پنکج چترویدی
اب تک تقریباً 6 لاکھ 51 ہزار لوگ چار دھام یاترا کے لیے اپنا اندراج کراچکے ہیں۔ صرف بدری ناتھ کے لیے چار لاکھ بارہ ہزار سے زیادہ کا رجسٹریشن ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ اتراکھنڈ کے مقامی لوگوں کو رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہے۔ ہیلی کاپٹر سروس کے لیے رجسٹریشن شروع ہوا اور 30 اپریل تک کے تمام 6263 ٹکٹ فروخت ہوگئے۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال ایک لاکھ 36 لوگوں نے ہیلی کاپٹر سروس کا استعمال کیا تھا۔ واضح رہے کہ گنگوتری-یمنوتری کے دروازے 22 اپریل کو کھل جائیں گے جبکہ بدری ناتھ کے 27کو کھلیں گے۔ اسی سال جنوری میں جوشی مٹھ شہر کا دھنسنا-پھٹنا شروع ہوا تھا، جو اب تک جاری ہے، بس اب کسی کو اس کی پروا نہیں ہے۔ رشی کیش سے بدری ناتھ تک جانے والی قومی شاہراہ جوشی مٹھ سے ہوتے ہوئے ہی چین کی سرحد پر آباد مانا تک جاتی ہے، اس راستے کا 12کلو میٹر کا حصہ جوشی مٹھ میں واقع ہے، جو کہ اس وقت غیریقینی صورتحال اور اندیشے کی زد میں ہے۔
جوشی مٹھ میں آئے قدرتی قہر کے بعد 81 خاندانوں کے 694 افراد پر نئی آفت آگئی ہے کیونکہ ابھی تک تو یہ لوگ شہر کے محفوظ حصے میں بنے ہوٹل-دھرم شالاؤں کے ایک ایک کمرے میں جیسے تیسے دن گزار رہے تھے، اب ان کو یہ جگہ خالی کرنے کے لیے کہہ دیا گیا ہے کیونکہ چار دھام یاتریوں کی بکنگ شروع ہو گئی ہے۔ حکومت نے ڈھاک میں کچھ پری فیبریکیٹڈ مکانات بنائے ہیں لیکن ابھی نہ تو ان کی تقسیم ہوئی ہے اور نہ ہی وہ انسانوں کے رہنے لائق ہوپائے ہیں۔ ایک بکھرے، کراہ رہے اور انہونی کے اندیشوں سے خوفزدہ چمولی سے لے کر جوشی مٹھ تک کے راستوں پر جب ہر دن پانچ ہزار سے زیادہ گاڑیاں اور ہزاروں لوگ گزریں گے تب اس کے تئیں کوئی حساسیت نہیں ہوگی کہ جن پہاڑوں، درختوں، ندیوں نے پانچ ہزار سال سے زیادہ عرصے تک انسانی تہذیب، روحانیت، مذہب، ماحولیات کو فروغ پاتے ہوئے دیکھا تھا، وہ بکھر چکے ہیں۔ نہ سڑک بچ رہی ہے، نہ مکان،نہ ہی ندی کے کنارے۔ آدی شنکراچاریہ کے ذریعہ قائم کردہ مقام، اقدار اور سنسکار کا کیا ہوگا؟ آنسوؤں سے بھرے چہرے اور اندیشوں سے بھرے دل غیریقینی صورتحال اور خدشات کے درمیان آویزاں ہیں۔ جب دنیا پر موسمیاتی تبدیلی کا قہر سامنے نظر آرہا ہے، ہمالیہ پہاڑ پر، ترقی کی نئی تعریف کی تشکیل کی فوری طور پر ضرورت محسوس ہو رہی ہے تب ہم ان تمام خطرات کو نظر انداز کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو دعوت دے رہے ہیں۔ اس وقت چمولی کے گوچر سے بدری ناتھ تک کے 131 کلومیٹر طویل راستے پر 20 مقامات ایسے ہیں جہاں مسلسل لینڈسلائیڈ ہو رہی ہے۔ مارواڑی علاقے میں سب سے زیادہ ملبہ گر رہا ہے۔ چٹواپیپل سے پنچ پلیا کے درمیان کا حصہ، نند پریاگ کا پرتھاڈیپ کا حصہ، میٹھانا، کُہڑ سے باج پور کے بیچ کا حصہ، چمولی چاڑا، برہی چاڑا، بھنارپانی، ہیلنگ چاڑا، ریلنگ سے پینی تک، وشنو پریاگ سے ٹیّا پل کے پاس تک کا حصہ، کھچڑانالا، لامبگڑ سے جے پی پل تک کا حصہ، ہنومان چٹی سے رڈانگ بینڈ کے درمیان والے حصے میں کبھی بھی پہاڑ گرسکتے ہیں، یہ بات انتظامیہ نے قبول کی ہے۔
یمنوتری جانے والی اترکاشی کے دھراسو سے جانکی چٹی تک کی 110 کلومیٹر کی سڑک کو نام بھلے ہی ہائی وے کا دیا گیا ہو، لیکن خود ڈی آئی جی گڑھوال کرن نگنیال یمونوتری ہائی وے کی حالت کو انتہائی خراب بتاچکے ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ ہائی وے پر کئی مقامات پر بوٹل نیک ہے، چوڑا کرنے کا کام بھی چل رہا ہے، اس سے ٹریفک کا نظام متاثر ہو رہا ہے۔ ضلع انتظامیہ نے رانا چٹی اور کسالہ موڑ پر ہائی وے کو حساس قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ کتھنور پول، پالی گڑھ، ناگیلا، پھول چٹی جیسے سات مقامات لینڈ سلائیڈ سے متاثر قرار دیے گئے ہیں۔ کیدارناتھ دھام کی طرف جانے والا رودر پریاگ-گوری کنڈ کی 75 کلو میٹر کی شاہ راہ مسلسل دھنس رہی ہے۔ انتظامیہ اس میں ملبہ بھر رہا ہے لیکن تھوڑی بارش ہوتے ہی ملبہ بھی بہہ رہا ہے اور دراڑیں گہری ہو رہی ہیں۔ چنیالیسوڈ سے گنگوتری تک کے 140 کلومیٹر لمبے راستے کے 52 کلومیٹر کو ملبہ گرنے کے معاملے میں انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔
جان لیجیے کہ پہاڑ پر جہاں جہاں سرپیلی سڑک پہنچ رہی ہے، سیاحوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے، پہاڑوں میں شگاف پڑنے اور کھسکنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اتراکھنڈ حکومت کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ اور ورلڈ بینک نے 2018 میں ایک تحقیق کر وائی تھی، جس کے مطابق چھوٹے سے اتراکھنڈ میں 6300 سے زیادہ مقامات کو لینڈ سلائیڈ زون کے طور پر نشان زد کیا گیا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ ریاست میں چل رہے ہزاروں کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبے پہاڑوں کو کاٹ کر یا جنگلات کو اجاڑ کرہی بن رہے ہیں اور اسی سے لینڈسلائیڈ زون کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
چار دھام یاترا کے لیے ایک بڑی چنوتی بے موسم برفباری ہونا بھی ہے۔ مارچ کے آخری ہفتے میں جم کر برف باری ہوئی۔ پہلے تو یہاں سے برف صاف کر دی گئی تھی لیکن مسلسل ہو رہی برف باری کی وجہ سے پھر سے یہاں برف جمنا شروع ہو گئی ہے۔ مسلسل ہو رہی برف باری کی وجہ سے کیدارناتھ دھام میں دوسرے مرحلے کے تعمیر نو کے کام بھی شروع نہیں ہو پا رہے ہیں۔ اس کام کے لیے پہنچے مزدور مسلسل خراب موسم کی وجہ سے واپس نیچے لوٹ آئے ہیں۔ اب موسم صاف ہونے پر مزدور دوبارہ کیدارناتھ دھام جائیں گے۔ کیدارناتھ مندر کے احاطے میں چار سے پانچ فٹ برف جمی تھی جسے مزدوروں نے صاف کر دیا تھا لیکن مسلسل ہو رہی برف باری کی وجہ سے مندر کے احاطے میں دوبارہ برف جمنے لگ گئی ہے۔ ہیلی پیڈ سے کیدارناتھ میں مسلسل برف کی صفائی جاری ہے۔ یہاں مشینوں کے ذریعے بھی برف کو صاف کیا جا رہا ہے، تاہم اس کے بعد ایک بار پھر کیدارناتھ پیدل چلنے والے راستے نے برف کی چادر اوڑھ لی ہے۔ محکمۂ موسمیات نے اورینج الرٹ جاری کرتے ہوئے چمولی، باگیشور اور پتھورہ گڑھ اضلاع میں 3500 میٹر سے زیادہ اونچائی والے مقامات میں برف باری کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔
جون 2013 کے کیدارناتھ سانحے کو اب ہم بھول چکے ہیں، جبکہ ان دس سالوں میں موسمیاتی تبدیلی اور شدید موسم کی مار دوگنی ہوگئی ہے۔ جوشی مٹھ ہی نہیں، پوری شاہ راہ پر دھنسنے اور ملبہ گرنے کا قوی اندیشہ ہے۔ ایسے میں پہاڑ پر بھیڑ کم کرنا، وہاں کچرا کم کرنا اور مقامی وسائل پر پڑنے والے بوجھ کو کم کرنا وقت کی ضرورت ہے اور اس صورت میں آستھا کے نام پر کاروبار کی ہوس کو بھی کم کرنا ہی ہوگا۔
[email protected]