالک ان باہم متصادم ممالک اور ان ممالک کے اندر کی خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام میں فریق بن گئے تھے اور 2011 سے جاری اس غیریقینی صورت حال کے باوجود آج بھی امریکہ، روس، ترکی وغیرہ انخلا کے لئے تیار ہیں۔ اس بابت سب سے خراب صورت حال اگرکسی ملک کی ہے تو وہ شام ہے جہاںابھی بھی امریکہ اور روس اپنے اپنے حلیفوں کو اقتصادی، عسکری اور بین الاقوامی سطح پر سفارتی سپورٹ دے رہے ہیں۔
گروپ 7 جوکہ دنیا کے طاقتور معیشتوں پر مشتمل گروپ ہے۔ اس میں فرانس، برطانیہ، جرمنی، اٹلی، کناڈا، ا مریکہ اور جاپان شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ممالک چین کے ذریعہ کی گئی کئی مصالحت اورخطے میں چین کے بڑھتے عمل دخل پر تومتفکر ہے مگران کوارض فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی کا ذرا بھی ملال نہیں ہے اورنہ ہی اس مقبوضہ سرزمین کی آزادی اور فلسطینیوں کے انسانی اور سیاسی حقوق کی ان لوگوں کو فکر ہے۔ ابھی تک مغربی ممالک اوران کے حلیفوں میں ایران کے نیوکلیر پروگرام کی فکر ہے۔ گروپ 7 کے ممالک کولگتا ہے کہ مغربی ایشیا خانہ جنگی اور برادرکشی کا اس طرح اڈہ بنا رہے ، یہاں کے بھولے بھالے عوام مغربی ممالک کی ہوس اور جنگی جنون کا لقمہ بنتے رہیں۔ عراق کی بدترین مثال ہمارے سامنے ہے جہاں سے 20سال بعد بھی آج تک وہاں نہ پانی ہے نہ روٹی ہے اور نہ بجلی ہے اور اس طرح یہ اپنا الوسیدھا کرتے رہیں۔ یہاں پر یہ کہنا غیرمناسب نہیں ہوگا کہ یوکرین جنگ نے امریکہ اور یوروپی ممالک کے درمیان اختلافات کو طشت از بام کیاہے اور ان کے دوغلے رول بھی دنیا کے سامنے آگئے ہیں۔ فرانس اور جرمنی نے ابھی حال ہی میں امریکہ کی پالیسیوں پر آمنا صدقنا کہنے اور آنکھ بند کرکے اس کی پیروی کے لئے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان دونوں ملکوںکے لیڈروں نے چین کا دورہ کرکے یہ باور کرادیا ہے کہ یوروپ کی سرزمین پر قتل و جدال تکلیف ہے۔ ان دونوں ممالک نے امریکہ کے لئے الگ حکمت عملی اختیارکرنے کی بات اشاروں اشاروں میں کہی ہے۔
مغربی ایشیا کی سب سے ہم سیاسی اقتصادی اور روحانی طاقت سعودی عرب نے امریکہ کے علاقہ میں سیکورٹی ایشو پر نکتہ چینی کی ہے اور یوکرین کے معاملہ پر امریکہ کا دم چھلہ بننے کی بجائے اپنے ملک، خطے اور امت مسلمہ کے مفادات کو اہمیت اور فوقیت دینے کا اعلان کیا ہے۔ یوروپ کے کئی ممالک بیلاروس اور ہنگری امریکہ اوراس کے حریف چاہتے تھے کہ تیل کی پیداوار کے معاملہ میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک بالکل اس کی ہاں میں ہاں ملائے مگرتیل کی قیمتوں میں اچھال روکنے کے لئے یہ ممالک پیداوار کو بڑھا دیں۔مگران اوپیک ممالک نے یوکرین جنگ کے معاملہ پر بالکل الگ حکمت عملی اختیار کی ہے اور بالکل غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہی غیرجانبداری امریکہ اور اس کے حلیفوں کو کھٹک رہی ہے۔
اس دوران چین کا سعودی عرب اورایران کے درمیان مصالحت کرنا ان ممالک کو گراں گزر رہا ہے۔ گروپ 7ممالک کو لگ رہا ہے کہ اب مغربی ایشیا کے ان ممالک کوامریکہ کے موقف، فکریات یا تحفظات کی قطعی فکر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ منظرپر چین کے آتے ہی اقتصادی سرگرمیوں اور سفارتی کوششوں میں امریکہ اور برطانیہ جیسے ملکوںکا عمل دخل بھی محدود ہوجائے گا۔ یہ سمجھوتہ مغربی دنیا کو ششدر کردینے والا ہے۔ مغرب کو لگ رہا ہے کہ وہ خواب غفلت میں رہے اور چین بازی مار گیا۔ اس کارنامہ سے چین کی غیرجانبداری ظاہر ہوئی ہے اور یہ اعتبار اس کو مارکیٹ بنانے میں اہم رول اداسکتا ہے۔ ان ممالک کولگ رہا تھا کہ یوکرین جنگ کے بہانے روس کو الگ تھلگ کردیا جائے گا مگرایسا لگ رہا ہے کہ مغربی ایشیا کے ممالک کو ذہن میں رکھ کر بنائی گئی اس الگ تھلگ کرنے ولی مہم ناکام ہوگئی ہے۔ روس کے ساتھ ایران کو نشانہ بنانے اور اس کی معیشت کو تباہ کرنے کی من مانی پر مبنی مغرب کی غیرمنصفانہ پالیسی بھی ناکام ہورہی ہے۔
گروپ7 کے مملک ان تمام مسائل پر غور کرنے کے لئے وسط مئی میں ایک سربراہ کانفرنس کر رہے ہیں۔
٭٭٭
ترقی یافتہ ممالک کو زمین کھسکنے کا ڈر
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS