انتخابات کے موقع پر آیا رام گیا رام کی سیاست ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ کچھ لیڈران پہلے ہی بدلتے حالات کو دیکھ کر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں اورکچھ الیکشن کے اعلان کے بعد جب ان کو ٹکٹ نہیں ملتا ہے تو اس امید میں دوسری پارٹیوں کارخ کرتے ہیں کہ وہاں ٹکٹ مل جائے۔کچھ لیڈران اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔کسی پارٹی میں بڑی تعداد میں لیڈران کا استعفیٰ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔بی جے پی میں جس طرح 7لیڈران نے استعفیٰ دیا،اسے نہ تو معمولی کہا جاسکتا ہے اورنہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔سیاسی مبصرین اسے بھگڈر سے تعبیر کررہے ہیںجس کا یقینا پارٹی کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔خبر تو یہ بھی ہے کہ پارٹی کو کم از کم 30اسمبلی حلقوں میں بغاوت کا سامنا ہے، جسے حل کرنے کی ذمہ داری سابق وزیراعلی ٰبی ایس یدی یورپا کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے، جو خود الیکشن نہیں لڑرہے ہیں۔پارٹی ویسے ہی پہلے سے حکومت مخالف لہرسے پریشان تھی،جس کی کاٹ کیلئے کبھی اس نے ٹیپو سلطان، توکبھی حجاب پر پابندی اورحال میں مسلم ریزرویشن کے خاتمہ کاسہارا لیا، لیکن بات بنتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔اب جبکہ بغاوت تیز ہوئی اوراستعفیٰ کاسلسلہ چل پڑا تو پارٹی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔حالانکہ وزیراعلیٰ بسوراج بومئی اب بھی دعویٰ کررہے ہیں کہ بغاوت اور استعفیٰ کا پارٹی کی انتخابی کارکردگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیڈران جارہے ہیں، لیکن کارکنان پارٹی کے ساتھ ہیں۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں میں اس طرح کے حالات ہر الیکشن میں دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن پہلی بار بی جے پی کو بھی ایسے ہی حالات دیکھنے کو مل رہے ہیں جو اچھے اشارے نہیں ہوسکتے۔اس سے لوگوں میں منفی پیغام جاتا ہے، انتخابی مہم چلانے میں پریشانی ہوتی ہے اور الیکشن میں نقصان ہوتا ہے۔
ایسی بات نہیں ہے کہ پارٹی کو اس طرح کے حالات پیداہونے کی جانکاری نہیں تھی، اس کی آہٹ پہلے سے سنائی دے رہی تھی اورپارٹی کو پتہ تھا کہ وہ جیسے ہی ٹکٹوں کی تقسیم کا اعلان کرے گی، بغاوت ہوگی۔پرانے لیڈروں کو ٹکٹ نہ دینا اورممبران اسمبلی کا ٹکٹ کاٹنا پارٹی کی مجبوری بھی تھی، بدلتے حالات اورعوام کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔اسی سے بچنے کیلئے پارٹی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں تاخیر کی تھی۔ریاست کی 2اہم پارٹیوں کانگریس اورجے ڈی ایس نے جب بیشتر ٹکٹوں کا اعلان کردیا تب پارٹی نے دہلی میں اعلیٰ سطحی میٹنگ کرکے 2مرحلوں میں 224ٹکٹوں کا اعلان کیا۔189امیدواروں کی پہلی فہرست11اپریل کو جاری کی اور دوسرے ہی دن 23امیدواروں کی دوسری فہرست جاری کردی،جن میں 58نئے چہرے ہیں،یہ وہ سیٹیں ہیں، جہاں ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے رائے دہندگان ناراض تھے، اس لیے پارٹی نے امیدوار تبدیل کیے اورٹکٹوں کی تقسیم کے بعد وہ لیڈران ناراض ہوگئے، جن کو ٹکٹ نہیں ملا یا جن کا ٹکٹ کاٹ دیا گیا۔ ناراض اوراستعفیٰ دینے والے جونیئر لیڈران نہیں ہیں، بلکہ سابق نائب وزیراعلیٰ لکشمن سوادی، ممبراسمبلی ایم پی کماراسوامی،ایس انگارا، نہرواولیکراوردیگر نے استعفیٰ دے دیا،جبکہ سابق وزیر کے ایس ایشورپانے ٹکٹ نہ ملنے کا اشارہ ملتے ہی امیدواروں کی فہرست جاری ہونے سے پہلے ہی انتخابی سرگرمیوں سے سنیاس لینے کا اعلان کردیا۔ان کے سنیاس لینے کے بعد شیموگہ نگر نگم کے 19ممبران نے استعفیٰ دے دیااورمیئر اورڈپٹی نے بھی عہدہ چھوڑدیا۔اس طرح کرناٹک بی جے پی میں صورت حال یہ ہے کہ کوئی کھل کر ناراضگی کا اظہارکررہا ہے تو کوئی پارٹی سے استعفیٰ دے رہا ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ جب یہ لیڈران انتخابی مہم کے دوران پارٹی کے خلاف کام کریں گے،دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں گے جیساکہ کچھ کے بارے میں امکان ظاہرکیا جارہا ہے اوروہ خود اشارہ دے رہے ہیں یا خاموش رہیں گے تو نقصان یقینا ہوگا۔
کرناٹک میں بی جے پی اب تک 3بارحکومت ضرور بناچکی ہے،لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسے کبھی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہوئی۔ سابقہ اسمبلی انتخابات میں وہ ریاست میں سب سے بڑی پارٹی بن کرضرور ابھری تھی۔کبھی مخلوط حکومت تو کبھی توڑپھوڑ کے ذریعہ اس نے حکومت بنائی۔اس بار اکثریت تو دوربڑی پارٹی بننے کا بڑا چیلنج ہے۔جس طرح اسے بغاوت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے،وہ بھی ان سیٹوں پر جو اس کے قبضہ میں ہیں، ذرابھی نقصان ہوا تو پارٹی کے لیے سنبھلنا مشکل ہوجائے گا۔اسی لیے پارٹی کی ریاستی اورمرکزی قیادت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہی ہیں تاکہ ناراضگی اوربغاوت کا زیادہ اثر پارٹی پر نہ پڑے۔
[email protected]
کرناٹک بی جے پی میں بغاوت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS